سدھو موسے والا: دل دا نی ماڑا


سدھو موسے والا سے پہلا تعارف اک سال پہلے ہوا جب کسی نے پاکستانی رکشہ ڈرائیور کی اک ٹائر پہ رکشہ چلانے والی ویڈیو پہ گانا لگایا ہوا تھا

”ٹائم ہویا چینج بھلے اوہو کالی رینج تھلے“

گانا ویڈیو پہ فٹ لگا سننے میں کیچی تھا تو یوٹیوب پہ سرچ کیا۔ ورنہ اس سے قبل میں بھی اسے شوباز تھرڈ کلاس بندہ سمجھتا تھا

پھر اس کا ”ٹبیاں دا پت“ سنا جس میں اس نے اپنی سٹرگل بیان کی تھی۔ پھر اچیاں نے گلاں تیرے یار دیاں پھر چاچے مامے اور ڈاکٹر سمیت کئی گانے سن ڈالے پھر اس کا انٹرویو دیکھا پتا چلا سیلف میڈ بندہ ہے۔ ٹین ایجرز میں بہت مقبول ہے۔ پیسہ شہرت نام اور وفادار فین سب کمایا لیکن گاؤں نہیں چھوڑا جہاں کچا گھر تھا وہاں پکا بنگلہ بنوایا۔ سیاست میں پہلے سے حصہ لیتے تھے اس کی ماں پنچایت سرپنچ تھیں۔

مانسا ضلع اور موسے والا کا نام دنیا بھر میں پہنچایا۔ اب اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔ دلیر مہدی کے چھوٹے بھائی اور سنگر میکا سنگھ نے بتایا کہ چار سال پہلے اس نے لندن میں اسے کہا کہ گینگسٹر لوگ بھتے کے لیے فون کر رہے ہیں اور پنجابی میوزک انڈسٹری کا کوئی ایسا نام نہیں جو ان کو پیسے نہ دیتا ہو

گپی گریوال کو کون نہیں جانتا اک سنگر پھر شاندار اداکار اور اب بہترین رائٹر اور ڈائریکٹر کے طور پہ خود کو منوا رہا ہے وہ بھی بھتا دیتا رہا۔

سدھو اور طرح کا بندہ تھا بجائے اس کے کہ وہ بھتا دیتا وہ اڑ گیا۔ بندوق کلچر اور گینگسٹر کہنے سے پہلے بیک گراؤنڈ جان لیں کہ بدمعاشی کو آئیڈیلائز کیا جاتا ہے

پاکستان میں ظفر سپاری ہو یا لادی گینگ کے چکرانی کیا آپ نے کبھی ان کی فیس بک چیک کی ہے؟

ہزاروں نہیں لاکھوں فالوورز ہیں بدمعاشوں کے۔ اور تو اور فین پیج بھی بنے ہوئے۔ بھارت میں اسی سوشل میڈیا بدمعاشی کے چکر میں کیسے کیسے خوب صورت نوجوان کھیت ہوئے آپ کو علم بھی نہیں ہو گا۔

خیر یہ ڈٹ گیا۔ ادھر انڈسٹری میں اس نے بہت حاسد پیدا کر لیے۔ سینئر فنکاروں نے اسے طعنے دینے شروع کر دیے (ویسے یہ سدھو نہیں بلکہ تمام فنکاروں کا مسئلہ ہے اور گانا جوابی گانا کی صورت میں ان کے پنگے چلتے رہتے ) جسے آپ لوگ بندوق کلچر یا بد معاشانہ لیرکس سمجھتے ہیں اس کا اک بیک گراؤنڈ ہوتا ہے ادھر اک سنگر بڑھک پہ مبنی گانا ریلیز کرتا اور اس میں جان بوجھ کر مخالف کی کسی بات کسی حرکت کسی بیان کا ذکر کر کے اسے نیچا دکھایا جاتا ہے جواب میں سدھو بھی یہی کرتا۔

یقین نہ آئے تو یوٹیوب پہ پنجابی سنگرز کنٹرووسی لکھ کر سرچ کریں اور دیکھیں کیا چھوٹا کیا بڑا سب اس کے چکر میں پڑے ہیں

انڈسٹری میں حاسدین تھے جو گینگسٹرز کو بھتا دیتے تھے انہوں نے ان گینگسٹر کو استعمال کر کے سدھو کو دھمکانا شروع کر دیا کبھی ان کا اسلحہ دکھاتے کبھی ان کے پیجز سے گالیوں بھری پوسٹیں کراتے

جواباً سدھو وہی طریقہ اپناتا اور اپنے نہ ڈرنے کے ثبوت کے طور پہ ویڈیوز میں اسلحہ دکھاتا اور دھمکانے والوں کو منہ توڑ جواب دیتا

اس کے اکثر گانوں کے لیرکس باغی یانہ اور نہ دبنے والے ہوتے۔ ادھر اس کی وفادار فین فالونگ تھی جو اس کا ساتھ دیتی یوں اس نے اک ہی وقت اک ہی شہر میں سینئر گلوکاروں کے مقابلے میں کنسرٹ کرنا شروع کر دیے اور یہ ہاؤس فل جانے لگا جب کہ سینئرز کی آڈینس مٹھی بھر ہوتی۔

کنسرٹ پہ بھی گانا گانے سے قبل اک دوسرے پہ طنز کرنا جواب دینا چلتا رہتا آڈینس داد دے کر بڑھاوا دیتی۔

اب ذرا گینگسٹرز کی بات کرتے ہیں ان کے گروپس ہیں جو نہ صرف سوشل میڈیا پہ اک دوسرے کو دھمکاتے بلکہ اصل لائف میں بھی اک دوسرے کے دشمن ہیں اسی چکر میں پولیس کسٹڈی میں عدالت میں کئی مارے جا چکے۔

بھارت کا گولڈ میڈل پہلوان بھی ایسے ہی گینگ کے گروپس کا شکار ہو کر آج قتل کے الزام میں قید ہے۔

یہ سلیبرٹیز بس نام کے الگ ہوتے ہیں باقی انا غصہ حسد کینہ سب عام انسان جیسا ہوتا اور اس کے لیے وہ گینگسٹرز گروپ جوائن کر لیتے۔

وکی اک ایسا ہی گینگسٹر تھا جو مارا گیا۔ سدھو کے منیجر کا نام آیا کہ اس نے مخبری کی ہے۔ وہ خود تو آسٹریلیا بھاگ گیا۔ ادھر یو کے کے اک گینگسٹر گولڈی برار اور بشنوئی گروپ نے اپنے دوست وکی کے قتل کے لیے سدھو کو دھمکانا شروع کر دیا۔ سدھو نے اپنے دفاع کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور کانگریس جوائن کر لی۔ تین ماہ قبل پنجاب میں ہونے والے الیکشن میں کانگریس کے ٹکٹ پہ الیکشن بھی لڑا لیکن عام آدمی پارٹی کے ریلے کی وجہ سے ہار گیا۔

عام آدمی پارٹی سے لافٹر چیلنج کے اک سٹینڈ اپ کامیڈین کو پنجاب کا سی ایم بنا دیا گیا۔ جس نے سدھو سمیت کئی لوگوں کی سیکیورٹی واپس لے لی۔ جس دن سیکیورٹی واپس لی گئی اس کے اگلے دن یہ مارا گیا۔

یہ بے باک بندہ تھا اس لیے حاسدین اور دشمن پیدا کر لیے۔ خالصتان تحریک کا اک کردار بھنڈراں والا ہے۔ اندرا گاندھی نے آپریشن بلیو سٹار میں گولڈن ٹیمپل پہ فوج کشی کر کے اسے مارا تھا۔ بھارتی پنجاب میں اسے بہت مانا جاتا ہے۔ سدھو اسی کا بھگت تھا۔ اور وہ اس کا اظہار کھلے عام کیا کرتا تھا اس نے اپنی بائیک پہ اس کا سلوگن بھی لگا رکھا تھا۔ جو اعتراض کر رہے ہیں کہ اسے پنجابی شہید کیوں بنا رہے؟ اس کا جواب یہی ہے وہ باغی تھا وہ انقلابی تھا وہ بہادر تھا۔

میڈیا اس کے پیچھے پڑا رہتا تھا جواباً اس نے بھی پترکاروں پہ طنزاً گانے لکھے

اک بار یہ اپنے ایس ایس پی دوست کے پاس مہمان تھا وہاں اس نے چند ہوائی فائر کیے میڈیا نے وہ طوفان اٹھایا کہ اس پہ دہشت گردی کا پرچہ درج ہو گیا۔ حالانکہ سرکاری اسلحہ تھا اس کا دوست ساتھ ٹھہرا تھا پھر بھی۔

خواتین کی تنظیمیں الگ اس سے خفا رہتی تھیں کہ یہ لڑکیوں کو گولڈ ڈگر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

گولڈی برار یو کے رہتا ہے اور بشنوئی جیل میں ہے اس بشنوئی نے پولیس وین میں بیٹھ کر پولیس کے سامنے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے سلمان خان کو مارنے کی بھی دھمکی دی تھی۔ یہ جیل میں رہ کر نیٹ ورک چلاتا ہے تقریباً سب ہی چلاتے ہیں جیل آتے جاتے رہتے ہیں

یونیورسٹی پولیٹکس میں ان کا دبدبہ ہے اور یہ ساری گروپنگ شروع وہیں سے ہوتی ہے۔

خیر گولڈی اور بشنوئی نے جب اسے دھمکایا تو سدھو نے الٹا کہہ دیا کہ میں بھی اپنے ساتھ اسلحہ رکھتا ہوں جو کرنا ہے کر لو۔

سیکیورٹی واپس لی گئی ادھر ان کے شوٹرز تاک میں تھے۔ یہ اپنے اک کزن اور دوست کے ساتھ باہر نکلا تو بیچ سڑک پہ گاڑی روک کر تیس چالیس گولیاں ماری گئیں

سدھو نے اپنے پیسوں سے بلٹ پروف گاڑی لی ہوئی تھی عام طور پہ اسلحہ اور سیکیورٹی بھی ساتھ رکھتا پوری الیکشن کمپین اس نے محتاط ہو کر کی۔ شام کو گیڑی مارنے کے لیے نکلے تھے

بھارتی پنجاب میں گیڑی مارنے کا رواج ہے۔ جیسے ہمارے ہاں لانگ ڈرائیو پہ نکلتے ہیں لوگ اسی طرح شہر میں شارٹ سی ڈرائیو کو گیڑی مارنا کہتے ہیں یعنی بنا مطلب گاڑی پہ نکل جانا۔

اس کے ساتھ موجود دیگر دونوں نوجوان بھی زخمی ہوئے لیکن وہ ہوش و حواس میں ہیں۔ ٹارگٹ سدھو تھا اسی لیے ڈرائیور سائیڈ پہ ہی زیادہ گولیاں داغی گئیں۔

جب اس کو گولیاں لگیں تو دو منٹ میں وہاں بندے اکٹھے ہو گئے لیکن حسب معمول سب ویڈیو بنانے لگے۔ پہلے تو پتا نہیں چلا کہ کون ہے جب کسی نے منہ اس طرف کیا تو پتا چلا سدھو ہے۔ اب سب ویڈیو بناتے ہوئے اک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ ایمبولینس کو کال کرو۔ ویڈیو روک کر کال کوئی نہیں کرنا چاہتا تھا۔

اس دوران سدھو کو الٹی آ گئی جس سے ناک اور سانس کی نالی میں رطوبت جمع ہو گئی۔ سانس لینے میں اور دقت ہونا شروع ہو گئی۔ گولیاں لگنے سے خون ضائع ہو رہا تھا جب اک کار والا آیا اس نے گاڑی موڑی اور کہا کہ اسے میری گاڑی میں ڈالو میں ہاسپٹل لے جاتا ہوں تب تک پولیس بھی آ گئی تھی۔

تب تک سدھو زندہ تھا لیکن ہاسپٹل پہنچنے سے قبل دم توڑ گیا۔ میرے پاس حادثے کے بعد سے پولیس آنے تک کی پورے 14 منٹ کی ویڈیو ہے۔ یعنی 14 منٹ لوگ ویڈیو بناتے رہے پہچان لینے کے باوجود کہ یہ سدھو موسے والا ہے سب کو ویڈیو بنانی تھی یا جان بلب سدھو کو سیدھا کر کے اس کے ساتھ فریم میں آنا تھا

انسانیت کھا گیا یہ سوشل میڈیا۔ آپ سب سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس سوشل میڈیا نے نا محسوس انداز میں ہم سب کے ساتھ کیا کیا ہے تو اسکیپ لائیو نامی اک ہندی ویب سیریز ہے وقت ملے تو ضرور دیکھیے گا

اکثر دوست سدھو موسے والا سے ناواقف ہیں لیکن اس کا کوئی نہ کوئی گانا ضرور سن رکھا ہو گا۔ ابھی دس دن قبل اس کا نیا گانا آیا تھا جو اس نے خود لکھا تھا اس میں یہ کہتا ہے جوان کے چہرے کا نور بتاتا ہے کہ اس کا جنازہ جوانی میں اٹھے گا اور وہی ہوا۔ اک ماہ بعد اس کی شادی تھی 30 اک سال عمر تھی بے چارے کی۔ جو سدھو کو جانتے ہیں اکثر میری طرح سمجھتے ہیں کہ سدھو بدمعاش لوفر اور شوباز ہے لیکن سدھو کی اک ٹیگ لائن تھی جو وہ تقریباً ہر گانے میں گاتا تھا وہ اس کی شخصیت کو بیان کرتی ہے اور وہ تھی

”دل دا نی ماڑا سدھو موسے والا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments