پطرس، احباب اور لاہور


پطرس بخاری 1917 ء میں لاہور آئے اور پھر لاہور کے ہو کر رہ گئے۔ اس کے بعد یہ جہاں بھی گئے لاہور ان میں سے نہیں نکل سکا۔ پطرس کے جگری یار امتیاز علی تاج لکھتے ہیں کہ پطرس اٹھارہ انیس سال کے تھے جب وہ پشاور سے لاہور آئے اور اس کی ان سے ملاقات ہوئی۔ پھر اگلے اٹھارہ انیس سال کا کوئی دن ایسا نہ تھا کہ جب پطرس لاہور میں ہوں اور ان دونوں نے سہ پہر سے لے کر رات تک کا وقت اکٹھے نہ گزارا ہو۔ بخاری یار باش آدمی تھے۔

دوستوں کی محفلیں ان کے لیے آکسیجن کی طرح تھیں۔ محفلوں کے اہتمام کا یہ عالم تھا کہ احباب کو خود اپنی گاڑی پہ لینے جاتے اور بعد از محفل خود ہی ڈراپ کر کے آتے۔ امتیاز ادبی رسالوں میں مضمون لکھتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ امتیاز کوئی مضمون لکھ رہے ہیں۔ رسالے والے تقاضا کرتے ہوئے پاس ہی بیٹھے ہیں اور بخاری صاحب کسی محفل کے لیے امتیاز صاحب کو لینے آ گئے۔ امتیاز کو مضمون لکھتے دیکھا تو خود وہی مضمون لکھنے بیٹھ گئے اور انہیں گھر بھیج دیا کہ جلدی سے تیار ہو کر جانے کے لیے آ جائیں۔

لاہور ہمیشہ سے ادبی شخصیات، ان کی دوستیوں اور احباب کی محفلوں کے لیے مشہور رہا ہے لیکن لاہور کو جو سنگتیں، جو دوستیاں پطرس کے عہد میں میسر آئیں سو سال ہونے کو آیا ہے وہ دوبارہ نہیں مل سکیں۔ شام ہو اور پطرس بخاری دوستوں کے بغیر ہو یہ ممکن نہیں تھا۔ حلقہ احباب کافی وسیع تھا۔ بخاری نے محفل سازی اور محفل آرائی میں نئے باب رقم کیے۔ دوستوں کی صحبتیں شام کے ساتھ شروع ہوتیں اور رات گئے تک جاری رہتیں۔ شام کے قریب بخاری کی موٹر حرکت میں آتی اور وہ اس پہ سوار دوستوں کے گھروں پہ دستک دیتے اور انہیں انہیں ڈھونڈ ڈھانڈ اور سمیٹ سماٹ کر کسی ایک جگہ لا بٹھاتے جہاں رات ایک دو بجے تک یادگار محفلیں سجتیں جہاں زندگی کشید کی جاتی۔

بخاری گورنمنٹ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے تو پھر وہی طالب علمی کے زمانے کی بزم آرائیاں شروع ہو گئیں۔ محفلیں دوبارہ گرم ہونے لگیں۔ ان کا اپنا یہ معمول تھا کہ وہ اپنے گھر پہ ہفتے دس دن بعد دوستوں کے کھانے کی دعوت کرتے۔ اور اس میں ان کے چھ سات زیادہ قریبی دوست شریک ہوتے۔ ان کے بعض قریبی دوستوں کا خیال تھا کہ بخاری تنہائی سے سخت گھبراتے تھے۔ بخاری زندگی کے آخری سالوں میں جان لیوا مرض میں مبتلا تھے اور دوستوں کا خیال ہے کہ شاید وہ آخری سالوں میں اس مرض کے انجام کے خوف میں بھی مبتلا تھے۔

پطرس بخاری کے انتقال کے بعد نقوش کے مدیر محمد طفیل صاحب نے پطرس نمبر نکالنے کا پروگرام بنایا۔ اور اس کے لیے بخاری کے تمام قریبی دوستوں کو لکھا کہ وہ اپنے مضامین ارسال کریں اس کے جواب میں بخاری کے ان ادیب اور شاعر دوستوں نے مدیر نقوش کو جو خطوط لکھے وہ پڑھنے کے لائق ہیں۔ ان خطوط سے بخاری کی شخصیت کے کئی پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں اور کئی در وا ہوتے ہیں۔ یہ خطوط پڑھتے حیرت گم ہوجاتی ہے کہ کوئی ہمارے جیسا انسان ساٹھ سال کی اوسط عمر میں اتنے مختلف میدانوں میں اپنی بے مثال کامرانیوں کے ایسے جھنڈے گاڑ سکتا ہے۔ ایک مثالی طالب علم، ایک عظیم استاد، آل انڈیا ریڈیو کا ایک لاجواب افسر، گورنمنٹ کالج جیسی مایہ ناز درس گاہ کا پرنسپل، ایک انتہائی اعلیٰ پائے کا ڈپلومیٹ اور اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل ہیمر شولڈ کے بقول ایک عالمی انسان۔

مالی مسائل کے دوران دوستوں کا خیال کرنا ہو یا انہیں کسی ملازمت کے حصول میں مثالی مدد فراہم کرنی ہو۔ دوستوں کے درمیاں کمزور پڑتے دوستی کے رشتے کو سنبھالا دینا ہو یا جذباتی معاملات میں کسی کی ڈھارس بندھانی ہو۔ پطرس نے ہمیشہ شاندار کردار ادا کیا۔ بیرون ملک انتہائی جدید اور خوبصورت جگہوں کی سیر کے دوران بھی پطرس بخاری کے دل سے لاہور کبھی نہیں نکلتا تھا۔ وہ بیرون ملک سے احباب کو خط لکھتے اور ان میں اکثر لاہور کی یادوں کا ذکر کرتے۔ پطرس اپنے ساتھ جڑے احباب کو بہت اہمیت دیتے تھے ان کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھتے۔ دوست احباب ان کے نزدیک سب کچھ تھے۔ بیرون ملک بیٹھے وہ یار لوگوں کو دوستی کی اہمیت اور اس کی اخلاقیات سے آگاہ کرتے رہتے۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنے دیرینہ دوست امتیاز علی تاج کو یوں خط لکھا :

” میرا عمر بھر کا تجربہ اور خود میرا رجحان طبیعت یہ کہتا ہے کہ دنیا میں دوستی سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں۔ اس لیے کوئی دوست چھن جائے یا دور ہو جائے تو میں کئی راتیں اور کئی دن اس کا ماتم کرتا ہوں۔ افسوس کہ ہمارے دوست کم رہ گئے ہیں۔ تقریباً ہر ایک تفکرات یا ہوس کی گرداب میں آ چکا ہے اور نکل نہیں سکتا۔ تاہم سالکؔ جیسے لوگ مغتنمات روزگار میں سے ہیں وہ تمہارے پاس نہ آئیں تو تم ہی چلے جایا کرو۔ اس سے غم غلط ہو گا اور جو مصائب پہاڑ سے نظر آتے ہیں وہ اتنے صبر شکن معلوم نہیں ہوں گے۔“

لاہور میں رہتے پطرس اور ان کے جگری دوستوں کی محفلیں کیسے جمتی تھیں۔ وہاں کیا شغل ہوتے تھے اور یہ منڈلیاں کس قدر طویل ہوتی تھیں۔ اس سب کا تذکرہ خود پطرس نے اپنی کسی تحریر کے ایک خوبصورت ٹکڑے میں یوں کیا ہے :

” رات میرے ہاں یاران طریقت کھانے پر جمع تھے۔ تاثیر اور ذوالفقار بھی یہیں ہیں ان کے علاوہ آغا حمید، حفیظ، فیض، راشد، حسرت، عباس، مجید ملک سب موجود تھے۔ جب اس طرح شیاطین جمع ہوئے غزل بھی کہی گئی۔ ہزل بھی بکا گیا۔ اور دونوں اصناف میں خوب خوب شعر ہوئے۔ اس طرحی مشاعرے کے بعد سنجیدہ شاعری کی طرف رجوع ہوئے۔ ذوالفقار، تاثیر، حفیظ اور فیض نے تازہ کلام سنایا۔ پھر خوش گپیاں ہوئیں۔ رات کے ڈھائی بجے مجمع برخاست ہوا۔ اور میں دور دور رہنے والوں کو موٹر پر گھر پہنچا کر سوا چار بجے خود گھر پہنچا“ ۔

5 دسمبر 1958ء کو یہ یگانہ روزگار ”عالمی انسان“ اس جہان فانی سے رخصت ہوا اور نیو یارک میں آسودہ خاک ہوا۔ بخاری کے بے شمار دوست تھے لیکن جتنا گہرا دوستانہ عبدالمجید سالکؔ سے تھا وہ کسی اور سے نہ تھا۔ سالکؔ صاحب بخاری کے لیے سب کچھ تھے۔ اپنے دیرینہ دوست کی اچانک مفارقت پہ سالکؔ صاحب نے لکھا ”احمد شاہ بخاری کی موت علم و ادب اور خلوص و محبت کی موت ہے“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).