گیدڑ اور عزت کی تلاش


ایک گیدڑ کو اس بات کا بڑا قلق تھا کہ جنگل میں اس کی کوئی عزت نہیں۔ جنگل تو جنگل اس کو کوئی انسانوں کی آبادی میں بھی منہ نہیں لگاتا تھا۔ اس کے اپنے اندر شکار کرنے کی صلاحیت نہ تھی کہ اپنا شکار کر کے کھاتا۔ بس اسے کسی مردار پر ہی گزارا کرنا پڑتا تھا مثلاً کوئی شیر اپنا شکار کھا کر چھوڑ جاتا یا کوئی جنگل میں جانور مر جاتا تو یہ بھی اپنے قبیلے کے ساتھ اس مردار کو کھانے کے لیے پہنچ جاتا اور اپنے پیٹ کی آگ بجھا لیتا۔

وہ جب کبھی بھی کسی شیر کو شکار کر کے تازہ گوشت کھاتے دیکھتا تو اندر سے بیچ و تاب کھاتا کہ کاش وہ بھی اس قابل ہوتا کہ خود شکار کر پاتا اور اس کے نصیب بھی تازہ گوشت کھانے کو ملتا۔ ایک دفعہ جنگل کے بادشاہ شیر نے اسے جنگل میں دبکا بیٹھے دیکھا تو اس کو اس پر رحم آیا تو اس نے اسے اپنے پاس بلایا۔ اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ور اپنے ساتھ شکار کے لئے لے گیا، گیدڑ کئی دنوں سے بھوکا تھا کہ اس کی تو قسمت ہی جاگ اٹھی فوراً شیر کے ساتھ ہو لیا، کچھ سفر کے بعد سامنے ایک نیل گائے دیکھ کر شیر رکا اور گیدڑ سے کہا دیکھو میرے جسم کے بال؟

گیدڑ نے کہا بادشاہ سلامت کھڑے ہیں، میری دم؟ شیر نے پوچھا۔ جناب وہ بھی نوے کے زاویے پر کھڑی ہے۔ پھر شیر نے کہا میری آنکھیں؟ گیدڑ نے جب شیر کی آنکھیں دیکھی تو اسے خوف کے مارے جھرجھری آ گئی۔ فوراً ڈر کر نظریں نیچی کیں اور گھگھیاتے ہوئے بولا حضور سرخ ہیں۔ یہ سننا تھا کہ شیر دھاڑا اور فوراً نیل گائے پر جست لگائی اور ایک تھپڑ مار کر نیل گائے کو نیچے گرایا اور پھر گردن دبوچ کر اس کا قصہ تمام کیا۔ اور اس کا تازہ گوشت کھاتے ہوئے دور کھڑے گیدڑ کو بھی کہا کہ آ تو بھی آج تازہ گوشت کھا مرلے۔

گیدڑ بادشاہ کی دعوت کا جیسے انتظار ہی کر رہا تھا۔ کہ وہ نیل گائے کے تازہ گوشت پر پل پڑا اور پہلے دفعہ جب اس کے منہ میں تازہ گوشت کا لذیذ ٹکڑا منہ میں گیا تو گویا وہ کسی سرور میں ڈوبتا چلا گیا۔ کہاں بدبودار بدذائقہ مرداروں کا گوشت اور کہاں تازہ شکار کیا ہوا گوشت۔ بہت پیٹ بھر کر کھایا۔ بہت خوش ہوا کہ اس پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ وہ خوامخواہ مردار گلے سڑے جانور کھاتا رہا ہے ایک تو شکار بے حد آسان ہے دوسرے اس شکار سے حاصل شدہ تازہ گوشت بھی بے حد مزے دار ہوتا ہے۔

تو پھر اس نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے قبیلے کو بتایا جائے کہ مردار کھانا چھوڑو اور اصلی تے خالص تازہ گوشت کھاؤ آخر کب تک گلا سڑا مرداروں کا گوشت کھا کھا کر وہ ذلت کی زندگی جیتے رہیں گے۔ وہ دوڑا دوڑا اپنے قبیلہ کے پاس گیا اور منادی کردی کہ ایک جگہ اکٹھے ہوں بہت اہم بات کرنی ہے۔ خیر جلسے کا اہتمام ہوا اور سارا گیدڑوں کا قبیلہ اکٹھا ہو گیا تو خود ساختہ گیدڑوں کا نجات دھندا ایک ٹیلے پر کھڑا ہوا اور کہنے لگا میرے نوجوانوں! اور بوڑھے بھائیوں، ساری زندگی تم نے بدبودار، گلا سڑا گوشت کھایا ہے مگر نے آج تک نہیں سوچا کہ ہم بھی شکار کر کر کے تازہ اور لذیذ گوشت کھائیں۔ مثلاً کیا کمی ہے ہم میں؟ ہمارے تیز ناخنوں والے پنجے ہیں، تیر نوکیلے دانت ہیں، خوفناک غرغراہٹ ہے۔

یہ سن کر ایک دفعہ تو سارے گیدڑوں کا سانپ سونگھ گیا، مگر پھر لذت دار تازہ گوشت کا سن کر ان کے منہ میں بھی پانی آ گیا۔ اور وہ سب اپنے نئے ابھرتے ہوئے گیدڑ سردار کی غرغراہٹ سے غرغراہٹ ملانے لگے۔ آخر ایک گیدڑ آگے بڑھا اور بولا وہ تو ٹھیک ہے مگر اپنا شکار کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس میں کافی خطرات ہوتے ہیں۔ جان بھی جا سکتی ہے۔ نیا سردار گیدڑ بولا دیکھو ہم کب تک دوسروں کے چھوڑے ہوئے ٹکڑوں پر پلتے رہیں گے؟

ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ اور سنو میں نے جنگل کے نام نہاد بادشاہ کے ساتھ شکار کر کے دیکھا ہے۔ بس تھوڑی سی ہمت کی بات ہے ہم شکار میں خود مختار ہوسکتے ہیں۔ تو کیا تم میرا ساتھ دو گے۔ کئی جوان گیدڑوں نے بلند آواز سے نئے سردار کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ کیونکہ ان کو نئے سردار کی یقین دہانی سے امید ہو چلی تھی کہ یہ سردار ہمیں مردار خوری سے لازمی نجات دلائے گا۔ جب گیدڑوں کی کثیر تعداد کو نئے سردار نے اپنا ہمنواء پایا تو پھر اعلان کیا کہ کل ہم اپنا شکار خود کریں گے اور پھر اپنی نسلیں بدل دیں گے۔

سب تیاری کر لیں۔ یہ سن کر نوجوان گیدڑوں کا خون جوش مارنے لگا۔ انہیں کئی بزرگ گیدڑوں نے سمجھایا کہ اس کے پیچھے نہ لگو یہ خود بھی مرے گا اور تم کو بھی مروائے گا مگر نوجوان گیدڑ تو نئے انقلابی گیدڑ کو اپنا روحانی سردار تک بنا چکے تھے۔ دوسرا دن ہوا تو نئے سردار نے اپنے گرویدہ نوجوان گیدڑوں کو اکٹھا کیا اور جنگل کے دامن کی طرف شکار کی تلاش میں چل پڑا۔ ابھی وہ کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ سردار گیدڑ کو ایک بھینس اپنے کٹے (بچھڑے ) سمیت گھاس چرتی ہوئی نظر آئی۔

گیدڑ فوراً رک گیا۔ اس نے دل ہی دل میں اندازہ لگایا کہ اس صحت مند گھاس چرتی ہوئی بھینس اور اس کے بچے کو شکار کرنا بہت آسان ہو سکتا ہے۔ اور اس شکار سے گوشت بھی کافی مقدار میں حاصل ہو سکتا ہے۔ بس پھر کیا تھا سردار گیدڑ نے تمام گیدڑوں کو اپنے اردگرد جمع کیا اور ایک کریہہ بڑھک ماری کہ گیدڑوں آج کے بعد ہماری زندگی کے نئے دن شروع ہونے والے ہیں۔ اور میں پہلے اس بھینس کا شکار کروں گا پھر تم کو بھی میرے طریقے کے مطابق شکار کرنا ہو گا۔ اور پھر ہم جنگل پر راج بھی کرنا شروع کر دیں گے۔ سب نے پرجوش نظروں اور غرغراہٹ سے اپنے سردار کو دیکھا اور اس کے حق میں نعرے لگائے۔ سردار گیدڑ جوش میں آ گیا اور اکڑ کر چلنے لگا۔ پھر ایک دم اپنے پرستاروں پر غرایا، دیکھو میری بال کھڑے ہیں؟

کچھ کھڑے ہیں کچھ نہیں؟ ایک پرستار گیدڑ بولا
سردار نے اپنے پنجوں سے اپنے بال، بے سود کھڑے کرنے کی کوشش کی۔
پھر اس نے اپنی دونوں ٹانگوں سے دم نکالی اور بولا بتاؤ میری دم کھڑی ہے۔
”جی کافی حد تک“ باقی گیدڑ بولے
پھر اس نے اپنی آنکھوں کو پورا کھول کر اپنے پرستار گیدڑوں سے پوچھا
دیکھو کیا میری آنکھیں سرخ ہیں؟

گیدڑوں نے سردار کی آنکھوں میں غور سے دیکھا اور کہا ”ہیں تو پیلی مگر کہیں کہیں سرخ ڈورے بھی نظر آرہے ہیں۔“

یہ دیکھ کر سردار گیدڑ نے ایک اور کریہہ بڑھک ماری او ر بھینس پر چھلانگ جو لگائی تو بدقسمتی سے سیدھا بھینس کے سینگوں میں جا گرا۔ بھینس نے غصے میں آ کر پہلے تو اسے گھمایا، پھر زمیں پر اس کو اپنے سینگوں سے تین چار رگڑے دیے اور پھر زور سے اپنے سینگوں پر سے اچھال کر دور پھینک دیا۔

گیدڑ سردار جیسے ہی زمین پر گرا تو اسے دن میں تارے نظر آنے کے ساتھ ساتھ اس کے چودہ طبق بھی روشن ہو گئے۔ جیسے ہی اس کے کچھ حواس بحال ہوئے تو فوراً لنگڑاتا ہوا ایک جانب کو سر پٹ دوڑ پڑا۔

پیچھے سے اس نئے سردار کے ساتھی گیدڑ چلائے، سردار سردار، وہ شکار، تازہ گوشت؟

سردار بولا، الو کے پٹھو! تم سب جھوٹ بولتے تھے، نہ میرے بال کھڑے تھے نہ میری دم کھڑی تھی اور نہ ہی آنکھیں سرخ تھیں۔ اور شکار کے لیے یہ سب ہونا ضروری ہے۔ خوامخواہ میری ہڈیاں تڑوا دیں اس عمر میں۔ اور تم بھی بھاگ جاؤ اس سے پہلے کہ بھینس کا قبیلہ آ جائے وہ ہمارا بھرکس نکال دے گا۔ یہ کہہ کر گیدڑ بھینس کے مخالف سمت گرتا پڑتا رفوچکر ہو گیا مگر جاتے جاتے پھر کہہ گیا کہ گھبرانا نہیں میں ایک دفعہ پھر آؤں گا۔

اپنے سردار کا یہ حشر دیکھ کر باقی گیدڑ بھی بوجھل دل کے ساتھ شکاری بننے حسرت لئے ہوئے ٹوٹے دل کے ساتھ منتشر ہو گئے۔

اب یہ نیا گیدڑ کچھ دن تو اپنے پرستاروں سے منہ چھپاتا رہا مگر ایک دن کسی مردار جانور کو کھا کر جب واپس اپنے ٹھکانے کی طرف آ رہا تھا کہ اسے ایک کاغذ پڑا نظر آیا۔ وہ کاغذ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں پھر چمک پیدا ہوائی اس نے وہ کاغذ دیکھا اس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ کافی غور و خوض کے بعد اس نے اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو یہ خربوزے کھانے کا لائسنس ہے ظاہر ہے کہ شکار کرنے کا لائسنس تو ہو نہیں سکتا کہ وہ اس کے بس کی بات نہیں تھی۔

بس پھر کیا تھا وہ پھر بھاگتا بھاگتا اپنے قبیلے کے پاس پہنچا اور سارے قبیلے سے کہا کہ اکٹھے ہو جاؤ ایک اہم بات کرنی ہے۔ اس کی بات سن کر پھر اس کے پرستار ایک امید لے کر اس کے گرد جمع ہونے لگے۔ جبکہ سمجھدار گیدڑوں نے اس کی بات پر کان ہی نہیں دھرا۔ مگر بے شمار گیدڑ اس کے ساتھ چل پڑے۔ گیدڑ نے پھر ایک اونچی جگہ تلاش کی اور اپنے پرستار گیدڑوں کو دوران تقریر بتایا کہ سارا جنگل ہمیں تحقیر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔

کوئی ہماری عزت نہیں کرتا مگر اب میری دن رات کوششوں سے مجھے ایک ایسا لائسنس ملا ہے کہ جانور تو جانور انسان بھی ہماری عزت کرنا شروع کر دیں گے۔ پھر اس نے ایک کاغذ سب گیدڑوں کے سامنے لہرایا۔ اور کہا کہ یہ ہے وہ لائسنس جس سے ہماری ہر کوئی عزت کرے گا۔ مگر چونکہ ہم صرف گوشت پر انحصار نہیں کر سکتے لہذا اب ہم جب خربوزے کھانے کسی گاؤں میں بھی جائیں گے تو کوئی مائی کا لال ہمیں آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکے گا۔

اب تو نئے گیدڑ سردار کی پرانی ناکامی پر مایوس پرستاروں نے پھر جوش و خروش سے اچھلنا شروع کر دیا۔ کہ واہ اب تو موجاں ای موجاں۔ کیا بات ہے ان کے لیڈر کی۔ پھر نئے سردار نے کہا کہ ہو سکتا ہے تم لوگوں کو یقین نہ آئے، تو اس کے لیے ہم آج رات ہی کو اپنے قریبی گاؤں میں خربوزوں کے کھیتوں میں ضیافت اڑائیں گے۔ لہذا ہم شام کو اکٹھے ہو کر وہاں جائیں گے اور خربوزے کھائیں گے۔

خیر رات آئی وہ گیدڑ اپنے پرستاروں کے ساتھ جنگل سے نکلا اور خربوزوں کے کھیتوں میں داخل ہوا۔ اور پھر انہوں نے کافی کھیت اجاڑے اور کسی نے ان کو نہ روکا نہ ٹوکا۔ تمام گیدڑوں کو یقین ہو چلا کہ ان کے سردار کو واقعی عزت کا لائسنس مل گیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے

خوب پیٹ بھر کر نہ صرف خربوزے کھائے بلکہ جو نہ کھا سکے وہ اجاڑے بھی۔ اور واقعی حیرت انگیز طور پر کسی نے کچھ نہیں کہا۔ تمام نوجوان گیدڑ اپنے سردار پر فخر کرنے لگے کہ واقعی یہی وہ سردار ہے جس نے ہمیں عزت سے رہنا اور جینا سکھایا ہے۔ دوسرے دن جوان گیدڑ پھر اپنے نئے گیدڑ سردار کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ کہ سردار آج پھر چلیں۔ سردار جو کہ اب طاقت، تکبر اور غرور اور نام نہاد عزت کے کے نشے سے تو سرشار تھا ہی فوراً تیار ہو گیا۔ اور اگلی رات کو پھر کھیتوں کی جانب جانے کا پروگرام بنایا۔ دوسری طرف قریبی دیہات کے لوگوں نے جب اپنے اجڑتے کھیت دیکھے تو بہت پریشان ہوئے اور مزید فصل کی تباہی روکنے کے لیے انہوں نے مل کر اپنی فصلوں کا پہرہ دینے کا فیصلہ کیا۔

رات کو جب وہ گیدڑ اکڑ کر چلتا ہوا اپنے پرستاروں کے ہمراہ کھیتوں میں داخل ہوا تو دیہات والے تو تھے ہی تاک میں۔ انہوں نے جیسے ہی گیدڑوں کو اپنی فصلوں میں داخل ہوتے دیکھا فوراً ان پر ڈانگ سوٹوں (لاٹھیوں ) سے بارش کردی۔ اور جم کر ان کی دھلائی کی۔ جب سردار گیدڑ کو بھی دوچار سوٹے (ڈنڈے ) کمر پر پڑے تو اس کی سرداری، غرور تکبر سب خاک میں مل گیا اور اس نے بھی دوسرے گیدڑوں کی طرح بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ جب وہ بھاگ رہا تھا تو کئی دوسرے بھاگتے ہوئے اس کے پرستار گیدڑوں نے کہا سردار! سردار! انہیں عزت اور خربوزے کھانے کا لائسنس دکھاؤ، کیوں نہیں دکھاتے۔ سردار درد سے کراہتے ہوئے بولا، گیدڑ کے بچو! اپنی جان بچاؤ اور بھاگ جاؤ یہ سب ان پڑھ ہیں انہیں کیا پتہ کہ عزت کیا ہوتی ہے اور عزت کا لائسنس کیا ہوتا ہے؟

نوٹ : اس لوک داستان کا موجودہ سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments