تہذیب کا سوسائیڈ نوٹ


ہو سکتا ہے کہ ہماری اس تحریر کے باعث ہمیں کچھ حضرات انتہاپسند، یا شدت پسند وغیرہ یا ان سے بھی زیادہ سخت القاب و خطابات سے نوازیں تاہم، ہم ان کے سامنے اپنی معروضات ضرور رکھنا چاہیں گے۔ ہمارے پاس اس سلسلے میں خودساختہ ہی سہی استدلال اور منطقی جواز بھی موجود ہیں، جو کم از کم ہمارے اطمینان کے لیے کافی ہیں۔

یاد نہیں یہ کس کا قول ہے لیکن یہ ہر دور میں کرسی نشین ہے :
”تہذیبوں کو قتل نہیں کیا جاتا لیکن یہ خودکشی کرتی ہیں۔“

اور سندھ میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری تہذیب جو کہ وادی سندھ کی قدیم ترین، وسیع تر اور شاندار تہذیب ہے، سکڑ کر اب صوبہ سندھ تک محدود ہو چکی ہے یا پھر اس کے بھی گاؤں دیہاتوں تک محدود کر دی گئی ہے یا اس کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور وہ شاید خودکشی کی طرف بھی مائل ہے۔ اور اس کا سوسائیڈ نوٹ ہمارے سامنے ”رومن اردو“ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارا اشارہ ان دو سوسائیڈ نوٹس کی طرف ہے جو ہم نے سال رواں کے دوران میں دو خودکشی کنندہ سندھیوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر پڑھے ہیں۔

یہ دونوں سوسائیڈ نوٹس دو پڑھے لکھے معروف خاندانوں کے سندھیوں ؛ دونوں صنفوں کی طرف سے لکھے گئے ہیں، اور دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں نوٹ رومن اردو ‏ میں تحریر کیے گئے ہیں۔ البتہ ہم دونوں شخصیات کے نام لکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ نہ ہی اس سلسلے میں ان کے خاندانوں کو دوش دیا جا سکتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا ملک یا صوبے خودمختار ہوں یا نہ ہوں اپنی حماقتوں کے لیے ہم سب آزاد و خود مختار ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ خودکشی اور عشق وغیرہ جیسی چیزیں بہت ہی زیادہ ذاتی یا نجی نوعیت کی باتیں ہیں۔ اور ان کے بارے میں اظہار یا انکشاف مادری زبان یا آبائی زبان میں کرنا ہی مناسب ہے۔ اپنے ما فی الضمیر کے بیان کے لیے سب سے اہم اور بہتر ین ذریعہ اپنی ہی زبان ہو سکتی ہے۔ چاہے سیاسی مصلحت و مفاد یا پھر کسی غلط معاشرتی رجحان یا غلط فہمی کے باعث کوئی مسلط شدہ زبان کسی قوم کے کسی خاص طبقے کے دل و دماغ پر حاوی ہی کیوں نہ ہو چکی ہو۔

برسوں پہلے ایک بھائی صاحب کو اپنے بچوں سے مادری کے بجائے قومی زبان میں باتیں کرتا دیکھ کر ہم نے ان سے گزارش کی کہ اپنے بچے کو مادری زبان سے محروم نہ کریں تو انہوں نے فرمایا ”مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی“ ۔ تاہم وہ مچھلی کا بچہ جب بڑا ہوا تو ہم نے پایا کہ اڑ تو سکتا ہے تیر نہیں سکتا!

ہمارے ایک عزیز نے غیروں میں سے شادی کی ہے اور ان کو سلام ہے کہ ان کی اہلیہ سندھی بول لیتی ہیں اور ان کے بچے بھی سندھی اور اردو دونوں زبانیں غلط/صحیح ایک جیسی ہی بولتے ہیں۔

ایک اور عزیز نے اگرچہ اپنوں میں ہی سے شادی کی ہے لیکن ان کی اہلیہ اپنے بچوں سے اردو بولنا زیادہ پسند کرتی ہیں۔ ہمیں نہیں پتہ کہ اس کا سبب کوئی جینیاتی گڑبڑ ہے یا نفسیاتی گرہ یا پھر کوئی خود نافذ کردہ معاشرتی دباؤ۔ یا پھر کم تری یا برتری کا کوئی احساس؟ کچھ بھی ہو یہ رجحان کم ازکم ہماری نظر ‏میں غلط ہے۔ ایک منفی رجحان، جس کے باعث حاصل کچھ نہیں ہوتا البتہ بچے کے اپنی مادری زبان کھونے کے امکان خاصے روشن ہیں۔

کہتے ہیں کہ خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں ایک شخص پیش ہوا جس نے بڑی مشق کے بعد دور سے سوئی کے ناکے میں تاک کر دھاگا پھینک کر ڈالنے کا ہنر سیکھا تھا۔ اس نے خلیفہ کے دربار میں اپنا ہنر پیش کیا تو خلیفہ نے جہاں اسے کئی اشرفیاں انعام میں دیں وہیں اتنے ہی کوڑے بھی لگوائے۔ سبب پوچھا گیا تو بتایا کہ، ”اس کا فن تو واقعی کمال ہے اس لیے اسے انعام سے نوازا لیکن ایک ایسا کام جو عام انداز میں ہو سکتا ہے اس کے لیے اس طرح سے وقت کا زیاں موجب سزا ہے۔“

ہمارا مطلب ہے کہ بچے عام طور پر اردو سیکھ ہی جاتے ہیں اس لیے اردو سے محرومی کے وہم کے باعث بچے کو مادری زبان سے محروم کر دیا جانا کون سا کمال ہو گا؟

ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی بچہ عام طور ایک ہی وقت ‏میں کئی زبانیں بہ آسانی سیکھ بول سکتا ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں ہی جھانک لیں تو اس وقت بھارت کے کچھ علاقوں دو تو کئی علاقوں میں سہ لسانی تعلیمی نظام نافذ ہے۔ لیکن وہاں دونوں نظاموں میں مادری زبان کو خارج نہیں کیا گیا جب کہ پاکستانی بچوں کی ایک قابل ذکر تعداد اپنی مادری زبانیں لکھنے، پڑھنے یا بولنے میں سے کسی ایک دو یا پھر الا ماشا اللہ تینوں ہی صلاحیتوں سے ہی محروم ہیں۔

سندھ سمیت پورے پاکستان میں شہری علاقوں کے بچے گھر اور میڈیا اور گھر سے باہر مادری زبانوں، اردو اور انگریزی زبانوں سے کسی نہ حد تک واقف ہوتے ہیں۔ البتہ بہت تھوڑے علاقوں میں انہیں اپنی مادری زبان بولنے والے نہیں بھی ملتے۔ اگر ایسے علاقے میں ان کے والدین ان سے اپنی زبان میں بات نہیں کریں گے تو یوں وہ اپنے بچوں کو بلاوجہ ایک صلاحیت ایک زبان سے محروم کر دیں گے۔

موجودہ دور کا شہری بچہ (کم از کم ایک سندھی دان) دو سے تین زبانوں کی شد بد رکھتا ہی ہے۔ آپ اپنے بچے سے اپنے گھر میں اپنی زبان میں بات کریں۔ اور اگر ممکن و میسر ہو تو مادری زبان میں ہی تعلیم بھی دلائیں۔ البتہ انگریزی اور اردو سے بھی بے رغبتی بھی قطعاً مناسب نہیں۔ تاہم انہیں اپنی مادری زبان سے دور رکھنا، ان سے فیشن کے طور پر یا کسی بھی دوسرے منطقی یا غیرمنطقی وجہ سے غیر زبان کو مادری زبان کے متبادل کے طور پر اختیار کرنا ایسا ہی ہو گا جیسے آپ کسی ایک ایسے پرندے کو جو کہ پیروں پر چلنے اور پروں سے اڑنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ پانی میں تیرنے کے خوبی بھی رکھتا ہو اسے اس کی کسی ایک صلاحیت سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایسے علاقے جہاں آپ کے ہم زبان نہ ہوں وہاں آپ کا بچہ اردو اور انگریزی جیسی زبانیں گھر میں نہ سہی گلی یا محلے میں یا میڈیا یا سوشل میڈیا سے سیکھ سکتا ہے لیکن مادری زبان کے سیکھنے، سمجھنے کے وسائل جو آپ کی بے گانگی اور لاپروائی سے محدود سے محدود تر ہو گئے ہیں، اس وجہ نے اس کے اپنی مادری زبان سے محرومی کے امکانات بڑھا دیے ہیں۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ آپ اس سے اس کی مادری زبان میں بات کریں۔

کیا آپ کے خیال میں یہ بہتر ہو گا کہ آپ کا بچہ صرف اردو یا انگریز بول سکتا ہو، یا یہ کہ وہ ان کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان بھی لکھ پڑھ اور بول سکتا ہو؟

خصوصاً اس صورت میں جب کہ اس وقت سندھی زبان کئی میدانوں میں کسی حد تک اکنامک ٹول یا ذریعہ معاشی بھی ہے۔ یعنی اس زبان کے ذریعے آپ کا بچہ کئی شعبوں میں مثال کے طور پر تعلیم یا ابلاغ سمیت کئی شعبوں میں روزگار بھی حاصل کر سکتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ اپنے بچوں کو اپنی زبان سے دور رکھنا اپنی تہذیب اور ثقافت سے دور رکھنے کے مترادف ہے اور اسی کو ہی شاید تہذیبوں کی خودکشی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مرحلہ وار خودکشی۔

لہذا ہماری اس قسم کے خواتین و حضرات سے التجا اور التماس ہے کہ برہ کرم اپنی مادری زبانوں کو نہ بھولیں نہ نظرانداز کریں۔ خودکشی بے شک کر لیں۔ لیکن کم از کم سوسائیڈ نوٹ تو مادری زبان میں چھوڑ جائیں۔ تاکہ پتہ چلے کے کسی فرد نے خودکشی کی ہے۔ دوسری صورت ‏میں یوں لگے گا کہ کوئی تہذیب نے خودکشی کر رہی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments