خبر سے بے خبری تک


یہ جو آپ نے ہاتھ میں پکڑ رکھا ہے، پیغام رسانی کا آلہ، جس میں ساری دنیا آ سمٹی ہے۔ کچھ خبر ہے کہ پیغام رسانی نے اس شکل تک پہنچنے کے لیے کتنے مراحل طے کیے (دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک) ۔ ابلاغ انسان کی سرشت میں ہے۔ ابتدائی انسان جب بولنا نہیں جانتا تھا اشاروں کے ذریعے پیغام پہنچاتا تھا۔ اشاراتی، علامتی ابلاغ وقت کے ساتھ ترقی کرتا گیا۔ آج دنیا بھر میں متعدد چٹانوں پر کنندہ سنگی نقوش قدیم تہذیبوں کی بازیافت کا اہم ذریعہ ہیں۔ آج کے ایموجیز بھی قدیم علامتی ابلاغ کی ہی ترقی یافتہ صورت ہیں۔

ابلاغ کے لیے حسب ضرورت آواز، تصویر، تحریر کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ موثر ابلاغ عامہ کے لیے بھی انھی صورتوں پر الگ الگ یا اکٹھا انحصار کیا جاتا ہے۔ ابلاغ عامہ کے لیے کسی واسطے یعنی میڈیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ جتنا بہتر میڈیا ہو گا پیغام رسانی اتنی ہی بہتر ہوگی۔ ادب بھی ابلاغ کی ہی ایک صورت ہے، خبر بھی ابلاغ کی ایک شکل ہے۔

خبر سماجی طور پر تعمیر شدہ حقیقت ہے، جس کا سادہ مطلب آگاہی ہے۔ دنیا ہمیشہ سے خبروں کے پیچھے بھاگتی رہی ہے حالانکہ کبھی بے خبری بھی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ خبر نے زمانے کے ساتھ سفر کیا ہے اور مواصلات کے ہر ذریعے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ کبھی خبریں دینے کے لیے ڈھول پیٹ کر ، نقارہ بجا کر اعلان کی صورت خبر کو نشر کیا جاتا تھا۔ خبر پر وہ وقت بھی آیا ہے جب کسی علاقے میں کسی نمایاں مختص جگہ پر خبریں درج کی جاتی تھیں کہ سب جان لیں (جیسے آج کل نوٹس بورڈز) ۔ آثار قدیمہ قدیم تہذیبوں کی خبر دینے کا وسیلہ ہیں۔

کاغذ کی وافر دستیابی اور پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے اخبارات کا آغاز ہوا۔ جس میں تحریری اور تصویری ابلاغ کا سہارا لیا جاتا تھا۔ یہ سفر پھر رکا نہیں ریڈیو کے ذریعے آواز، ٹی وی کے ذریعے آواز اور متحرک تصویروں کی مدد سے پیغام رسانی ممکن ہوئی۔ غرض بدلتے دور میں ذرائع مواصلات کی ترقی سے خبر کو متواتر فائدہ پہنچتا رہا۔ یہ خبر کی ترسیل کے مختلف ذرائع رہے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں موجود آلے میں ان تمام ذرائع سے بیک وقت یا حسب منشا الگ الگ مستفید ہونے کی سہولت موجود ہے۔ چاہیں تو اخبار پڑھ لیں، ریڈیو سن لیں، ٹی وی کا مزہ لے لیں، یا تحریری، صوتی، بصری ابلاغ کے امتزاج سوشل میڈیا سے فیض پالیں، جو اس وقت کر بھی رہے ہیں۔

آپ تھوڑی دیر کے لیے سوشل میڈیا سے دور رہیں تو آپ کی توجہ کی محتاج کتنی ہی خبریں جمع ہوجاتی ہیں۔ جتنا فاصلے سمٹے ہیں اور خبر کی ترسیل میں وقت کا عامل ختم ہوا ہے شاید اتنا ہی خبر کی قدروقیمت میں کمی آ گئی ہے۔ چند لمحے پرانی خبر پھیکی لگتی ہے چاہے کتنی بڑی ہی کیوں نہ ہو۔ ایک تو پاکستانی میڈیا نے ہر منٹ بعد بریکنگ نیوز چلا کر بریکنگ نیوز کا چارم ہی ختم کر دیا ہے۔ ورنہ ایک دور میں ہفتوں بعد جا کر کوئی خبر بریکنگ نیوز کے درجے پر فائز ہوتی تھی۔ مزید پیچھے سرکائیں وقت کو تو برصغیر میں اخبارات کے ابتدائی دور میں مہینہ پرانی خبروں کی بھی وقعت ہوتی تھی، جب مہینے بھر کے سفر کے بعد برطانیہ سے بحری جہاز برصغیر کے ساحل پر لنگر انداز ہوتا تھا تو مقامی اخبارات کے رپورٹر وہاں کا احوال جاننے کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے۔

سوشل میڈیا کی مقبولیت کی اہم ترین وجہ آسان رسائی اور فیڈ بیک کی سہولت ہے جو دوسرے میڈیا کے زمانوں میں اس حد تک میسر نہیں رہی۔ بدلتے رجحانات نے خبر پر جس طرح اثر ڈالا ہے اس کا اندازہ سوشل میڈیا کی کسی بھی مقبول صورت کا سرسری جائزہ لینے سے ہی بخوبی ہوجاتا ہے۔ مثلاً فیس بک گروپس سوشل میڈیا کے ہی مرہون منت ہیں۔ کسی بھی گروپ میں جیسے خبریں ملتی ہیں، خبروں کی تکرار ملتی ہے، خبروں کا تنوع ملتا ہے، خبروں پر تبصرے ملتے ہیں، خبروں پر تجزیے ملتے ہیں۔ یہی طرز سوشل میڈیا پر چہار سو نظر آتا ہے۔ تو ”جو رہی سو بے خبری رہی“ کے مصداق بے خبری میں عافیت لگتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments