شاہ کے وفادار بہروپیے صحافی قابل کراہت بھی ہیں


ان بہروپیے صحافیوں کی سمجھ بوجھ اور سوچ کے معیار کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ اپنے ایک نظریاتی مخالف صحافی کو اس بات کا طعنہ دیتے ہیں کہ اس کا ریپ کیا گیا تھا۔ اس کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں۔ بازاری زبان استعمال کرتے ہیں اور اس پر فقرے کستے ہیں۔ وہ صحافی ان بہروپیوں سے، ایک لائیو انٹرویو کے دوران، ان کے پیشہ ورانہ کارناموں کے بارے میں سوالات کر رہا تھا۔ ظاہر ہے ان کے لیے وہ سوالات مشکل تھے کیونکہ وہ صحافی نہیں بہروپیے تھے۔

ایک صحافی کی زندگی مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ پر خطر بھی ہوتی ہے۔ ایک طرف تو اسے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ کتابیں پڑھتا ہے، اپنے آپ کو حالات حاضرہ کے متعلق اپڈیٹ رکھتا ہے اور دن رات بھاگ دوڑ کرتا ہے پہلے خبروں کے لیے اور پھر ان خبروں کی تصدیق کے لیے۔

صحافی کی زندگی بہت پر خطر ہوتی ہے کیونکہ وہ طاقت کے کھیل میں عوام کے ساتھ ہوتا ہے۔ کمزور کی آواز بنتا ہے اور اسے سب تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ کمزور کو طاقت دیتا ہے۔ آج کے دور میں، خاص طور پر جب معلومات ہی سب کچھ ہیں، تو صحافی کی ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے۔

ایک صحافی کے پاس قلم، مائیک اور کیمرے کی طاقت ہوتی ہے۔ ان ہتھیاروں کی مدد سے وہ عوام الناس کو ایجوکیٹ کرتا ہے۔ صحافی ایک باشعور معاشرہ قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں پر عوام کو انصاف مل سکے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں حکمران اپنے اعمال کے لیے عوام کو جواب دہ ہوں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں عوام اپنا حق مانگنے کے لیے آواز بلند کر سکیں۔

ایک صحافی کی مدد سے ہی عوام حکمرانوں سے مشکل سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ اچھی صحافت عوام کو اس قابل بناتی ہے کہ حکمران انہیں دھوکہ نہ دے سکیں۔ صحافت ہی حکمرانوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہیں ورنہ یہ بات عوام سے چھپی نہیں رہے گی اور انہیں جواب دینا پڑے گا۔

صحافی کے پاس یہ چوائس نہیں ہے کہ وہ شاہ یا ظالم کے لیے کام کرے۔ صحافی کہلانے کا حق اسے تبھی ہے جب وہ عوام اور مظلوم کے لیے کام کرے۔ اگر وہ شاہ کے لیے کام کرے گا تو پھر وہ بہروپیا تو ہو سکتا ہے لیکن صحافی نہیں۔

حکمرانوں کو بھی صحافی اور صحافت کی طاقت کا اندازہ ہے۔ عوام دشمن لالچی ڈکٹیٹرز جو چاہے سامنے حکومت کر رہے ہوں یا پیچھے بیٹھ کر تاریں ہلاتے ہوں وہ ایک اچھے صحافی سے خاص طور پر ڈرتے ہیں۔ وہ ایک اچھے صحافی کے کام کا توڑ نکالنے کے لیے کچھ نوسرباز کرپٹ قسم کے لوگ بھرتی کرتے اور انہیں عوام کے سامنے صحافی کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ یہ بہروپیے حکمرانوں کا ماوتھ پیس ہوتے ہیں۔ عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان کی مدد سے ناعاقبت اندیش حکمران اور گھس بیٹھیے ایک ایسا ماحول تخلیق کرتے ہیں کہ عوام کو حکمرانوں اور گھس بیٹھیوں کی کارستانیاں نظر نہیں آتیں۔ وہ مذہب، قومیت یا کسی بھی ایسے نعرے کے جھانسے میں آ کر حکمرانوں پر اندھا یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ان سے سوالات نہیں پوچھ پاتے۔

صحافت کے بہروپ میں یہ ٹھگ عوام کو اندھیرے میں رکھنے کے لیے شاہ کی مدد کرتے ہیں۔ اس کے بدلے میں شاہ ایسے بہروپیوں کو بڑے اور اہم عہدوں پر بٹھاتا ہے تاکہ وہ حکمران کی آواز کو دور دور تک پہنچا سکیں۔ ایسے لوگ شاہ کی مدد سے بہت مشہور تو ہو جاتے ہیں لیکن رہتے تو جاہل اور گنوار بہروپیے ہی ہیں۔ اچھی صحافت تو کیا وہ تو تمیز اور تہذیب سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ وہ اخلاق سے گری ہوئی بازاری زبان استعمال کرتے ہیں۔

ایسے ہی شاہ کے وفادار کچھ بہروپیوں نے مطیع اللہ جان کے بڑے اہم اور دلیرانہ سوالات کے جواب میں ذاتی حملے کیے اور بازاری زبان استعمال کی ہے۔ شاہ کے وفادار یہ بہروپیے ہمارے معاشرے میں اخلاقی انحطاط کے ذمہ داروں میں سے ہیں۔

ضروری وضاحت: مضمون کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ وہ صحافی ریپ جیسے گھناؤنے جرم کا وکٹم اور سروائیور ہے یا نہیں۔ اس مضمون میں یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ صحافی کے روپ میں یہ کون لوگ ہیں جو کسی مرد، عورت، ٹرانسجینڈر، بچی یا بچے کو ایک ریپ وکٹم ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ اور یہ کہ ان کی عقل و فہم اور سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ان گھس بیٹھیے حکمرانوں کا مقام کیسے طے ہو جنہوں نے انہیں اپنا ماؤتھ پیس مقرر کیا ہوا ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments