ٹی ٹی پی کی جانب سے فائر بندی میں توسیع: طالبان اور پاکستانی حکومت کے مطالبات کیا ہیں؟

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


طالبان
پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے سیز فائر میں غیر معینہ مدت تک کے لیے توسیع کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ ’کالعدم تحریک طالبان سے 2021 میں بات چیت شروع ہوئی تھی۔ یہ بات چیت حکومتی سطح پر ہو رہی ہے اور افغان حکومت اس میں سہولت فراہم کر رہی ہے۔‘

وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ بات چیت میں سول اور ملٹری نمائندگی شامل ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’سیز فائر کا حکومتی سطح پر خیرمقدم کرتے ہیں، بات چیت کا دائرہ کار آئینی ہے، کمیٹی جو بھی فیصلہ کرے گی، اس کی منظوری پارلیمان اور حکومت دے گی۔’

اس سے قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جمعہ کے روز اپنے ایک اعلامیہ میں تا حکم ثانی جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا ’دو دن پہلے کابل میں تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے پشتون قوم، بالخصوص قبائلی عمائدین اور علما پر مشتمل گرینڈ جرگہ کے درمیان مذاکرات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔‘

ٹی ٹی پی کے بیان کے مطابق مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے چند دنوں کے اندر مزید مذاکرات ہوں گے۔ تاہم اب تک ہونے والے مذاکرات کے بارے میں سرکاری سطح پر اس سے قبل بیانات سامنے نہیں آئے تھے اس لیے یہ جاننا اہم ہیں کہ دونوں فریقوں کے مطالبات کیا ہیں۔ لیکن اس سے قبل ان مذاکرات کا پسِ منظر جان لیتے ہیں۔

مذاکرات کا پسِ منظر

افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت کے توسط سے پاکستانی حکام اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان پچھلے کچھ عرصے سے امن مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔

گذشتہ دنوں 40 سے زیادہ قبائلی عمائدین اور علما پر مشتمل ایک وفد جنوبی وزیرستان سے کابل گیا تھا جبکہ اس سے پہلے شمالی وزیرستان کا ایک وفد مذاکرات کے بعد وہاں سے واپس لوٹا تھا۔

ایک قبائلی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس وقت بتایا تھا کہ جنوبی وزیرستان سے جانے والا وفد امارات اسلامی افغانستان کے رہنماؤں اور تحریک طالبان پاکستان کے قائدین سے ملاقات کرے گا۔

اس کے علاوہ طالبان ذرائع کے مطابق مذاکرات کا پہلا دور افغانستان کے علاقے خوست میں ہوا تھا جس میں چند ایک باتوں پر اتفاق ہوا تھا۔

ان کے مطابق ان میں یہ بات بھی شامل تھی کہ امارات اسلامی یعنی افغان طالبان ثالث کا کردار ادا کریں گے۔ قیدیوں کی رہائی کے بارے میں تفصیل سے بات چیت ہوئی تھی اور حکومت بشمول مسلم خان اور محمود خان 102 قیدیوں کو رہا کرنے پر راضی ہوئی۔

پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ کابل میں ہوا جس میں امارات اسلامی افغانستان کے حکام نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔

جنوبی وزیرستان

افغانستا کے ساتھ آہنی باڑ لگنے کے بعد بھی حالیہ عرصے میں پاکستانی علاقوں میں شدت پسند کارروائیاں ہوتی رہی ہیں

جنگ بندی میں توسیع

جنگ بندی کا یہ سلسلہ عید سے پہلے شروع کیا گیا تھا جس میں وقتاً فوقتاً توسیع کی جاتی رہی، تاہم اب یہ توسیع غیر معینہ مدت کے لیے کر دی گئی ہے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ مذاکرات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان نے 29 اپریل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ 10 شوال تک جنگ بندی رہے گی۔ اس بیان میں تمام کارکنوں سے کہا گیا تھا کہ اس جنگ بندی پر مکمل عمل درآمد کیا جائے اور کہیں بھی کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس دوران ملک کے کسی علاقے سے بھی تشدد کے کسی واقعے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

اس کے بعد بھی طالبان کی جانب سے فائر بندی میں محدود مدت کے لیے دو مرتبہ توسیع کی گئی۔ تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے اس بارے میں مکمل خاموشی رہی۔

شدت پسند

بات چیت اور عمل درآمد کیسے ممکن ہو گا؟

اب تک افغانستان میں امارات اسلامی کی ثالثی میں مذاکرات کے متعدد دور ہو چکے ہیں اور ان مذاکرات میں مختلف شخصیات شامل رہی ہیں جن میں پشاور سے عسکری حکام نمایاں رہے ہیں۔

سرکاری ذرائع نے بتایا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات حکومتی سطح پر ہو رہے ہیں اور اس میں حکومت کے مختلف اداروں کی شخصیات کے ساتھ ساتھ قبائلی راہنما بھی شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے جون کے وسط تک کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔

مذاکرات، مطالبات، شرائط؟

ایک قبائلی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی کوشش ہے کہ معاملات کو سلجھایا جائے، ’دونوں جانب ایک ہی قبیلے اور ایک ہی رسم و رواج اور زبان کے لوگ ہیں اور امید ہے کہ بات چیت سے حالات بہتر ہو جائیں گے۔‘

قبائلی رہنما نے بتایا کہ بنیادی طور پر طالبان کا مطالبہ ہے کہ قبائلی علاقوں کی سابقہ حیثیت بحال کی جائے یعنی خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کا فیصلہ واپس لے کر ان علاقوں کو پھر سے فاٹا یعنی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کا درجہ بحال کیا جائے۔

اس کے علاوہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ طالبان کا مطالبہ ہے کہ فوج ان قبائلی علاقوں سے واپس چلی جائے یعنی ان علاقوں میں جتنی فوجی چوکیاں ہیں انھیں ختم کیا جائے اور انھیں رہنے کے لیے محفوظ علاقہ دیا جائے۔

طالبان

طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل قبائلی علاقوں کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کا خاتمہ ہی بنیادی موضوع ہے جس پر بحث ہو رہی ہے۔

طالبان کے ذرائع نے بتایا کہ دیگر مطالبات میں مالا کنڈ ڈویژن بشمول کوہستان اور ہزارہ میں نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ، ملک بھر میں طالبان پر قائم مقدمات کا خاتمہ، حکومت کی جانب سے کیے گئے نقصان کا ازالہ اور امریکی ڈرون حملوں کی اجازت نہ دینا شامل ہیں۔

حکومت کی جانب سے جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان میں طالبان ذرائع کے مطابق پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا، اسلحے کے لیے لائسنس کا حصول، بغیر لائسنس کے اسلحے کی واپسی اور تحریک کو تحلیل کرنا شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے پاکستانی طالبان سے داعش کے ساتھ تعلقات نہ رکھنے اور فائر بندی جاری رکھنے کے مطالبے بھی کیے ہیں۔

طالبان ذرائع نے بتایا کہ ٹی ٹی پی نے قبائلی علاقوں سے فوجی چوکیاں ختم کرنے کے لیے آٹھ ماہ کا وقت دیا ہے، جبکہ قیدیوں کی رہائی کے لیے سہہ فریقی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ دو اہم طالبان قیدی مسلم خان اور محمود خان کو رہا کر کے افغان طالبان کی تحویل میں دے دیا گیا ہے جنھیں مذاکرات کی کامیابی کے بعد ٹی ٹی پی کے حوالے کر دیا جائے گا۔

طالبان ذرائع نے بتایا کہ قبائلی علاقوں کے انضمام کا خاتمہ طالبان کا بنیادی مطالبہ ہے جس پر عمل درآمد ضرور کرایا جائے گا۔

سکیورٹی اہلکار

جنگ بندی سے پہلے تشدد کے واقعات

عید الفطر سے پہلے قبائلی علاقوں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا۔ گزشتہ سال اگست میں جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی ہے پاکستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیاں بڑھ گئی تھیں۔

ان حملوں میں پاکستان کے اندر فورسز پر حملے ہی نہیں پاک افغان سرحد پر بھی سخت کشیدی دیکھی جا رہی تھی۔ افغان طالبان پر بھی اس کا دباؤ بڑھ گیا تھا کیونکہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی تھی اور اس بارے میں افغان حکام کو آگاہ کیا گیا تھا۔

اس سال کے پہلے چار ماہ میں جہاں حکومت کے جانب سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں وہاں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بھی متعدد حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں کے دعوے باقاعدہ سوشل میڈیا پر پیغامات کی شکل میں جاری کیے جاتے رہے ہیں۔

تنظیم نے مارچ کے مہینے میں 39 اور اپریل کے مہینے میں 54 حملے کرنے کا دعویٰ کیا تھا جن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

سرکاری سطح پر بھی طالبان کے خلاف آپریشنز کیے گئے جن میں شدت پسندوں کی ہلاکت اور گرفتاریوں کا کہا گیا ہے۔ طالبان کی جانب سے شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں سب سے زیادہ حملے کیے گئے ہیں۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments