حبیب جالب کے فلمی گیتوں کا سفر


شاعر عوام حبیب جالب ( 24 مارچ 1928۔ 13 مارچ 1993) نے نہ صرف ہر ظالم، جابر اور آمر کی چیرہ دستیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ عوام کے جذبات و احساسات کی بھی ترجمانی کی۔ حبیب جالب کی زندگی سیاست کے فرعونوں اور زرداریوں کو للکارتے گزری اور نتیجتاً انھیں اپنی اس مزاحمتی سوچ کا خمیازہ قید و بند کی صورت بھگتنا پڑا۔ جالب سر سے پاؤں تک مزاحمت اور بغاوت کا نام تھا۔ ان کی زندگی ان کے تخلیق کردہ شعر کے مصداق تھی:

یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

جالب کے سیاسی اور طبقاتی شعور نے انہیں عمر بھر آتش زیرپا رکھا۔ یہ ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا، اسے ہم ان کا جلالی پہلو بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا ایک اور رنگ ان کا فلمی دنیا سے وابستہ ہونا بھی ہے۔ بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ انہوں نے پاکستانی فلم ’غالب‘ ( 1959 ع) میں مشہور شاعر مومن خان مومن کا کردار بھی ادا کیا تھا۔ ہمیں اس سے پہلے منٹو کی فلمی اداکاری اور مکالمہ نگاری کا علم تھا۔

حبیب جالب نے گیت نگار کے طور پر فلمی دنیا کے لیے بہت سے یادگار نغمے اور گیت چھوڑے ان کے گیتوں کی تعداد کم و بیش تین سو ہے۔ ان کے بہت سے گیت ان کے فلمی گیتوں کے مجموعے ”رقص زنجیر“ میں شامل ہونے سے رہ گئے۔ ان کا پہلا فلمی گیت ”مس 56“ کے لیے تھا۔ اس گیت کو مہدی حسن اور نذیر بیگم نے گایا تھا۔ اس گیت کے بول تھے :

یہ چاندنی یہ سائے
پہلو میں تم ہو میرے
پھر کیوں نہ پیار آئے

حبیب جالب کے معاشی حالات کبھی بھی اچھے نہیں رہے مگر انہوں نے ہر مقام پر ہر حالت میں اپنی انا اور خودداری کو رسوا ہونے سے بچائے رکھا۔ جالب کی طرح داری فلمی دنیا میں اس وقت بھی قائم رہی جب فلم کے موسیقار  نے انہیں دو دن بعد ملوانے کو کہا تو انہوں نے جھٹ سے یہ کہا :

” میں اس شخص کے ساتھ بیٹھنا ہی نہیں چاہتا اور یہ مجھے دو روز بعد کا ٹائم دے رہا ہے۔ “

ان دنوں جالب نے ریاض شاہد کی فلم ’بھروسا‘ کے لیے تین سو روپے ایک گیت کے حساب سے تین گیت لکھوائے اس طرح انہیں نو سو روپے کی ’خطیر رقم‘ ہاتھ آئی۔

حبیب جالب نے اپنے آدرشوں سے روگردانی فلمی دنیا میں رہتے ہوئے بھی نہیں کی۔ یہاں انہوں نے ایک انقلابی نوعیت کا حلقہ بنا لیا تھا۔ اس فکری حلقے میں فلمی دنیا کے نامور اداکار، فن کار اور موسیقار وغیرہ شامل تھے ان میں علا الدین، آغا طالش، خلیل قیصر، ریاض شاہد، رشید عطرے، ساقی اور حسن شاہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ کشمیر، فلسطین اور فرنگی استبداد کے خلاف شعوری سطح پر بیدار ان فنکاروں نے سماجی، سیاسی موضوعات پر فلمیں بنائیں۔ انقلابی اور مزاحمتی فلموں کو کامیاب کرنے میں حبیب جالب کے گیتوں کا بھی نمایاں کردار تھا۔ فلم شہید،

فرنگی، زرقا اور یہ امن جیسی لازوال فلمیں اب بھی ہماری فلم انڈسٹری کا اثاثہ سمجھی جاتی ہیں۔ موجودہ دور میں اتنی محنت، ریاضت اور کمٹمنٹ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ فلم زرقا کا یہ گیت بہت مشہور ہوا :

تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
( فلم :زرقا 1969 آواز : مہدی حسن )

حبیب جالب کی ایک اور تاریخی فلم ”یہ امن“ 1971 میں ریلیز ہوئی۔ ریاض شاہد کی اس فلم کا موضوع کشمیر کی آزادی سے متعلق تھا۔ اس کا لازوال گیت :

ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو

بین الاقوامی سطح کے پیغام کا حامل بن گیا۔ آج بھی اس نغمے کو جبر کے خلاف صدائے احتجاج کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس نغمے کے بارے میں حبیب جالب نے بات کی اس سے ان کے فن، نغمے کے Theme پر روشنی پڑتی ہے۔ اپنی سوانح عمری ’جالب بیتی‘ میں وہ کہتے ہیں :

” نور جہاں نے میرے بے شمار گیت گائے ہیں مگر مجھے اس دن بہت خوشی ہوئی جس دن انہوں نے میرا یہ نغمہ گایا۔ میں نے میڈم نورجہاں سے کہا ب تک آپ نے میرے جتنے نغمے گائے وہ بہت اچھے ہیں لیکن اس گیت کی فضا کچھ اور ہے۔ یہ ان سے الگ ہے۔ یہ ایک انٹرنیشنل تھاٹ کا گانا ہے۔ میں نے یہ لکھا بھی تھا کہ اس کا تخیل روس اور چین کے تناظر میں ہے۔“

فلم ”وطن کا سپاہی“ کا انقلاب آفریں گیت مسعود رانا اور شوکت علی نے اپنی سنگت کے ساتھ گایا جو بہت مقبول ہوا، گیت تھا :

کر دے گی قوم زندہ ماضی کی داستانیں
باطل کی وادیوں میں گونجیں گی پھر اذانیں
فلم ’زرقا‘ کا یہ گیت بھی آزادی فلسطین کے جذبے کو زندہ کرتا نظر آتا ہے :
ہمیں یقیں ہے ڈھلے گی اک دن ستم کی یہ شام اے فلسطین!
(موسیقی : رشید عطرے، آواز : منیر حسین، نسیم بیگم)

’یہ امن‘ کے نام سے بننے والی فلم میں حبیب جالب کا لکھا ہوا یہ گیت اپنے اندر رجزیہ انداز لیے ہوئے ہے :

اپنی جنگ جاری رہے گی
(موسیقی : اے حمید، آواز : مہدی حسن )

حبیب جالب نے انقلابی گیتوں کے علاوہ فلم کے سکرپٹ اور کیفیت کے مطابق رومانوی گیت بھی لکھے۔ میڈم نورجہاں کے گائے ہوئے اس گانے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی :

تن تو پہ واروں من تو پہ واروں۔
(فلم ناگ منی، موسیقی نثار بزمی، آواز نور جہاں )
حبیب جالب کے کچھ دوسرے محبت بھرے گیتوں کو یاد کرتے ہیں :
* من میں اٹھی نئی ترنگ۔ ( فلم: ناگ منی)
* اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے۔ ( فلم : زخمی، موسیقی : اے حمید، آواز : مہدی حسن )
* اس بے وفا نے داغ تمنا دیا مجھے۔ ( فلم : ماں، بہو اور بیٹا، موسیقی : حسین لطیف، آواز : مہدی حسن )
* چہرے پہ گرا آنچل ہو گا، یہ آج نہیں تو کل ہو گا۔ (فلم : ماں بہو بیٹا )
* بے وفا ہیں صنم آج کل کے۔
(فلم : عورت ایک کہانی، موسیقی : قصوم رحیم، آواز : نسیم بیگم، نسیم شاہین )

حبیب جالب نے جب فلمی دنیا میں قدم رکھا تو اس وقت قتیل شفائی، سیف الدین سیف، مسرور انور، تنویر نقوی اور کلیم عثمانی جیسے نغمہ نگاروں کا طوطی بول رہا تھا، ایسے میں جالب نے اپنے لیے الگ شناخت بنائی۔ جالب نے جن فلموں کے لیے گیت لکھے ان میں ہاشو خاں، بے رحم، کون کسی کا، سماج، چوروں کی بارات، کروڑ پتی، لنڈا بازار، حسینوں کی بارات، معجزہ، شوق آوارگی، شام ڈھلے، قبیلہ، جوکر، قیدی اور انسان وغیرہ شامل ہیں۔

حبیب جالب کو ادب، جمہوریت، انسانی حقوق اور فلم انڈسٹری کے لیے شاندار کام کرنے پر اعزازات سے نوازا گیا، ان میں گریجوایٹ ایوارڈ 1966، 1988، نگار ایوارڈ 1969۔ 1986۔ 1987، قومی فلم ایوارڈ 1990.1991، حسرت موہانی ایوارڈ 1988، جمہوریت ایوارڈ 1989، انجمن تحفظ حقوق انسانی 1980۔ 1986، اور نشان امتیاز ( بعد از وفات ) 1994 شامل ہیں۔

دکھ اور سکھ کی گھڑیوں میں یہ بڑا شاعر اور فنکار اپنے چاہنے والوں کو افسردہ کر کے رخصت ہوا، وہ اپنے گیتوں، نغموں اور انقلابی نظموں میں زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اصغر سلیم کا یہ شعر برمحل ہے :

اپنی دھن میں گاتے گاتے ہو گیا جالب خموش
اور اک نغمہ صلیب مرگ پر وارا گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments