حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں


 

وہ تو ناتجربہ کار تھا، نا لائق تھا، نا اہل تھا، علوم سیاسیات سے نا بلد تھا، راج نیتی کو سمجھتا نہیں تھا، اس کی ٹیم ٹھیک نہیں تھی، زمینی حقیقتوں کے ادراک سے کوسوں دور تھا، جذباتی تھا، سر سے پیر تقریر ہی تقریر تھا، باتیں اور صرف باتیں کرتا تھا، بیگم کے یاد کرانے پر اس کو اپنے وزیر اعظم ہونے کا پتہ چلتا تھا، ڈالر کا ریٹ اس کو ٹی وی سے معلوم ہوتا تھا، اس کی کابینہ کی تشکیل بھی ”کہیں اور“ ہوا کرتی تھی، آلو اور ٹماٹر کا ریٹ اس کو پتہ نہیں تھا، مہنگائی کو کنٹرول کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی، پٹرول اور ڈیزل کے نرخ آئے روز بڑھا کرتے تھے، اس کا دور عوام کے لئے ایک عذاب سے کم نہ تھا، مہنگائی نے عوام کی کمر کو خمیدہ کر دیا تھا اور پھر جب اس کے ظلم حد سے بڑھنے لگے تو اس وقت کی تجربہ کار، اہل اور لائق اپوزیشن کو عوام الناس کی حالت زار پر رحم آ گیا اور سب نے مل کر عوام کو اس نحوست سے چھٹکارا دلانے کا پروگرام ترتیب دیا اور مقصد کے حصول کے لئے جان جوکھوں میں ڈال کر، آپس کے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر، یک جان ہو کر تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈالا اور کامیابی سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی چھٹی کروا کر دم لیا

مہنگائی کی چکی میں پستی پبلک اور معاشی ماہرین کو اطمینان ہوا کہ ملک کی باگ ڈور اب ایک تجربہ کار اور اہل حکومتی اتحاد کے ہاتھ میں آئی ہے اب راوی چین ہی چین لکھے گا، اب دودھ اور شہد کی نہریں افراط سے بہتی نظر آئیں گی، خوشحالی اور معاشی استحکام کا دور دورہ ہو گا مہنگائی قصہ پارینہ بن جائے گی، مزدور اور کسان خوش حال ہو گا، بند صنعتیں دوڑ پڑیں گی، کاروبار بام عروج پر پہنچ جائے گا، ڈالر کی بلند پرواذیت زمین بوس ہو جائے گی، ملکی کرنسی ترقی کی نئی جہتوں کو چھو لے گی، تیل اور بجلی کوڑیوں کے بھاؤ دستیاب ہوں گے مگر ایں خیال است و محال است و جنوں

آج تک ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ہر آنے والی حکومت خالی خزانہ کی دہائی دیتی سنائی دیتی ہے اور جانے والی حکومت اپنی بہترین معاشی پالیسیوں کے ثمرات سے قومی معیشت کو مستفید کرنے کا کریڈٹ لیتی دکھائی دیتی ہے۔ محو حیرت ہوں کہ ہر آنے والا وزیر خزانہ جانے والے کو بوجھ اور ہر جانے والا آنے والے کو معیشت سے نابلد کیوں قرار دیتا ہے۔ حکومت کی آنکھ سے دکھائی دینے والی ہریالی اپوزیشن میں پہنچتے ہی خشک جھاڑیوں میں کیوں بدل جاتی ہے؟

اپوزیشن میں نظر آنے والا عوام پر ظلم حکومت ہاتھ آتے ہی ناگزیر فیصلوں میں کیسے بدل جاتا ہے؟ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت میں بڑھتے تیل کے دام عوام پر بم محسوس ہوتے ہیں مگر اپوزیشن لیڈر سے وزیراعظم کی کرسی پر رونق افروز ہوتے ہی صرف ایک ہفتہ میں تیل کی قیمت میں ساٹھ روپے کا ہوش ربا اضافہ کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کی کانپیں تک نہیں ٹانگتیں۔

محترم شہباز شریف صاحب اللہ نے آپ کے رستے کی تمام رکاوٹوں اور بندشوں کو ختم کر کے ناقابل یقین انداز میں آپ کو وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر پہنچا دیا ہے۔ عوام کی ایک کثیر تعداد کو اختلافات کے باوجود آپ سے بہتری کی امید تھی۔ ایک بڑی تعداد کو بھروسا تھا کہ آپ کی حکومت بہتری نہ لا سکی تو بد تری اور ابتری تو ہر گز نہیں ہو گی۔ لوگوں کو علم تھا کہ آپ کے پاس حکومت کاری کا وسیع تجربہ بھی ہے، خود بھی اہلیت کے دعوے دار ہو۔

لائق و فائق ہونے میں بھی دو رائے نہیں۔ تجربہ کار اور کنٹرولڈ ٹیم کا ساتھ بھی ہے، زمینی حقیقتوں سے بھی آشنا ہیں، عوام کے نبض شناس بھی ہیں، علوم سیاسیات سے بھی مالا مال ہیں اور سیاسی ضرورتوں کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں مگر آپ نے تو عوام کو بیچ منجدھار لا کر لاوارث چھوڑ دیا۔ اقتدار کے تقریباً دو ماہ میں آپ نے کوئی ایک کام بھی عوامی فلاح و بہبود کا نہیں کیا الٹا تیل اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کر کے قوم کو غربت اور مہنگائی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ہمیشہ معاشرے کا نچلہ اور لوئر مڈل کلاس طبقہ براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ وسائل اور آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کمزور ہوتی قوت خرید ان کو جرائم اور خودکشی جیسے رستوں کی طرف دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے پورے معاشرہ میں بگاڑ اور عدم توازن کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی معاشرہ کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ گردانی جاتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد کو طفل تسلیوں اور سبسٹڈی کے وعدوں پر ٹرخایا نہیں جا سکتا۔

ان حالات میں ہماری وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب سے دست بستہ اپیل اور ایک قابل عمل تجویز ہے کہ آپ بے شک قوم کو سبسٹڈی نہ دیں مگر غریب قوم کے امیر وزراء، بیورو کریٹس، سول و فوجی افسران۔ ججز۔ حکومتی عہدیداروں اور مشیروں کی نا جائز مراعات محدود کر دیں۔ ان کی مفت پٹرول و بجلی کی مراعات کو بیک جنبش قلم ختم کر دیں ان کے سالانہ مفت سفری اخراجات کو کم سے کم کر دیں۔ ان کو بڑی گاڑیوں سے نسبتاً چھوٹی گاڑیوں پر لے آئیں۔

آپ نے کراچی میں خطاب کرتے ہوئے مراعات یافتہ طبقہ سے قربانی مانگنے کی بات کی تھی تو اب دیر کس بات کی بسم اللہ کیجیے تاریخ میں نام لکھوائیے۔ آج ہی آغاز کیجئے مراعات یافتہ طبقے کی مراعات کے آگے بند باندھنے کی شروعات کیجیے تو پھر دیکھیے اللہ کی نصرت کیسے آپ کی مدد کو آتی ہے اور کیسا انقلاب مملکت پاکستان کے دروازے پر دستک دیتا ہے اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر آرام سے اقتدار کو الوداع کہ کے اللہ اللہ کیجئے۔ قوم کو آپ کی شوبازیوں کی قطعاً ضرورت نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments