جب راتوں کو ستارے ٹمٹماتے تھے


ایک وقت تھا کہ اندھیری راتوں میں ستارے آسمان پر ٹمٹماتے تھے۔ بے شمار جگمگاتے ستاروں کو دیکھ کر روح خوش ہو جاتی تھی۔ کھلے آسمان تلے لیٹ کر قطبی ستارا ڈھونڈا جاتا۔ پھر کبھی ستاروں میں مختلف جانوروں کی تصویروں کو تلاش کیا جاتا۔ پھر کبھی مختلف ستاروں کو ملا کر زبردستی اپنے محبوب کی تصویر کو بنایا جاتا۔ جس دن پھر چندا ماما اپنا جمال دکھاتے تو یہ منظر دیکھ کر سکون روح میں سرایت کر جاتا۔

اب آپ کہیں گے یار بڑی عجیب بات کرتے ہو، ستارے تو اب بھی رات کو چمکتے ہیں۔ اب بھی ان میں وہی روشنی ہے جو کئی سال پہلے تھی۔ چاند بھی وہی ہے۔ قطبی ستارا آج بھی رات کو چمکتا ہے۔ جی جناب آپ سو آنے بات درست کر رہے ہیں۔ لیکن اس سب بھی روداد میں اب ہم ویسے نہیں رہے۔

وہ منظر ہی کیا جسے کوئی دیکھنا والا نصیب نہ ہو۔ دیکھنے والا ہی اسے زندہ کرتا ہے، اسے خوبصورت بناتا ہے۔ اس میں کشش بھرتا ہے۔ اس میں اپنے رنگ تلاش کر اس سے لطف اندوز ہو کر اسے اپنا مان کر اس جلوت بخشتا ہے۔ جب اسے کوئی دیکھنے والا ہی نہ ہو تو اس کا ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہو جاتا ہے۔

پہلے رات کو ستارے ٹمٹماتے تھے، کیوں کہ انھیں دیکھنے والے بندے تھے۔ اب بندوں نے دیکھنا بند کر دیا تو اب وہ ٹمٹماتے نہیں۔ بس اپنی ڈیوٹی سرسری سے نبھا کر سحر سے پہلے لوٹ جاتے ہیں۔ ان میں اب وہ چمک نہیں رہی جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ پہلے وہ ہر روز بڑے جوش و خروش کے ساتھ شام ہوتے ہی اپنا دیدار کروانا شروع کر دیتے ہیں۔

جسے دور سے کہہ رہے ہوں کہ یہ بھائی صاحب ہم آ گئے ہیں۔ دیر سے آنے پر معذرت خواہ ہوں۔ پھر ہلکا سا آداب کر کے اپنا جلوہ دکھانا شروع کر دیتے تھے۔

لیکن پھر ترقی ہوئی اور ایسی ہوئی کہ اس نے ہم سے جو چیز سب سے پہلے چھینی وہ کھلا آسمان تھا۔ پھر اس کے بعد جو چیز چھینی وہ رات کے پچھلے پہر چلنے والی ٹھنڈی ہوا تھی۔ اس میں تازگی کا ایک رس تھا۔ کھلا آسمان ہوتا تھا تو ستاروں سے ملاقات روزانہ کی بنیاد پر پکی ہوتی تھی۔

پھر ہمیں نے بڑے بڑے مکان بنائیں، بڑی بڑی عمارتیں بنائیں۔ گھرکا کھلا صحن چھت کر آرام دہ کمرے بنائے۔ اور پھر دیسی لوگ چھت پر سویا کرتے تھے تاکہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے میٹھی نیند میسر ہو سکے۔ پھر اے سی آیا اس نے مزید انسان کو کمرے میں بندہ کر دیا۔ پہلے بندہ تھکا ہارا گھر پہنچتا تھا تو نہا دھو کر چھت پر چلا جاتا۔ اب کمر کے میں ہی اے سی لگا کر لم لیٹ ہو جاتا ہے اور موبائل پکڑ کر رات کے دو بجا کر صبح 8 بجے کا الارم لگا کر سو جاتا ہے۔

پھر صبح سویرے ہڑبڑاتے ہوئے جلدی اٹھتا ہے اور ناشتا کر کے آفس چلا جاتا ہے۔ چھے دن یہی روٹین چلتی ہے اور پھر ویک اینڈ پر دوستوں کے ساتھ بیٹھ لیا جاتا ہے۔ اگلے ہفتے پھر سے وہی روٹین۔

اس خرابے میں جب ہم نے ستاروں کی ایک دن بھی لفٹ نہیں کروائی تو ان کا ٹمٹمانا بند کرنا بنتا تھا۔ اب ہم نے ان سے اور انھوں نے ہم سے وہ رشتہ توڑ لیا، جو رات کے ایک پہر ہمارا ان سے بنتا تھا۔ اور یہ ہونا ہی تھا، کیوں کہ رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے ہفتے میں کم از کم ایک ملاقات ضروری ہوتی ہے۔

لیکن اب بھی کچھ بگڑا نہیں، اب بھی کافی کچھ سدھرا جا سکتا ہے۔ ہفتے میں کبھی ایک بار رات کو کھلے آسمان میں گھوم کر دیکھنا۔ انھوں نے پھر سے ٹمٹمانا نہ شروع کر دیا تو کہنا۔ ہم نے ادھر زندگی کو جینا چھوڑ کر گزارنا سیکھا اور انھوں نے ادھر ٹمٹمانا چھوڑ کر صرف روشنی دینا سیکھا۔ کتنا ہم میں اور ان میں مشابہت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments