مال روڈ مری کی آپ بیتی


میں مال روڈ مری، کہنے کو ایک عام سی سڑک مگر ہونے کو خاص الخاص، مشہور و معروف۔ مجھے پاکستان کے سب سے زیادہ قابل رسائی سیاحتی مقام کی مرکزی شاہراہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ میرا جنم کب ہوا، اس بارے یاداشت ساتھ نہیں دے رہی۔ ہاں آغاز جی پی او چوک سے ہوتا ہے، پھر اتار چڑھاؤ کا شکار ہوتی مری کینٹ کی طرف نکل جاتی ہوں۔ جانتے ہیں سڑک ایک راستہ ہوتی ہے، بالکل زندگی کے راستے کی مانند۔ ایک وسیلہ کہیں پہنچنے کا ۔ سڑک کئی سنبھلے ہوؤں کو بھٹکاتی ہے، کئی بھٹکے ہوؤں کو صراط مستقیم پر ڈالتی ہے۔

میں بہت سی راہوں کو ملاتی کہیں سے کہیں پہنچتی ہوں لیکن میرے ایک مخصوص حصے کا نام مال روڈ ہے، جہاں سارے مری کی ساری رونق سمٹ آتی ہے۔ میرے نقطہ آغاز جی پی او چوک سے رستے جھیکا گلی، کشمیر پوائنٹ، کلڈنہ، سیسل روڈ، لوئر بازار کی طرف نکلتے ہیں۔ اختتام پر میں کینٹ سے ہوتی ہوئی پنڈی پوائنٹ کے دلکش ساکت اور پر فضا مقام سے گھوم کر اپنے آپ میں ہی ضم ہوجاتی ہوں۔ دھندلا دھندلا سا یاد آیا کہ ایک زمانے میں میری جگہ محض سادہ پگڈنڈی تھی۔

پھر انگریزوں نے رونق بخشی، بلکہ اتنی بخشی کہ 47 ء تک مقامی افراد کا مجھ پر داخلہ ممنوع تھا۔ بقیہ مری کی طرح مجھے بھی انگریزوں کے عہد میں ناموری اور ترقی ملی۔ اب مجھ میں بہت بدلاؤ آ گیا ہے۔ میں بہت سے بیت چکے زمانوں کی گواہ ہوں۔ ہر دور میں اپنے کناروں پر تخریب و تعمیر کے کھیل دیکھ چکی ہوں۔ البتہ ابتدائی زمانے میں قدرتی نظاروں کے باعث مجھے خود پر جتنا ناز ہوتا تھا اب بڑھتے کمرشل ازم پر اتنی ہی ندامت ہوتی ہے۔

میرا حسن گہنا چکا ہے مگر ناموری میں کمی نہیں آئی۔ میرا اصل نام جناح روڈ ہے مگر دنیا مال روڈ کے نام سے ہی جانتی ہے۔ جس نے مری آ کر مال روڈ نہیں دیکھا، گویا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ میں مری کی پہچان ہوں۔ یادوں کے دریچے کھولوں تو ماضی میں پرسکون ہوتی تھی، سادہ سے ہوٹل، کافی شاپس، اور چند دوسری دکانیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے میں کیا سے کیا ہو گئی بلکہ خود نہیں ہوئی مجھے کیا سے کیا کر دیا گیا۔ اب تو قدرتی نظاروں کی راہ میں دو طرفہ کنکریٹ کے بدنما عفریت حائل ہیں۔

قدم قدم پر طرح طرح کے ہوٹل، یکساں نوعیت کی اشیائے خریدوفروخت سے بھری دکانیں، دستکاری کے مراکز، کافی سٹال، سلش سٹال، ریستوران، ایک خوبصورت قدیم چرچ، ایک قدیم لائبریری، مختلف بنک وغیرہ میرا اثاثہ ہیں۔ کرونا سے پہلے سکون کی گھڑیاں تو میرے لیے ناپید تھیں۔ مئی تا ستمبر اور دسمبر تا فروری میں کھوے سے کھوا اچھلنا کی عملی شکل پیش کرتی تھی۔ تب آپ واک کرنا چاہتے تو اپنے رسک پر کرتے، راہ چلتوں سے ٹکراتے خود کو بحفاظت بچا کر نکال لے جانا بڑی کامیابی ہوتی۔ گزرے بغیر بھی چارہ نہیں تھا کہ زیادہ تر اے ٹی ایمز میرے ہی کنارے واقعی ہیں، بھوکے پیٹ بھرنے کا سامان میرے ہی کنارے ہے، مقامی آبادیوں تک پہنچنے کے پیچ در پیچ راستے میرے ہی چاروں طرف سے اترتے ہیں۔ اگر آپ کوئی پہنچی ہوئی آسامی ہیں تو مجھ پر سے گاڑی گزار سکتے ہیں ورنہ پیدل ہی گزرنا ہو گا۔

اگرچہ سیاحوں کے نزدیک میں بہت بدنام ہو چکی ہوں کہ جو ناران، کاغان، سوات، ہنزہ کے بڑھتے کمرشل ازم پر طنز کرنے کے لیے کہتے ہیں وہ مقام اب مال روڈ مری بن چکے ہیں۔ پھر بھی جی ہاں پھر بھی آپ میں سے اکثریت کے والدین ایک زمانے میں بہت شوق سے مجھ پر گھومے ہوں گے۔ ابھی دو تین سال پہلے سیزن کے دوران مجھ پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ ہر طرح کے، ہر وضع کے، ہر طبقے کے، ہر طرز کے، ہر عمر کے لوگوں کی آماجگاہ میں ہوتی تھی۔ تب ایک بات دعوے سے کہہ سکتی تھی کہ اگر آپ پر اداسی طاری ہے، قنوطیت نے آپ کا گھیراؤ کر رکھا ہے، موڈ خراب ہے تو آپ کچھ دیر میرے کنارے کسی بنچ پر بیٹھ جائیں یا کسی ریستوران کی اوپری منزل سے جھانکیے، شرطیہ آپ کا موڈ بدل جائے گا۔

آپ کا ذہن جو جو تصور کر سکتا ہے وہ وہ نمونے آپ دیکھ سکتے ہیں۔ پنجاب کے ہر علاقے سے آئے بلکہ ہر صوبے کی نمائندگی کرتے، فیملیز، کپلز، کھلونوں کے لیے مچلتے بچے، خریداری کی دیوانی عورتیں، ہر وضع کی لڑکیاں، شدید جدیدیت کی پروردہ، قدامت پرست بھی، بوڑھے، شوخ و چنچل جوان، لڑکی نما لڑکے، لڑکا نما لڑکیاں، ادھیڑ عمر منچلے۔ اگر ملبوسات پر غور کرنے لگیں تو ہر طرز کے ملیں گے۔ حتی کہ دھوتی اور ساڑھی تک نظر آجاتی ہیں۔ مسلسل شور کرتے، موبائلز کے کیمرے آن کیے بے کراں ہجوم۔ کسی اونچی جگہ سے دیکھیں تو سر ہی سر نظر آئیں گے جن کی نہ سمت ہے نہ مقصد، حرکت تیز تر اور سفر آہستہ کی عملی تصویر۔ کئی من چلے تو مال روڈ پر ہی چکراتے رہتے ہیں۔ یہ مناظر میری یادداشت میں زندہ ہیں۔ کرونا کے بعد صورتحال بدل گئی۔

اگرچہ مری کا اصل چہرہ اور ہے میں (مال روڈ) ہرگز نہیں، مگر وائے افسوس دنیا میری ہی تمنائی و شیدائی ہے۔ مری کے مخصوص موسموں کی طرح میرا بھی رنگ روپ بدلتا رہتا ہے۔ جاننے والے میرے بدلتے مزاج کو جانتے ہیں، خزاں میں خوشنما چولا اوڑھا ہوتا ہے، فصل بہار میں فطری حسن جوبن پر ، برسات میں بھیگا اور دھند میں گم حسن، سرما میں نگاہوں کو خیرہ کرنے والا سفید پوش۔ غرض میرے سارے منظر دیدنی ہیں، دلفریب ہیں، دلکش ہیں، سارے روپ البیلے ہیں، سارے رنگ نرالے ہیں، میں بجا طور پر مری کا رخ زیبا ہوں۔ مگر میں بڑھتے کمرشل ازم کے سبب اپنے گہناتے حسن کو لے کر بہت اداس اور پریشان ہوں۔ جس مری کی میں نمائندگی کرتی ہوں اس کے فطری حسن کا خیال نہ کیا گیا تو لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے ایک تھا مری۔ جاتے جاتے ایک گزارش کہ مجھے اور مری کو ”ایک تھا مری“ بننے سے بچا لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments