مغل اعظم، نیا شہزادہ سلیم اور انار کلی


میرے سامنے فلم چل رہی ہے بادشاہوں، شہزادوں اور کنیزوں کی جس میں ظل الٰہی کا وقار اور دبدبہ ہے شہزادوں کے خواب ہیں محبت کی داستانیں ہیں زندگی کی تلخیاں ہیں ٹوٹتی امیدیں ہیں جوش اور جنون ہے طاقت کی آنکھ میں شعلے ہیں جن کو دعاؤں اور حکمت عملیوں سے حاصل کیا گیا تھا ان لاڈلوں کی کہانیاں ہیں محسنوں اور احسان فراموشوں کی تلخ حقیقت ہے۔ شہنشاہوں کے بنائے گئے مضبوط قلعے جو کھنڈرات میں بدل گئے لیکن ریشہ دوانیاں اور محلاتی سازشیں آج بھی جاری ہیں۔ وقت آگے بڑھ رہا ہے لیکن انسانوں کے رویوں میں فرق نہیں آیا

کڑکتی دھوپ اور گرمی سے تپتے ریگ زار میں شہنشاہ ہند اکبر اعظم حضرت سلیم چشتی کے مزار پر حاضری دینے اس شان سے چلے کہ ان کا لاؤ لشکر ان کے پیچھے گھوڑوں اور ہاتھیوں پر سوار ہے اور وہ سر جھکائے تپتی ریت پر ننگے پاؤں حضرت سلیم چشتی کے مزار کی طرف چلے جا رہے ہیں اس امید اور آس کے سہارے کہ شیخ الوقت کی دعاؤں سے خداوند کریم انہیں ایک ولی عہد عطا کرے گا تا کہ اس بابری تاج و تخت کا کوئی وارث پیدا ہو جائے اور مغلیہ خاندان کا سلسلہ چلتا رہے اور اکبر خوش قسمت تھے حضرت سلیم چشتی کی دعاؤں کے طفیل ان کو نرینہ اولاد عطا ہو گئی جو کہ بعد میں شہزادہ سلیم اور شیخو کے نام سے مشہور ہوئی۔

تاج محل کا جلال و جمال دیکھنے کے بعد مزید کسی اور یاد گار یا تاریخی مقام کو دیکھنے کی تمنا نہ رہی۔ شہنشاہ اکبر کا مقبرہ بھی آگرہ شہر کے اندر سکندرا کے علاقے میں موجود ہے لیکن بھائی ونود ساہی نے کہا آپ نے یہاں کے سارے تاریخی مقامات دیکھ لیے ہیں لگے ہاتھ فتح پور سیکری کو بھی دیکھ لیں جو آگرہ سے صرف چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے آپ نے آدھے گھنٹے تک پہنچ جانا ہے۔ فتح پور سیکری اکبر اعظم کے وقت ان کی راجدھانی تھی اور وہاں شیخ سلیم چشتی کا مزار بھی ہے اکبر نے جب گجرات فتح کر کے حضرت معین الدین چشتی کے مزار حاضری دی اور وہاں نرینہ اولاد کے لئے دعا کی تو اس موقع پر بشارت ہوئی کہ وہ ننگے پاؤں سیکری جا کر سلیم چشتی کے مزار پر فریاد کرے جس پر عمل کرتے ہوئے ان کی مراد پوری ہوئی اور ہندو رانی جودھا بائی کے ہاں شہزادہ سلیم پیدا ہوا اکبر نے اس یاترا کو خوش بختی کی علامت سمجھتے ہوئے سیکری کو اپنی راجدھانی بنایا اور اپنی گجرات کی فتح کو سامنے رکھتے ہوئے شہر کا نام بھی فتح پور سیکری رکھ دیا۔

ہم جوں جوں اس شہر کے قریب پہنچ رہے تھے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ علاقہ ریتلا اور غیر آباد سا ہے پانی کی کمی ہے اور زمین بنجر ہے دور دور تک شادابی کا نام و نشان نہیں تھا کھیت کھلیان بجھے بجھے سے تھے نہ اشجار نہ لہلہاتی فصلیں شہر آ گیا اب ہمارے سامنے سرخ پتھروں سے بنا ہوا قلعہ تھا۔ قلعے کے تین اطراف حفاظتی دیواریں ہیں اور ایک طرف جھیل ہے۔ غیر ملکی اور بدیسی لوگ تو قلعے اور اس کے مختلف مقامات کی معلومات دلچسپی سے لے رہے تھے جبکہ دیسی لوگ شیخ سلیم چشتی کے مزار پر جمع دعاؤں میں مشغول تھے۔

ادھر جس شہزادے کو اتنی دعاؤں سے حاصل کیا گیا تھا اس سے امید تھی کہ جب بڑا ہو گا وہ تپتے ریگستانوں اور جھلسا دینے والی آندھیوں میں دشمنوں سے نبردآزما ہونے کے لئے سنگ و آہن توپ و تفنگ اور فن سپاہ گری کی تربیت حاصل کرے گا لیکن اس کی بجائے اس کی آنکھوں میں محبت کے چراغ جلنے لگے وہ تلواروں کی جھنکار کی بجائے طاؤس و رباب اور سر سے ڈھلکتے رنگین آنچلوں کی سرسراہٹ میں دلچسپی لینے لگا۔ شہزادے کی طبیعت میں شوخیاں گھر کرنے لگیں اور وہ ایک کنیز انار کلی کی محبت میں ایسا گرفتار ہوا کہ شہنشاہ معظم کو سلطانی وقار ہچکولے کھاتا محسوس ہونے لگا۔ جس کی وجہ سے اکبر کو مجبور ہو کر انار کلی کو گرفتار کر کے زندان میں ڈالنا پڑا۔

انار کلی کیا گرفتار ہوئی شہزادہ سلیم کی دنیا اندھیر ہو گئی وہ اپنے باپ کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا اور بغاوت کا اعلان کر دیا اس نے شہنشاہ عالیٰ وقار سے احتجاج کیا کہ آپ اپنے ظلم اور میرے صبر کی حد مقرر کریں یہ نہیں ہوں سکتا کہ سانسیں میری ہوں اور اس کی دھڑکنوں پر آپ کا قبضہ ہو۔ اکبر نے کہا کہ ہم باپ ضرور ہیں مگر اپنے فرض کو نظر انداز کر کے ہندوستان کی تقدیر نہیں بدل سکتے۔

”ابا حضور تقدیر بدل جاتی ہے زمانہ بدل جاتا ہے تاریخ بدل جاتی ہے لیکن بدلتی دنیا میں محبت نہیں بدلتی“ آپ نے مجھ سے انار کلی چھین کر میرے ہوش و حواس شل کر دیے ہیں۔ وہ اپنے باپ کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتا ہے اور فوج لے کر دارالحکومت کی طرف کوچ کرتا ہے۔

آج موجودہ دور کے شہزادے شیخو بابا کی یہی ذہنی کیفیت ہو گئی ہے۔ یہ شہزادہ اگرچہ دعاؤں سے تو حاصل نہیں ہوا تھا لیکن اس کی تربیت پر بے انتہا محنت کرنا پڑی اس کو گھڑ سواری اور شمشیر زنی کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن جنگی حکمت عملی اور نئے علوم و فنون کی تربیت دی گئی خاص طور پر معصوم عوام کو مطمئن کرنے کے لئے اسلامی ٹچ دینا ضروری تھا اس کے لیے اسلامی سکالرز کی خدمات حاصل کی گئیں وہ بھی اس سے نا امید ہو گئے تھے لیکن اس کا امیج ایک ایسے ایماندار اور دیانت دار شخص کے طور پر کرایا گیا جو صرف کہانیوں میں ملتا ہے اور اس پر ایک ایسے قاضی القضاہ کی مہر تصدیق لگوائی گئی جس کی اپنی دیانت مشکوک تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دیکھتے دیکھتے اس کی ایمانداری اور دیانتداری کی روشنی تمام دھرتی پر پھیل گئی اس نئے لاڈلے کی حکومت اس کے لئے انار کلی کا درجہ رکھتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر حکومت اس کے ہاتھ میں ہو گی تو دولت، عزت وقار اور انار کلی کی شکل میں بے شمار حسن کی دیویاں اس کے قدموں میں ہوں گی۔

لیکن ظل الٰہی اس کی کارگردگی اور نا اہلیوں پر شاکی تھے اگرچہ اس کا چناؤ تو اس بات پر ہوا تھا کہ یہ بیرونی یونیورسٹیوں کا پڑھا ہوا ہے اس نے ورلڈ کپ جیتا ہے اور شوکت خانم بنایا ہے لیکن اس کی شخصیت پر غور نہ کیا گیا جب ورلڈ کپ جیتا تو اس وقت بہترین ٹیم تھی لیکن اس نے ورلڈ کپ کا سارا کریڈٹ ٹیم کی بجائے خود لے لیا اسی طرح جب شوکت خانم بنائی تو جن لوگوں نے اس کی بھرپور مدد کی جیسے میاں شریف، نواز شریف، نصرت فتح علی خان جس نے دنیا جہاں میں پروگرام کر کے اس کے لئے سرمایہ اکٹھا کیا بجائے یہ شخص اس کا شکریہ ادا کرتا الٹا یہ کہا کہ اس کو میں نے دنیا میں متعارف کرایا ہے ہر بات پر یوٹرن لینے کو اپنی خوبی سمجھتا سیاستدان تو دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے والے لوگ ہوتے ہیں اور افہام و تفہیم سے مسائل حل کرتے ہیں یہ دوسروں کو دشمن اور غدار سمجھتا ہے جبکہ خود کو واحد ایماندار شخص اور راہ حق کا متلاشی سمجھتا ہے باقی سارے چور ڈاکو غدار لیکن اس نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی اپنی نا اہلیوں سے ملک کی معیشت ڈبو دی۔

71 برس کا قرضہ 30 کھرب تھا جب کہ اس کی ساڑھے تین سال کی قلیل مدت کا قرض 21 کھرب روپے ہے اور ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 2018 میں بجلی کا سرکلر خسارہ 1100 ارب تھا جو اس کے دور میں بڑھ کر 2020 میں 2500 ارب ہو گیا۔ شہری، جائیدادوں اور اسٹیٹ بزنس والے چہیتوں کو ٹیکس چھوٹیں اور عام معافیاں دے کر فائدہ پہنچایا اور ملکی آمدن میں خسارہ پیدا کیا۔ اس کی حکمرانی کے قلیل عرصے میں کرپشن اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

جتنے کرپشن کے میگا سکینڈل اس کے دور میں ہوئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان آ گیا۔ ظل الٰہی کسی بات پر راضی نہیں ہیں کہ اس کو دوبارہ حکومت دی جائے۔ لیکن اس کے باوجود محلاتی سازشیں بھی جاری ہیں جو اس شہزادے کو بغاوت پر اکسا نے کا موجب بن رہی ہیں اس قدر کہ رشید اور پرویز جیسے پرانے رتن جو ظل الٰہی کی آنکھ کا تارا تھے باغی شہزادے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جن کی ساری زندگی ظل الٰہی کی چوکھٹ پر سر جھکائے گزری ہے وہ ظل الٰہی کے فیصلے کے خلاف شہزادے کے ساتھ کھڑے ہیں اسی خفتہ اشیر باد کا نتیجہ ہے کہ شہزادے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے تخت انار کلی چھن جانے کے بعد شیخو بابا پاگل ہو گیا ہے۔

اب وہ اولمپس پہاڑوں سے اترا دیوتا نہیں اس نے ایک راکھشس کی شکل اختیار کر لی ہے جس کی زبان سے شعلے نکل رہے ہیں وہ شمالی سرحد سے بغاوت کا علم اٹھائے دار الحکومت میں داخل ہو گیا ہے۔ وہ الٹی میٹم پر الٹی میٹم دے رہا ہے پرانے اور آزمودہ سپاہیوں کی کمک اس کو مل رہی ہے۔ قاضی القضاہ کے دل میں اس کے لیے بھی نرم گوشہ ہے وہ بھی اس کے ہمنوا لگتے ہیں اور شہزادہ مسلسل ظل الٰہی کے خلاف آگ اگل رہا ہے کبھی انہیں سازشی کہتا ہے کبھی جانور کہتا ہے کبھی نیوٹرل کہتا ہے حیرانی کی بات ہے کہ نہ اس کے خلاف قہر سلطانی جوش میں آتا ہے نہ اس پر ظل الٰہی کا عتاب نازل ہوتا ہے۔

اس کے باغی جتھے کو دارالحکومت میں داخل کرا دیا گیا ہے کہاں وہ زمانہ کہ باغیوں کو کولہو میں پلوا دیا جاتا تھا صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا تھا یا دیوار میں چنوا دیا جاتا تھا۔ لیکن اس کا بال بیکا نہیں ہو رہا ہے اسے لوگوں کو توڑ پھوڑ کرنے اور خانہ جنگی پر اکسانے کی مکمل آزادی ہے نہ ریاست کی کسی کو فکر ہے نہ ظل الٰہی کے وقار کا احساس ہے محسوس ہوتا ہے کہ اندرون خانہ تمام پنج ہزاری اور دس ہزاری طبقہ اس کے ساتھ ملا ہوا ہے اور اس کی محبت میں سرشار اور خاموش ہے۔

اور خاموشی سے اسے ہلا شیری دے رہے ہیں نہ جلال اکبری جوش میں آتا ہے نہ وقار سلطانی کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ شمالی علاقے سے باغی فوج دارالحکومت کی طرف بڑھ رہی ہے شہزادہ کہ رہا ہے کہ مجھ سے میری انار کلی ایک سازش کے تحت چھین لی گئی ہے میں جانتا ہوں کہ یہ سازش کسی بیرونی طاقت کی نہیں یہ تمہاری سازش ہے مجھے ایک سال سے علم ہو گیا تھا کہ تمہاری اشیر باد سے مرے خلاف سازشوں کا جال بنا جا رہا ہے۔ شہزادہ اپنے محسنوں کو چتاؤنی دے رہا ہے تمہاری خاموشی کا مقصد مجرموں کا ساتھ دینا ہے میں عوام کا سمندر لے کر آ رہا ہوں جس کے راستے میں ہر نیوٹرل ہر جانور اور ہر غدار بہہ جائے گا یہ جتھے احتجاج کے لئے نہیں جہاد کا علم اٹھائے آ رہے ہیں ہماری اٹیک فورس ہر رکاوٹ کو دور کر دے گی مہربانوں کی مہربانیوں سے ان جتھوں کو شہر میں داخلے کی اجازت دے دی گئی ہر طرف افراتفری اور خانہ جنگی کا سماں ہے محسنوں کو گولیوں اور گالیوں کا نذرانہ پیش کیا جا رہا ہے عوام اور سرکاری املاک تباہ ہو رہے ہیں دارالحکومت میں آگ لگی ہے اور رات کی تاریکی میں شعلے بلند ہو رہے ہیں اور ظل سبحانی اور درباری اس سوچ میں غلطاں ہیں کہ ہمارے احسان میں کون سی کمی رہ گئی تھی اور ہماری سلیکشن میں کہاں اور کس طرح اتنی بڑی غلطی ہو گئی کہ جس پر اتنی بڑی تربیت کا اثر بھی نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments