سدھو موسے والا اور آرٹیکل 295


سدھو موسے والے کا ذکر میں نے پہلی بار اپنی ایک کولیگ کے منہ سے سنا تھا وہ بتا رہی تھی کہ آج کل نوجوان بچے کس کو سننا پسند کرتے ہیں اس فہرست میں اس نے سدھو موسے والے کا نام لیا۔ نام شروع میں تو بہت عجیب لگا کہ یہ کیا نام ہوا۔ اسی نرالے نام نے دماغ میں اپنا اثر چھوڑا اور وہ نام مجھے یاد رہ گیا۔ ابھی یہ بات ہی نہیں ہوئی تھی کہ ایک طالب علم سدھو کے گانوں کے باروں میں بتانے لگا۔ نام تو پوری طرح ازبر ہو گیا لیکن اس سب کے باوجود مجھے آج تک اس کے کسی ایک گانے کو سننا نصیب نہ ہوا۔

اتوار کے روز بستر پر لیٹا لیٹا کتاب پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران ہاتھ فیسبک تک جا پہنچا اور میری فرینڈ لسٹ میں ایڈ طلبا اور خوش رنگ دوستوں نے سدھو کے قتل کے سٹیٹس لگانا شروع کر دیے۔ یہ خبر نفس انسانی کے قتل کی تو تھی ہی لیکن ساتھ ہی یہ خبر ایسی شخصیت کی موت کی تھی جس کے کروڑوں مداحین تھے۔

خبر کا آنا تھا تو میں نے سدھو کے بارے میں سرچ کرنا شروع کر دیا۔ 27 سالہ نوجوان سدھو انڈین کانگریسی پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھ چکے تھے اور 20 سال کی عمر میں ہی اس میدان کار زار میں آئے۔ جس دن سدھو کا قتل ہوا اسی روز مودی سرکار نے سکیورٹی واپس بلانے کے احکامات جاری کر دیے اور دن دیہاڑے جوان سیاسی و شوبز شخصیت کا قتل ہوا۔ یہ صرف قتل ہی نہیں بلکہ کھلم کھلا دہشتگردی کا واقعہ بھی تھا کہ مارنے والوں نے گولیوں کے 30 راؤنڈ خالی کر دیے۔ اس قدر واضح بہیمانہ قتل کہ سوچنے والوں کی روح کانپ جائے۔

ان باتوں کے علاوہ یہ بات جان کر انتہائی حیرت ہو گی کہ سدھو نے اپنی موت کی پیش گوئی بھی کر دی تھی۔ ابھی اسی مضمون میں کافی حیرت کا عنصر باقی ہے بس تحمل کر کے پڑھتے جائیے۔ سدھو کا ایک گانا ہے 295۔ یہ گانا اس نے انڈین پینل کوڈ کے آرٹیکل 295 کی مذمت میں لکھا۔ گانے میں وہ اپنے آپ کو اور لوگوں کو ہدایت کرتا رہا کہ مذہبی گفتگو کرنے سے احتراز برتیں ورنہ آرٹیکل 295 لگ جائے گا۔ ایسا لگتا انڈیا میں بھی آرٹیکل 295 کی کافی بازگشت ہے مگر ان کی ”حرمت مذہب“ کی خبریں میڈیا میں نہیں آتیں۔ شاید ایسا میڈیا پر پابندی کی وجہ سے ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے انڈیا پاکستان کا پینل کوڈ 1860 یعنی انگریز کا دیا ہوا ہے تو لہذا آرٹیکل 295 بھی وہی ہے لیکن پاکستان میں اسی آرٹیکل کے اضافہ جات بھی ہیں۔

مزید تحیر میں ڈالنے کی بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا گانے کے کور فوٹو پر سدھو اپنی کنپٹی پر اپنے ہاتھوں سے پستول بنا کر اپنے قتل کا اشارہ دے رہا ہے۔ آپ یہ جان کر انگشت بہ دنداں ہو جائیں گے جب سدھو کا قتل ہوا تو تاریخ 29/5 تھی۔ اگر سدھو مسلمان ہوتا اور اس گانے کا انداز قوالی سا ہوتا تو وہ وقت کا ولی ٹھہرایا جاتا اور اس کی یہ پیش گوئی کرامت مانی جاتی ساتھ ہی اس کے قتل کو شہادت قرار دے کر مزار بنا دیا جاتا۔ سدھو کا آخری گانا ’دی لاسٹ رائیڈ ”the last ride ہے۔ اس گانے میں وہ اپنی جوانی کی موت کا ذکر کرتا ہے اور یہ گانا آج سے دو ہفتے پہلے جاری ہوا۔

حیرت کا سلسلہ ختم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments