امریکی محکمہ توانائی نے فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچنے کا منصوبہ تیار کر لیا


امریکہ کے محکمہ توانائی نے ارب ہا ڈالر کے ایک بڑے منصوبے کے ذریعے فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کھینچ کر زیر زمین ذخیرہ کرنے کی تیاری کر لی ہے۔

دراصل یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ رکازی ایندھن کے جلانے اور دیگر اقسام کی ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اتنی زیادہ مقدار پہلے ہی فضا میں موجود ہے کہ اگر زمین کے آدھے رقبے پر بھی درخت اگا لیے جائیں تب بھی اس صدی کے وسط تک درجہ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کے اوسط درجہ حرارت کے مقابلے میں ڈیڑھ ڈگری زیادہ تک محدود کر دینا ناممکن ہو گا۔ اس لیے سائنس دان غیر روایتی طریقوں کی کھوج میں ہیں جن کے ذریعے جلد سے جلد آلودگی کے جن کو دوبارہ بوتل کے اندر بند کیا جا سکے کیونکہ یہ ماہرین کی توقع سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

اس سال برصغیر سمیت دنیا کے بہت سے ممالک اور خطوں میں وقت سے بہت پہلے گرمی کی آمد، اس کے نتیجے میں برصغیر میں گندم کی کم پیدا وار، تھر، چولستان، تھل اور راجھستان میں انسانوں اور جانوروں کو شدید گرمی کے ساتھ پانی کی کمیابی کا سامنا اور عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جیکب آباد شہر کو انسانوں کے لیے ”ناقابل رہائش“ قرار دیا جانا تو آنے والے قیامت خیز زمانے کی ایک ہلکی سی جھلک ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ہر چھ میں سے ایک موت آلودگی کی وجہ سے ہو رہی ہے۔

ان ہی غیر روایتی منصوبوں میں سے ایک تجویز فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو بڑے پمپوں کی مدد دے کھینچ کر کیمیائی عمل سے آکسیجن سے الگ کر کے زیر زمین تیل کے خالی کنوؤں میں قید کر دینے یا پھر ایسی چیزوں مثلاً سیمنٹ کی تیاری میں استعمال کرنے کی بھی ہے جہاں خالص کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ضرورت پڑتی ہے۔

ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ قدرت بھی یہی کرتی ہے لیکن اس کے لیے وہ درختوں کو استعمال کرتی ہے۔ درخت فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے اسے اپنے اندر محفوظ رکھتے ہیں اور یہیں سے ایک اور مسئلہ سامنے آ جاتا ہے کہ آج کل دنیا کے بیشتر جنگل تجارتی پیمانے پر استعمال کے لیے اگائے جاتے ہیں یعنی ہر دس پندرہ سالوں بعد پرانے درخت لکڑی کے حصول کے لیے کاٹ لیے جاتے ہیں اور یوں ان کی لکڑی میں بھری ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ جلنے یا دیگر استعمالات سے دوبارہ فضا میں پہنچ جاتی ہے۔

حالانکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ٹھکانے لگانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو بھی درخت لگائے جائیں، کم از کم سو سال کے لیے ان کو نہ کاٹا جائے تو درختوں کے تنوں میں ذخیرہ کی گئی کاربن ڈائی آکسائیڈ خود ہی تلف ہو جاتی ہے مگر ع کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک کے مصداق زیادہ تر جنگل مستقل درختوں کے لیے اگائے ہی نہیں جاتے اور جو قدرتی جنگل ہیں ان کی زمین کا زرعی و دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہونے کے باعث خاتمہ ہو رہا ہے۔ جنگلات کے علاوہ سمندر بھی اس کو جذب کرنے کا اہم ذریعہ ہیں لیکن مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ یہ روایتی ذرائع اتنی تیزی سے کاربن کو ختم نہیں کر پا رہے ہیں کہ جتنی تیزی سے انسان فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر صحت گیسیں چھوڑ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا سیارہ روز بروز زیادہ گرم ہوتا جا رہا ہے۔

چنانچہ اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے سائنس دانوں نے فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو تیل کے خالی کنوؤں میں ذخیرہ کرنے کی تجویز دی ہے۔ وہ لوگ جو زمین کی اندرونی ساخت کے متعلق زیادہ نہیں جانتے، ان کی اطلاع کے لیے بتاتے چلیں کہ تیل ان جگہوں سے نکالا جاتا ہے جہاں شدید دباؤ کے ساتھ پتھروں کی پیالہ نما جگہ بن جاتی ہے اور یہ جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو لمبے عرصے تک ”قید“ رکھنے کے لیے بہترین ہے۔

حالیہ عرصے میں اس تجویز کو سائنس دان اور حکام بالا کے حلقوں میں پذیرائی ملی ہے۔ اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی نے کہا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ سے فضا کو فوری طور پر پاک کرنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔

اس حوالے سے ایک نجی ادارہ ”کلائیم ورکس“ پہلے ہی آئس لینڈ میں تجرباتی طور پر اس طرح کا منصوبہ چلا رہا ہے جو ہر روز دس میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ زمین میں ”مقید“ کر رہا ہے۔ اتنی مقدار میں پانچ سو درختوں کو کاربن جذب کرنے میں ایک سال لگ جاتا ہے۔ اس سے آپ اس منصوبے کی افادیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لیکن یہ مقدار زمین کو بہتر کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں، زمین کے ماحول میں بہتری لانے کے لیے ایسے بڑے پمپ درکار ہوں گے جو ہزاروں، لاکھوں یا کروڑوں میں نہیں بلکہ ارب ہا میٹرک ٹن کے حساب سے کاربن کو قید کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اور یہ وہ جگہ ہے جہاں نجی اداروں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔ اسی لیے ایک عرصے سے یہ تجویز دی جا رہی تھی کہ اگر اس طریقہ کار سے زمین کے ماحول میں واقعی بہتری لانی ہے تو حکومتوں کو پہل کرنا ہو گی۔

صدر بائیڈن نے امریکہ کو سنہ 2050 تک کاربن کے اخراج سے پاک کرنے کا ہدف طے کیا ہے لیکن یہ ہدف روائیی طریقوں سے حاصل نہیں ہو سکتا۔

کانگریس نے بائیڈن انتظامیہ کی درخواست پر ساڑھے تین ارب ڈالر کی خطیر رقم فضا سے کاربن کو کھینچنے کے طریقوں کے لیے مختص کی ہے۔ چنانچہ امریکہ محکمہ توانائی نے 19 مئی کو دلچسپی اور تجربہ رکھنے والے اداروں سے چار ایسے تجرباتی پمپ اور دیگر نظام تیار کرنے کے لیے ٹھیکہ جاری کیا ہے کہ جو ہر سال دس لاکھ ٹن کاربن قید کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ یہ مقدار دو لاکھ گاڑیوں سے ہر سال خارج ہونے والی کاربن کے برابر ہے۔

محکمہ توانائی یہ توقع رکھتا ہے کہ جب ایک دفعہ اس حوالے سے ٹیکنالوجی اور متعلقہ نظاموں کی عملی آزمائش ہو جائے گی تو نجی شعبہ بھی اس میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بخوشی آمادہ ہو جائے گا اور تب ہی زمین کے ماحول میں اصل بدلاؤ لایا جا سکے گا۔ صرف یہی نہیں، محکمہ توانائی نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ ان آلات کو چلانے کے لیے بجلی بھی قابل تجدید ذرائع فراہم کی جائے۔ کلائم ورکس کا آئس لینڈ میں واقع تجرباتی مرکز جیو تھرمل یعنی آتش فشاں پہاڑوں سے زمین کی تہہ سے خارج ہونے والی قدرتی بھاپ سے بجلی بنا کر حاصل کرتا ہے۔

مصنف: دانش علی انجم ماخذ:سی این این


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments