پاکستان یا اچانکستان


اگر پاکستانی تاریخ کو غور سے دیکھا جائے تو یہاں بہت کچھ بلکہ سب کچھ اچانک ہی ہوتا ہے۔ چلیں تھوڑی اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔

1940 میں لاہور میں قرارداد پاس ہو گئی اور اچانک 1947 میں پاکستان بن گیا۔ ایک سال بعد مسٹر جناح اچانک وفات پا گئے۔ پھر لیاقت علی خان کو اچانک گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد پتہ نہیں کس طرح اور کون حکومتیں چلاتا رہا کہ اچانک 1958 میں جنرل ایوب خان نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اور اچانک مارشل لاء لگ گیا۔ پھر اچانک ایوب خان کے وزیر خارجہ نے 1967 میں الگ پارٹی بنائی۔ جس کو پیپلز پارٹی کا نام دیا گیا۔ 1969 میں ایوب خان نے حکومت جنرل یحیٰی کے حوالے کی۔

1970 میں الیکشن ہوا اور اچانک تین سال پہلے بنائی گئی پارٹی نے مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت حاصل کی۔ جبکہ مشرقی پاکستان اور متحدہ پاکستان میں مجموعی طور پر عوامی لیگ کامیاب ہوئی۔ اچانک بھٹو صاحب نے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگایا اور جواب میں شیخ مجیب نے بنگلہ دیش کا نعرہ لگایا۔ اور پھر اچانک پاکستانی فوج اور عوامی لیگ کے حامیوں کے درمیان مسلح جھڑپیں ایک جنگ کی صورت اختیار کر گئیں۔ اور پھر اچانک انڈیا نے بھی اپنی فوج بنگلہ دیش کی مدد کے لئے بھیج دی۔

اور یوں 26 مارچ 1971 کو اچانک پاکستان دولخت ہوا اور ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ 1977 تک کچھ اچانک نہیں ہوا لیکن جیسے ہی بھٹو صاحب نے عام انتخابات کرائے اچانک اپوزیشن جماعتیں سڑکوں پر آئیں اور دھاندلی کا الزام لگایا۔ سیاسی پارٹیاں اور بھٹو صاحب سیاسی حل کے لئے مذاکرات میں مصروف تھے کہ اچانک 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر آ کر قوم کو اچانک مارشل لاء کی خوشخبری سنائی۔ 90 دن کے بعد الیکشن کے وعدے پر 11 سال حکومت میں گزارنے کے بعد اچانک 17 اگست 1988 کو جنرل ضیاء الحق ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہونے۔

پھر اچانک غلام اسحاق خان صدر پاکستان بنے۔ جنھوں نے ایک لمبے عرصے کے بعد ملک میں الیکشن کروائے۔ اچانک بینظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔ ابھی وہ عثمان بزدار کی طرح سیکھ ہی رہی تھی کہ اچانک غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت ختم کردی۔ پھر الیکشن ہوئے اور اس دفعہ اقتدار کا ہما نواز شریف کے سر پر بیٹھ گیا۔ ابھی وہ کرسی پر صحیح طریقے سے بیٹھنا سیکھ رہے تھے کہ اچانک غلام اسحاق خان کی انگلیوں میں پھر حرکت ہوئی اور نواز شریف کو فارغ کر دیا۔ پھر الیکشن اور بینظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم۔ لیکن اس دفعہ ان کے اپنی پارٹی کے صدر فاروق لغاری نے اچانک ان کی حکومت کی چھٹی کردی۔ پھر الیکشن اور نواز شریف دوبارہ وزیراعظم۔

اور پھر اچانک اچانکی ہو گئی۔ اس دفعہ جنرل مشرف جو کہ کولمبو سے پاکستان آ رہے تھے انہوں نے اچانک ہوا سے میاں صاحب کو معزول کر کے ٹی وی پر میرے عزیز ہم وطنو کا نعرہ لگا کر قوم کو مارشل لا کی نوید دی۔ نواز شریف کو بمع بھائی کے جیل میں بند کر دیا گیا اور ان کے خلاف کیس بنائے گئے۔ اور پھر اچانک نواز شریف کو پورے خاندان سمیت سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو پاکستان آنے اور سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی گئی۔

جنرل مشرف بلاشرکت غیرے ملک کا حکمران بن گیا۔ 10 سال ان کا قبضہ ریا۔ سب کچھ ٹھیک تھا کہ اچانک انھوں چیف جسٹس افتخار چودھری سے پنگا لے لیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے جنرل مشرف کی حکمرانی کو سڑکوں پر چیلنج کیا گیا۔ اس دوران اچانک بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی بھی پاکستان آمد ہوئی۔ پیپلز پارٹی اور نواز شریف دوبارہ سیاست میں حصہ لینے لگے کہ اچانک ہماری تاریخ کا ایک اور بڑا سانحہ ہوا 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کو پنڈی میں قتل کیا گیا۔

خیر جیسے تیسے کر کے ایک دفعہ پھر ملک میں الیکشن ہوئے اور اس دفعہ اچانک آصف زرداری صاحب صدر پاکستان بنے۔ اور جنرل مشرف دبئی شفٹ ہوئے۔ انھوں نے اپنے 5 سال پورے کیے اور جیسے نئے الیکشن ہوئے تو نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ابھی ان کے ”ہاتھوں کی مہندی“ خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک پانامہ سکینڈل اگیا اور نواز شریف نا اہلی کے ساتھ ساتھ جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے۔ نواز شریف کو 7 سال کی سزا ہوئی۔

پھر نئے الیکشن ہوئے اور اس دفعہ اچانک ایک ایسی پارٹی جیت گئی جس نے پہلے کسی الیکشن میں کوئی مناسب کارکردگی نہیں دکھائی تھی۔ اچانک جیت کی خوشی تو کچھ دن منائی گئی لیکن گورننس کرنا ان کے لئے کچھ اسان نہیں تھا۔ دوسری طرف معاشی مسائل تھے جو پی ٹی آئی حکومت کے لئے مستقل چیلنج بنتے گئے۔ تیل، گیس اور بجلی کی قیمتیں اسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ ساتھ میں اشیائے خورد و نوش و نوش کی قیمتیں کنٹرول سے باہر ہونے لگیں۔

شروع میں تو حکومت نے ساری ذمہ داری پچھلی حکومتوں کی غلط پالیسیوں پر ڈالی۔ اور ہر غلط کام کے لئے سابقہ حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ مگر کب تک دوسروں کو پر ذمہ داری ڈالی جا سکتی۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی طوفان کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت بہت تیزی سے عوام میں غیر مقبول ہو گئی۔ اس دوران پھر ایک اچانکی ہوئی جب نواز شریف کی جیل کے اندر اچانک طبیعت بگڑ گئی۔ اور اچانک ہی ان کو جیل سے نکال کر لندن بھیجا گیا۔

پی ٹی آئی حکومت کرتی رہی۔ اپوزیشن کبھی کبھار ہلکی پھلکی تنقید کرتی لیکن حکومتی پروپیگنڈے میں جلد ہی دب جاتی۔ اپوزیشن جماعتوں نے ایک آدھ دفعہ حکومت پر لانگ مارچ کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ کرتے کرتے پونے چار سال گزر گئے۔ جو حکومت کو غیر مقبولیت کی انتہا پر لے گئے۔ اب جب حکومت انتہائی غیر مقبول ہو گئی تھی اور آنے والے الیکشن میں صرف ایک سال رہ گیا تھا۔ جس میں اپوزیشن اتحاد کو واضح اکثریت ملنے کی امید تھی۔

کیونکہ حکومت خراب گورننس اور مہنگائی کی وجہ سے عوام میں مقبولیت کھو چکی تھی۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں کی کامیابی کے امکانات کافی زیادہ تھے۔ اپوزیشن نے پی ڈی ایم اور پارٹی سطح پر علیحدہ علیحدہ آنے والے الیکشن کی تیاریاں شرع کردی۔ آنے والا بجٹ پی ٹی آئی حکومت کے لئے ایک بہت بڑا امتحان تھا۔ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کے تحت بجلی، گیس اور پٹرول کو مزید مہنگا کرنے سے عوام میں پی ٹی آئی کے خلاف غیض و غضب نے اتنا پڑھنا تھا کہ حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوتا۔

اس بات کا حکومت کو بھی اندازہ تھا لیکن ان کے پاس بھی آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ حکومت کی پریشانی دن بہ دن بڑھ رہی تھی کہ اچانک اپوزیشن نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔ ساتھ میں پنجاب میں پی ٹی آئی کے مخلوط حکومت کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد کا اعلان کیا۔ عمران خان نے اس موقع کو اپنی سیاسی فائدے کے لئے استعمال کر نے کا پروگرام بنایا۔ اچانک ایک جلسے کے دوران ایک کاغذ ہوا میں لہرا کر اپنے خلاف عدم اعتماد کو امریکی سازش قرار دیا۔

اور لوگوں کو امریکہ کی غلامی سے آزادی کی نوید سنانے لگا۔ عدم اعتماد کے بعد روزانہ کے جلسوں میں اس نے نئی حکومت کو امریکہ کی جانب سے امپورٹڈ قرار دینا شروع کیا۔ اور اپوزیشن کو غدار اور امریکی پٹھو کہلانا شروع کیا۔ پی ڈی ایم نے مرکزی حکومت تو سنبھال لی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس ملک میں مہنگائی ختم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کا کوئی پروگرام نہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے اور ان کی کڑی شرائط ماننے کے علاوہ حکومت کے پاس کچھ بھی نہیں۔ بلکہ معاشی ماہرین تو ملک کے دیوالیہ ہونے کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ اب یہ اچانک آنے والی حکومت اور اس کے اتحادی اس دعا میں مصروف ہیں کہ کہیں سے کوئی اچانکی ہو جائے اور عزت سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ اپنے اپنے گھر چلے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments