” عربی سے طب تک“ قسط۔ 2


سکول اگرچہ واپڈا کے زیر انتظام، واپڈا کے ملازمین کے بچوں کے لئے تھا مگر ارد گرد کے دیہات کے طلبا کو بھی داخل کر لیا جاتا تھا۔ چنانچہ یہاں طلبا کی نصف تعداد دیہات کے طلبا کی تھی۔ سکول میں کچھ اساتذہ معمولی معمولی باتوں پر دیہاتی طلبا کو چھڑی سے پیٹ ڈالتے تھے۔ ماسٹر شیر محمد ایسے ہی ایک استاد تھے۔ ضلع جہلم کے قصبہ ’رہتاس‘ کے رہنے والے تھے۔ مڈل تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ غالباً کسی پرائمری سکول سے ریٹائر ہو کر یہاں آئے تھے۔

خدا جانے انہیں مقامی دیہاتی طلبا سے کیا بیر تھا کہ وہ بات بے بات انہیں مارا کرتے تھے۔ غالباً ساتویں جماعت میں چند ماہ کے لئے انہوں نے ہمیں اردو پڑھائی تھی۔ ایک مرتبہ اردو پڑھاتے پڑھاتے درمیان میں لفظ ”زر اندوزی“ در آیا۔ انہوں نے خود اس کا مطلب بتانے کی بجائے چن چن کر دیہاتی طلبا سے اس لفظ کے معانی پوچھنے شروع کر دیے۔ صاف ظاہر ہے یہ لفظ ہمارے لئے نیا تھا اور ہم میں سے کسی کو بھی اس کا معنیٰ معلوم نہیں تھا۔

جب منگلا کالونی کے طلبا میں سے بھی کوئی اس کا مطلب نہ بتا سکا تو ہم دیہاتی طلبا بھی ان کے عتاب سے بچ گئے۔ البتہ کچھ عرصہ بعد مولوی محمد حسن، جو ہمیں اردو اور اسلامیات پڑھایا کرتے تھے، کی عدم موجودگی میں دو تین دن کے لئے ہماری جماعت کی نگرانی ان کے سپرد کی گئی۔ اسلامیات ان کا مضمون نہیں تھا۔ قرآن شریف کی درست تلاوت سے نابلد ہونے کا وہ خود اعتراف کرتے تھے۔ اسلامیات پڑھانے کی مشقت سے بچنے کے لئے انہوں نے اسلامیات کی کتاب دیکھ کر ڈھیر سارے سؤالات گھر کے کام کے لئے لکھوا دیے۔

مولوی محمد حسن ہمیں سال بھر سے اسلامیات پڑھا رہے تھے اور اب سال ختم ہونے کو تھا۔ وہ تو اسلامیات زبانی پڑھایا کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی گھر کا کام دیا تھا اور نہ ہی نوٹ بک بنانے کا کہا تھا چنانچہ کسی کے پاس بھی نوٹ بک نہیں تھی۔ گاؤں میں ان دنوں کتابوں اور کاپیوں کی دکانیں نہیں ہوتی تھیں۔ پاکٹ منی کا بھی کوئی ایسا رواج نہیں تھا کہ ہم سکول سے فراغت کے بعد منگلا کالونی سے ہی کاپیاں خرید لیتے۔ اب شام کو گھر جا کر ہم کاپیاں لاتے تو کہاں سے۔

لہذا دوسرے دن دیہاتی طلبا میں سے کوئی بھی گھر کا کام کر کے نہیں لایا تھا۔ ماسٹر شیر محمد کو بنا بنایا بہانہ مل گیا تھا۔ انہوں نے میرے سمیت سبھی دیہاتی طلبا کو چھڑی سے بہت بری طرح پیٹ ڈالا۔ تین دن بعد جب مولوی محمد حسن واپس آئے تو میں نے انہیں بتایا کہ ماسٹر شیر محمد نے اسلامیات کی کاپیاں نہ ہونے پر ہمیں بہت مارا ہے۔ مولوی صاحب بہت جز بز ہوئے اور کہا کہ میں نے تو آپ کو کبھی کاپیاں بنانے کا کہا اور نہ ہی گھر کے لئے کام دیا، ماسٹر شیر محمد کو اس کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی؛وہ تو صرف تین دن کے لئے آپ کو پڑھانے آئے تھے۔

اسی طرح جب ہم نویں جماعت میں تھے، ایک مرتبہ پھر مولوی محمد حسن ایک ہفتہ کی چھٹی پر گئے۔ پہلے دن ان کی عدم موجودگی میں ہماری کلاس میں اساتذہ میں سے کوئی بھی نہ آیا۔ یہ بات تو سب جانتے تھے کہ سکول میں مولوی محمد حسن کے علاوہ عربی کا اور کوئی استاد نہیں ہے۔ سکول میں نماز پڑھنے یا وضو کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ مسجد وہاں سے ذرا فاصلے پر تھی۔ جب سے این ایچ بیگ پرنسپل ہو کر آئے تھے تفریح کا گھنٹہ سکڑ کر تیس منٹ کا ہو گیا تھا۔

اتنے قلیل وقت میں کھانا کھانا اور مسجد میں جا کر نماز پڑھنا ممکن نہیں تھا۔ مجھے علم تھا کہ ہفتہ کے بقیہ دن بھی یا تو ہمیں عربی پڑھانے کوئی نہیں آئے گا اور اگر کوئی آیا بھی تو سوائے وقت گزاری کے اور کچھ نہیں کر سکے گا۔ چناں چہ دوسرے دن میں نے اپنے چچا زاد بھائی شبیر احمد، جو میرے ساتھ ہی پڑھتا تھا، سے کہا کہ چلو ہم وضو کر آتے ہیں تاکہ تفریح کے وقت ہم سکول کے لان میں ہی نماز ادا کر لیں۔ جب ہم واپس آئے تو ہمارے ہم مکتب دوستوں نے بتایا کہ آج ماسٹر شیر محمد آئے تھے۔

انہوں نے پڑھایا تو کچھ بھی نہیں البتہ آپ دونوں کے نام انہوں نے نوٹ کر لیے ہیں۔ اگلے دن انہوں نے ہم سے پوچھا کہ تم دونوں کل کہاں تھے؟ ہم نے انہیں سچ سچ بتا دیا کہ ہم وضو کرنے گئے تھے۔ ہمارے جواب سے ان کی تشفی نہیں ہوئی۔ وہ ہمیں ساتھ لے کر پرنسپل کے دفتر میں گئے۔ پرنسپل اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ ہم واپس آ گئے۔ کلاس میں آ کر ماسٹر شیر محمد وقت گزاری کے لئے ادھرادھر کی باتیں کرتے رہے اور عربی کا گھنٹہ بغیر کسی پڑھائی کے اسی طرح گزار دیا۔ ہم یہ سمجھے کہ بلا گلے سے ٹل گئی ہے۔ لیکن

دوسرے دن پھر وہ ہمیں پرنسپل کے پاس لے گئے۔ انہوں نے پرنسپل سے کہا: ”یہ لڑکے قریبی دیہات سے آتے ہیں۔ انہیں آتا جاتا کچھ بھی نہیں،

یہ اپنا اور سکول کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ ان کے نام سکول سے خارج کر دیں ”۔ میں ہکا بکا ماسٹر شیر محمد کو دیکھ رہا تھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ چند ماہ قبل میں آٹھویں جماعت کے امتحان میں اول آیا تھا اور ایک ماہ پہلے سکول کے سالانہ جلسہ تقسیم انعامات میں مجھے ڈھیر سارے انعامات ملے تھے۔ شبیر بھی پڑھائی میں اچھا تھا اور ہر سال بڑی آسانی سے پاس ہوتا چلا آ رہا تھا۔ اب یہ صاحب محض اپنے سر پر لٹکتی ملازمت سے بر طرفی کی تلوار کو کند کرنے کے لئے دروغ گوئی سے کام لے رہے تھے۔

میں نے وضو کے لئے جانے کی وجہ تو بیان کی لیکن میں پرنسپل کو یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ سکول میں وضو کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ مزید برآں سکول کے بیت الخلاؤں میں ہاتھ دھونے کے لئے سنک تک نہیں اور وہ اس قدر غلیظ اور متعفن ہیں کہ ان کے قریب سے بھی گزرا نہیں جاسکتا۔ پرنسپل، جن کے پاس میرا میٹرک میں سائنس کے مضامین نہ رکھنے کا معاملہ ایک آدھ ماہ پہلے پیش ہو چکا تھا، نے شیر محمد کی بات پر زیادہ دھیان تو نہیں دیا البتہ میرے منہ پر تھپڑ دے مارا۔

میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ ایک ماہ کے اندر ماسٹر شیر محمد کا بستر گول ہو گیا اور انہیں مناسب تعلیم نہ ہونے کی بنا پر سکول سے برخاست کر دیا گیا۔ این ایچ بیگ کو تین ماہ کے اندر اس دنیا سے ہی رخصت کا پروانہ مل گیا۔ وہ دو ہفتے کی چھٹی پر گھر ایسے گئے کہ پھر پلٹ کے نہ آئے۔

کالج میں داخلہ

مئی 1966ء میں میٹرک کا امتحان ہو گیا، اگست کے دوسرے ہفتے میں رزلٹ آ گیا۔ میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہو گیا۔ والد محترم نے کالج میں داخلے کا کام چچا صوفی لعل محمد کے سپرد کر دیا جو ان دنوں میرپور میں ایک ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ مجھے کالج میں لے گئے۔ داخلہ فارم بھرتے ہوئے میں نے اردو اور انگریزی، جو لازمی مضامین تھے، کے علاوہ فزکس کیمسٹری اور بیالوجی کے مضامین لکھ دیے۔ چچا جان کا خیال تھا
کہ میٹرک میں یہ مضامین نہ پڑھنے کی وجہ سے اب یہ مضامین رکھنے پر کالج کو اعتراض ہو گا۔ کالج کو واقعی اعتراض تھا۔ یہ معاملہ کلرک صاحبان سے مرحلہ در مرحلہ چلتا ہوا پرنسپل کے پاس پہنچ گیا۔ پرنسپل خواجہ حمید ممتاز تھے۔ پراجیکٹ ہائی سکول منگلا میں اول آنے اور انٹر میڈیٹ بورڈ لاہور سے سکالر شپ ملنے کے باوجود پرنسپل خواجہ حمید ممتاز مجھے ایف ایس سی میں داخلہ دینے پر تیار نہیں تھے اس لئے کہ میں نے میٹرک میں عربی پڑھنے کی خواہش کے پیش نظر مضامین کا انتخاب ہی غلط کیا تھا۔

چچا جان نے ہی ان سے بات کی۔ پرنسپل صاحب کا کہنا تھا کہ اگر خلاف ضابطہ ہم اس طالب علم کا ان مضامین میں داخلہ منظور کر بھی لیں تب بھی لاہور بورڈ دو تین ماہ بعد اعتراض لگا کر اسے مسترد کر دے گا، اس طرح اس کا وقت ضائع ہو گا۔ بہتر ہو گا آپ سائنس کے مضامین کی بجائے آرٹس کے مضامین کا انتخاب کریں۔ میں نے آرٹس کے مضامین میں داخلہ لینے سے انکار کر دیا۔ چچا جان نے مجھے منانے کی بہت کوشش کی مگر میں نہ مانا۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے ’مجھے میرے بھائی نے آپ کو کالج میں داخل کرانے کے لئے بھیجا ہے، میں آپ کو داخل کرائے بغیر واپس کیسے لے جاؤں، خود ہی مضامین کا انتخاب کیا، داخلے کی درخواست پر اکنامکس (Economics) ، سوکس (Civics) اور تاریخ (History) کے مضامین لکھے، پرنسپل کے دستخط کروائے، اور داخلے کی رقم جمع کروا کے داخلے کی چٹ میرے ہاتھ میں تھما دی۔

ستمبر کے پہلے ہفتے سے کلاسیں شروع ہو گئیں۔ میں اکنامکس کے مضمون پر سر جیمز سٹوورٹ (Sir James Steuart) ، آدم سمتھ (Adam Smith) اور تھامس کارلائل (Thomas Carlyle) کی تعریفیں سنتا رہا۔ رسد اور طلب کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش میں الجھتا رہا۔ پروفیسر خیرات یہ مضمون پڑھاتے تھے۔ شہریت کچھ اسی طرح کا مضمون تھا جس میں ریاست اور سیاست کی باتیں تھیں۔ تاریخ، مؤرخوں کا مختلف قوموں کے ماضی کا جانب دارانہ جائزہ تھا کہ وہ گزرے وقت میں خود اپنے اور دوسروں کے لئے کیا کارنامے سر انجام دیتے رہے اور انہوں نے اپنے ہونے کے اس دنیا میں کیا انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

میں اگرچہ دو ماہ تک یہ مضامین پڑھتا رہا مگر ان میں میری دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں ان مضامین سے چھٹکارا پا کر سائنس کے مضامین کیسے پڑھوں تاکہ میڈیکل کالج میں داخلے کا حق دار بن سکوں۔ زندگی محض جینے تک محدود ہو کر اپنا حسن کھو بیٹھی تھی۔ اس میں کوئی ولولہ باقی بچا تھا نہ گرم جوشی۔

لڑکپن سے نوجوانی کا تغیر ذرا نازک سا مرحلہ ہوتا ہے۔ ہارمونز کی تبدیلی کے باعث جسمانی نشو و نما میں ہی یکایک اضافہ نہیں ہوتا، ذہنی بالیدگی بھی

تغیر پذیر ہوتی ہے۔ اس دور میں کسی قسم کی بے سکونی، جذباتی دباؤ یا کسی قسم کا احساس محرومی، ذہنی توازن میں لڑکھڑاہٹ یا دوسرے الفاظ میں نفسیاتی خلل کا سبب بن سکتا ہے۔ میرے ساتھ بھی معاملہ کچھ اسی طرح کا تھا۔ زیست میں جمود سے غیر محسوس طریقے سے میرے مزاج میں یاسیت اور پژمردگی در آئی تھی۔

منگلا سے میرپور کا فاصلہ تقریباً ًدس میل کا تھا۔ روزانہ کا یہ سفر بس پر ہوتا۔ منگلا میں بسوں کا اڈا میرپور سے جہلم جانے والی بڑی سڑک پر واقع نہیں ہے۔ ان دنوں اس روٹ پر چلنے والی بسوں کو منگلا جانے کے لئے بڑی سڑک سے ہٹ کر تقریباً دو میل تک جانا اور واپس آنا پڑتا تھا، اب بھی ایسا ہی ہے، اگرچہ فاصلہ ذرا کم ہو کر صرف دو فرلانگ رہ گیا ہے۔ میں صبح ساڑھے چھے بجے گھر سے نکلتا اور سہ پہر پانچ بجے کے قریب واپس آتا۔

نومبر 1966 ء کا پہلا ہفتہ تھا، میں اس دن کالج سے ذرا جلدی فارغ ہو گیا تھا۔ واپس آتے ہوئے بس نے منگلا کے بس سٹاپ سے دو فرلانگ پہلے ہی واپڈا آفس کے سامنے اتار دیا اور وہیں سے واپس چلی گئی۔ میں منگلا کالونی کے اندر سے ہوتے ہوئے اپنے سکول جا پہنچا۔ مجھے سکول میں کوئی کام نہیں تھا، میں تو اپنا راستہ چھوٹا کرنے کی غرض سے ادھر گیا تھا۔ میں اپنے خیالات کے تانے بانے میں الجھا ہوا سر نہوڑائے سکول کے کواڈرینگل سے گزر رہا تھا کہ ایک طرف سے مجھے آواز آئی:

جمیل! ادھر آؤ، میری بات سنو۔ میں نے سر اٹھا کے ادھر دیکھا تو سائنس ٹیچر نسیم الحسن سائنس روم کے باہر کھڑے مجھے اپنے پاس بلا رہے تھے۔ میں ان کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے سلام دعا کے بعد میرے چہرے کو غور سے دیکھا اور کہا:

جمیل! تم مجھے بہت پریشان نظر آرہے ہو، کیا وجہ ہے؟

وجہ وہی ہے جو آپ جانتے ہیں۔ میں کالج میں آرٹس کے مضامین پڑھ رہا ہوں جن میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اب کیا کروں۔ میرے اس جواب پر انہوں نے چند لمحے کچھ سوچا اور مجھ سے سؤال کیا:

جمیل کیا تم اپنی زندگی کا ایک سال دے سکتے ہو؟

ان کے سوال سے مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھ سے میری زندگی کا ایک سال خود اپنے لئے مانگ رہے ہیں۔ میں نے کہا :ہاں، میں ایک سال دے سکتا ہوں۔

تو پھر تم کل سے کالج نہیں جاؤ گے۔ یہاں میرے پاس آؤ گے۔
میں ایسے ہی کروں گا، میں نے کہا۔

دوسرے دن سے میں نے کالج جانا چھوڑ دیا اور سکول جانے لگ پڑا۔ نسیم الحسن نے ہی پرنسپل سے بات کی۔ غلام محمد بٹ صاحب ریٹائر ہو کر جا چکے تھے، اب ان کی جگہ نورالحسن پرنسپل تھے۔ انہوں نے بخوشی مجھے سائنس کی کلاسوں میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ میں نے اپنے بڑے بھائی، جو برطانیہ میں تھے، کو خط لکھ کر اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور ان سے اجازت طلب کی۔ انہوں نے جو اباً لکھا اگر آپ کے استاد آپ کو یہ مشورہ دے رہے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ البتہ جب والد محترم کے علم میں یہ بات آئی کہ میں نے کالج چھوڑ کر سکول جانا شروع کر دیا ہے تووہ یہ کہہ کر ناراض ہو گئے ’دوسرے لوگ آگے بڑھتے ہیں، یہ آگے جانے کی بجائے پیچھے لوٹ آیا ہے‘ ۔

جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments