کمرشل ادب کا دوشاخہ : زنانہ ادب بمقابلہ مردانہ ادب


کچھ دن قبل ”ہم سب“ پر ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جو کہ خواتین کے ادب سے متعلق تھا۔ اس مضمون میں زنانہ ڈائجسٹوں میں قسط وار شائع ہونے والے ناولوں پر طنزیہ انداز میں تنقید کی گئی تھی۔ اگرچہ یہ تنقید بڑی حد تک جائز محسوس ہوئی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی احساس ہوا کہ مصنف نے مردوں کے تحریر کردہ ناولوں پر تنقید نا کر کے ناصرف خواتین کے ساتھ بلکہ اردو ادب کے ساتھ بھی نا انصافی کی ہے۔

جن ناولوں پر تنقید کی گئی تھی، وہ دراصل ایسے ناول ہیں جن کا مرکزی کردار ایک بھولی بھالی لڑکی ہوتی ہے جس کا دل آئینے کی طرح صاف و شفاف اور بے داغ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ معصوم لڑکی اردگرد کے آلودہ ماحول کے زیر اثر کسی حد تک نماز نا پڑھنے اور روزے نا رکھنے کی حد تک گمراہ ہوجاتی ہے لیکن پھر اس کے اندر کی اچھائی اور نیک نیتی اسے راہ راست پر لے آتی ہے۔ گمراہی سے راہ راست پر آنے کا یہ سفر عموماً یونہی طے نہیں ہوتا بلکہ اس میں کسی انتہائی با اصول، نیک نیت، فرشتہ سیرت، ذہین و فطین، حسین و جمیل، با کردار اور کسی حد تک نک چڑھے مرد کامل کا عمل دخل ہوتا ہے جو اکثر و بیشتر بھولی بھالی لڑکی کی پھوپھی یا چچا کا بیٹا ہوتا ہے۔

یہ مرد کامل لڑکی کے اندر موجود چھپی ہوئی اچھائی کو پہچان لیتا ہے اور اسے گمراہی سے نکلنے میں مدد دیتا ہے، پھر لڑکی راہ راست پر آجاتی ہے اور ناول شادی اور بچوں کی پیدائش پر منتج ہوتا ہے۔ اگر ناول پر قارئین کی جانب سے زیادہ اچھا ریسپانس آ رہا ہوتو اسے دانستہ طول بھی دے دیا جاتا ہے مثال کے طور پر شادی کے بعد نیک نیت اور فرشتہ سیرت مردوزن کا یہ جوڑا خلقت کے سدھار میں اپنا حصہ ڈالتا نظر آتا ہے اور بہت سے بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

کبھی کبھی کہانی میں صورت حال کچھ یوں بھی ہوتی ہے کہ لڑکی یا لڑکا اپنے حالات کی وجہ سے اپنے خالق سے بدگمان ہو کر دعاؤں اور عبادتوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے لیکن پھر کوئی معجزہ اسے واپس خدا کی جانب راغب کر دیتا ہے۔ اس قسم کے ناولوں میں قرآن کی ماڈرن تفاسیر بھی جا بجا نظر آتی ہیں جو کہ روایتی تفاسیر سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ ناول کے بدنیت کردار عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتے ہیں کبھی فیشن ایبل ماں بیٹے کے ہاتھوں تیزاب گردی کا نشانہ بنتی ہے تو کبھی بیٹی حق کی خاطر ناز و نعم سے پرورش کرنے والے والدین سے منہ موڑ لیتی ہے یعنی جیت حق کی ہی ہوتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے پر تصنع ناولوں میں اتفاقات، معجزات اور انسانی کاملیت کے جن درجات کی نقشہ کشی کی جاتی ہے ان کا وجود حقیقی زندگی میں ممکن نہیں ہے لہذا ان پر طنزیہ تنقید میری نظر میں جائز ہے۔

اب آتے ہیں مردانہ ادب کی جانب۔ اگر آپ واقعی ایک دلچسپ کہانی کی تلاش میں ہیں تو چاہے محی الدین نواب ہوں، ایم اے راحت ہوں، اقلیم علیم ہوں، محمود احمد مودی ہوں یا انوار صدیقی ہوں آپ کو دلچسپی کا محدود مواد ہی مہیا کرتے ہیں۔

ایک مصیبت کا مارا مرد جو کسی بہت بڑے صنعت کار، جاگیر دار، بزنس مین یا کبھی کبھی کسی بہت بڑے جادوگر یا ماورائی قوتوں کے حامل شخص کے ساتھ حق کی خاطر دشمنی مول لیتا ہے اور مصائب کا شکار ہو کر دربدر ہوجاتا ہے۔ پھر مصائب کے ساتھ ساتھ اس کی زندگی میں اس پر پروانہ وار فدا ہونے والی حسیناؤں کی لائن لگ جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ حسینائیں عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے ناولوں کی ہیروئنوں کی طرح پاک دامن اور معصوم ہوتیں ہیں تو کچھ ابلیس کی آلہ کار بھی ہوتی ہی۔

لیکن ان تمام حسیناؤں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ انھیں ساری جگت میں ناول کے ہیرو سے زیادہ بڑا مرد کامل کہیں میسر نہیں آیا ہوتا لہذا وہ اس مرد کامل کی خاطر تن، من، دھن، خاندان، رشتے، عزت نفس، مستقبل اور زندگی سمیت سب کچھ داؤ پر لگا دیتی ہیں۔ اکثر و بیشتر ان ناولوں میں طلسماتی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ کوئی خیال خوانی کے ذریعے دنیا کو کنٹرول کر رہا ہوتا ہے تو کوئی نا صرف صدیوں زندہ رہتا ہے بلکہ غسل آب کے بعد غسل آتش سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔

کبھی کبھی تو کسی کے سر پر مستقل طور پر کوئی نازک اندام مگر ننھی منی حسینہ ڈیرا ڈال لیتی ہے جو ہوتی تو اگرچہ اس کی عاشق ہے جس کے سر پر اس کا بسیرا ہوتا ہے لیکن عام دنیاوی حاسد عورتوں کی طرح حسد کا مادہ اس میں رتی بھر بھی نہیں پایا جاتا اور اپنے محبوب کی دل بستگی کی خاطر وہ حسین لڑکیوں کے دماغوں کو کنٹرول کر کے انھیں اس کے ساتھ جنسی مراسم قائم کرنے پر اکساتی ہے۔

طلسماتی کرداروں سے قطع نظر، ان مردانہ ناولوں میں عموماً عورتوں کی دو اقسام کا تذکرہ ملتا ہے۔ پہلی قسم وہ ہے جس سے تعلق رکھنے والی عورتیں ہیرو سے غیر مشروط عشق کرتی ہیں اور تھوڑا سا وقت ہیرو کے ساتھ گزار کر ساری زندگی اس کی یادوں کے سہارے کاٹ دیتی ہیں۔ پہلی ملاقات کے بعد ہیرو بھلے دس، بیس سال بعد بھی انھیں ملے، انھیں اپنا منتظر ہی پاتا ہے۔ یہ وہ نیک طینت عورتیں ہوتی ہیں جو اپنے ہیرو کا ہزاروں بار کیا گیا جرم بیوفائی بھی کھلے دل سے معاف کر دیتی ہیں۔

ہر قسط میں ہیرو کم از کم تین چار عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق ضرور قائم کرتا ہے جس کی روئیداد تمام تر تفصیلات کے ساتھ کہانی میں موجود ہوتی ہے اور ہیرو چونکہ ایک انتہائی سچا اور ایماندار شخص ہوتا ہے لہذا نت نئی عورتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کبھی بھی اپنی دیگر محبوباؤں سے نہیں چھپاتا۔ اس قسم کی عورتوں کی زندگی میں صرف چند گنے چنے مقاصد ہوتے ہیں یعنی ہیرو سے محبت کرنا، اس کی راہ تکنا اور اس کے لئے دنیا تیاگ دینا۔ عورتوں کی اس کیٹیگری میں شہری، دیہاتی، ماڈرن، سادہ، اعلی تعلیم یافتہ، انپڑھ، ارب پتی، حد درجہ غریب غرض ہر قسم کی عورتیں شامل ہوتی ہیں۔

مردانہ ناولوں میں پائی جانے والی عورتوں کی دوسری قسم بدنیت اور بے وفا عورتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کی نقشہ کشی منفی کرداروں کے طور پر کی جاتی ہے۔ ایک دور میں ان سے مراسم قائم کرنے کے بعد ہیرو جب اپنی مجبوریوں کے باعث ان سے منہ پھیر کر دیگر معاملات میں الجھ جاتا ہے اور دیگر عورتوں سے تعلقات قائم کرتا ہے تو یہ کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتقام کی آگ میں جلنے لگتی ہیں اور ہیرو کے دشمنوں سے ساز باز کر کے اسے اور اس کی محبوباؤں اور ساتھیوں کو نقصان پہچانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن چونکہ یہ عورتیں اور ان کے ساتھی باطل کا استعارہ ہوتے ہیں لہذا نیک دل ہیرو اور اس کے ساتھیوں سے مات کھاتے ہیں۔

مار دھاڑ اور جنسیت سے بھرپور اس قسم کے ناول چونکہ ایک عام پاکستانی مرد کی خواہشات کے عکاس ہوتے ہیں لہذا واجبی طور پر تعلیم یافتہ افراد میں کافی مقبول بھی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مردانہ ناول اردو زبان میں شائع ہونے والے ڈائجسٹوں کی جان ہیں اور سالہا سال چلتے ہیں اور انھیں پڑھتے پڑھتے ایک جوان نسل بوڑھی ہوجاتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان ناولوں کی کوئی نا کوئی قسط ایک مخصوص ایج گروپ سے تعلق رکھنے والے کم و بیش ہر خواندہ فرد نے ضرور پڑھ رکھی ہوتی ہے لیکن کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا جس نے ان ناولوں کی تمام اقساط پڑھ رکھی ہوں۔ ان کہانیوں میں اتنی یکسانیت ہوتی ہے کہ اگر آپ دو قسطوں کے درمیان درجنوں اقساط بھی چھوڑ دیں تو بھی ادھورے پن کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ کہانی میں کچھ بھی نیا نہیں ہوتا صرف کرداروں کے نام بدل جاتے ہیں۔

اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے فارغ ہیں تو ان ناولوں سے عارضی طور پر دل بہلا سکتے ہیں لیکن حقیقت سے کم و بیش کلی طور پر دور ہونے کے باعث یہ ناول آپ کی اخلاقی یا سماجی تربیت میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرتے۔ اگر آپ پختہ سوچ کے حامل فرد نہیں ہیں تو یہ مردانہ ناول آپ کی نفسانی خواہشات کو غیر ضروری ہوا بھی دے سکتے ہیں۔

ڈائجسٹوں میں قسط وار شائع ہونے والے ان زنانہ اور مردانہ ناولوں کا واحد اور بے حد مضبوط مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ دن بہ دن کمزور پڑتی اردو زبان کو سہارا دینے کا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں اور ان کے قارئین دوران مطالعہ لاشعوری طور اردو زبان کے اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments