اٹھو! اس سے پہلے کہ اٹھا لیے جاؤ


اس موضوع پر میں نے پہلے بھی لکھا ہے۔ میں کوئی صف اول کا لکھاری نہیں کہ میری بات کو پڑھا اور اس پر عمل کیا جائے۔ اپنے پہلے لکھے میں کچھ تبدیلی کے ساتھ دوبارہ اس امید پر لکھ رہا ہوں کہ شاید ”ان کے“ دل میں میری بات اتر جائے۔

مہنگائی اور پاکستان کے روز بروز بگڑتے معاشی اور سیاسی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک سیاسی ڈھانچہ کی مستقبل بنیادوں پر اشد ضرورت ہے۔ وہ سیاسی ڈھانچہ کیسا ہو سکتا ہے اس پر آج بات کرنا چاہتا ہوں۔

پاکستان اور مدینہ میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے ہجرت۔ ہجرت مدینہ کے بعد پیارے نبی ﷺ نے اپنے مشن کی تکمیل کے لئے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی اور پھر مستقل مزاجی سے اپنے مشن پر گامزن رہے۔ اس دوران جبر نہیں بلکہ صبر کا نظام چلتا رہا۔ وقت نے ثابت کیا کہ صبر کرنے کا فیصلہ بہترین تھا۔ مثالی منصوبہ بندی، تسلسل، مستقل مزاجی، سیاسی اور عسکری حکمت عملی کامیابی کے راستے ثابت ہوئے اور ایک مثالی معاشرہ قائم ہوا۔

ہجرت مدینہ کے بعد ہجرت ہند تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہے۔ ہر جسمانی ہجرت کے پس منظر میں پہلے سوچ کی ہجرت ہوتی ہے۔ اس موضوع پر میرا تفصیلی کالم ”سوچوں کی ہجرت“ پہلے شائع ہو چکا ہے جس میں اب تک کی ہجرتوں پر تفصیلی نقطہ نظر دیا تھا۔ ہجرت ہند کے نتیجہ میں پاکستان کا وجود بے مقصد قطعاً نہیں تھا۔ پاکستان کی اب تک کی تاریخ میں سیاسی عدم استحکام نمایاں رہا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہونے کے باوجود کوئی جمہوری وزیراعظم اپنا وقت پورا نہیں کر سکا۔

حتیٰ کہ عمران بھی، جن کے بارے میں سب کہتے تھے کہ ان سے بڑا ”لاڈلا“ کوئی نہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ سیاسی تجزیہ کاروں کا ایک گروپ اس کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ اور دوسرا سیاستدانوں کو ٹھہراتا ہے۔ میرا خیال ہے دونوں میں عدم اعتماد اور عدم تعاون نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جمہوری اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان عدم اعتماد اور عدم تعاون کا آغاز تو قائداعظم کی زندگی میں ہی اس وقت ہو گیا تھا جب جنرل گریسی جو اس وقت کے کمانڈر ان چیف تھے، نے کشمیر کے حوالے سے بانی ٔ پاکستان کا حکم نہ مان کر کیا تھا۔

عدم تعاون اور سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کو معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا تو کیا کرنا تھا، گھسٹ گھسٹ کر چلنے بھی نہیں دیا۔ 1965 تک پاکستان ایک طاقتور معاشی قوت کے طور پر سامنے آیا مگر پھر پاکستان کی کشمیر میں غیر منظم مہم جوئی اور مغربی قوتوں کی سازشوں کے نتیجے میں پاک بھارت جنگ نے ہمیں ایسا کمزور کیا کہ آج تک سنبھل نہیں سکے۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سب کو بے چین رکھتی ہے۔ گوادر پورٹ کی حالیہ پیش رفت کسی کو اچھی نہیں لگتی۔

روس کا افغانستان پر حملہ بھی دراصل اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ پاکستان بری طرح دہشت گردی کا شکار رہا۔ ہم نے اپنی کم اور دوسروں کی جنگوں میں اپنا بے پناہ نقصان کیا جس کا صلہ کبھی نہ ملا۔ عمران حکومت کا خاتمہ اور متحدہ اپوزیشن کا اقتدار میں آنا بھی پاکستان کو کوئی خاطرخواہ معاشی اور سیاسی استحکام دیتا نظر نہیں آتا، سوائے اس کے کہ کوئی معجزہ ہو جائے۔ بظاہر اپوزیشن اقتدار میں آئی یا لائی مگر عملی طور پر نون لیگ کی واپسی ہوئی ہے۔ شہباز شریف کا ایک اچھے چیف ایگزیکٹو کا بت بھی پاش پاش ہو گیا۔ زرداری صاحب اگلی پکی باری کے لئے اس کچی باری میں سے اپنا حصہ لینے میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے۔ بس بلاول کی سیاسی تربیت کے لئے اس کو شامل کر دیا ورنہ انہیں اس وقت حکومت چلنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔

ان سب مسائل کا حل کیا ہے؟ ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ”سیاسی استحکام“ ۔ سیاسی استحکام کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ میرے نقطۂ نظر سے یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ ادارے جس میں سیاسی جماعتیں، عدلیہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں۔ سب مل کر ”وژن پاکستان“ کا خاکہ بنائیں جس میں طے کر لیں کہ پاکستان کا سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی ڈھانچہ کیا ہو گا؟ یہ کہنا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا اس میں کیا کام؟ ، ایک بے معنی بات ہوگی۔

اگر پاکستان کو آگے بڑھانا ہے تو یہ حقیقت سامنے لانی ہوگی کہ سیاسی اور عسکری ادارے ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر نہیں چل سکتے۔ مضبوط اور توانائی پاکستان کے لئے سول اور عسکری اداروں کا تعاون بے حد ضروری ہے۔ یہ تعاون ہوتا ضرور ہے مگر عارضی۔ جیسے ہی مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے یہ تعاون ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال عمران حکومت کا خاتمہ ہے۔ خان سے زیادہ تعاون کس کو ملا ہو گا؟ مگر جیسے ہی بات بگڑی تو پھر بگڑتی چلی گئی۔

پاکستان میں یہ عمل دخل جاری رہنا ہے۔ نواز شریف تین بار اس کا شکار ہوچکے۔ عمران خان کی کوشش سامنے ہے۔ کیا خیال ہے پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس میں عدم تعاون کی فضا نے امریکہ کو سپرپاور بنا دیا؟ قطعاً نہیں۔ وہ لوگ مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کس قسم کا بندہ لانا ہے اور پھر اس منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہیں۔ امریکہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ بندے بدلتے رہتے ہیں۔ کیا خیال ہے اوبامہ اچانک آیا تھا؟

امریکہ کی کثیر سیاہ فام آبادی کو خوش کرنے کے لئے اسے لایا گیا۔ ٹرمپ کا تجربہ کیا گیا جو کسی حد تک مختلف تجربہ تھا، امریکہ کو سوٹ نہیں کیا، نکال باہر کیا۔ چین کی قیادت کو بھی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور پھر دس سال کے لئے اس کے ذریعے ملک چلایا جاتا ہے۔ ان کے ہاں ملکوں کی پالیسی بنائی جاتی ہے اور پھر اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے جو نام کی حد تک پارلیمانی ہے۔

صدارتی نظام جب بھی چلایا گیا، چہرے تو پارلیمانی نظام والے ہی رہے۔ فوج جب برسراقتدار آتی رہی، سوائے ایوب خان کے، پاکستان معاشی طور پر مستحکم نہ ہوسکا۔ دوسری بات یہ کی یہ نظام بہرحال سول لوگوں نے ہی چلانا ہوتا ہے اس لئے جیسے عسکری ادارے مضبوط ہیں اسی طرح سول ادارے بھی مضبوط ہوں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ معاشی طور پر مستحکم پاکستان ہی عوام، فوج، سیاستدانوں اور عدلیہ کو دوام دے سکتا ہے۔ پاکستان ہے تو یہ سب ہیں، خدانخواستہ پاکستان نہیں تو سب بے کار۔

اب بھی وقت ہے۔ اگلے انتخابات سے پہلے سب ادارے بیٹھ جائیں۔ فیصلہ کر لیں کہ اسمبلی کی مدت چار برس ہوگی، وزیراعظم کو ہٹانے کی روایت ختم ہو جانی چاہیے۔ آرمی چیف ہر مدت پوری ہونے پر اگلا سینئر ترین جرنیل ہی آرمی چیف ہو گا۔ عدلیہ میں پہلے ہی اس روایت عمل ہو رہا ہے۔ سیاسی لوٹوں کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔ وزیراعظم دو مدت کے لئے اور ممبر رکن اسمبلی بھی دو بار بن سکے گا۔ اس کے بعد وہ اپنی جماعت کے تھنک ٹینک میں رہیں مگر کوئی سیاسی عہدہ نہیں رکھیں گے۔

اس کے علاوہ پاکستان کے تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ جو کچھ میں نے لکھا ہے پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے۔ سیاسی ہیجان قوم کے لئے زہر ہے۔ یہ سب کچھ ممکن ہے۔ نیت صاف ہونی چاہیے۔ ایسا کرنے سے سیاستدانوں میں فوج کی طرف سے حکومت ختم کرنے کا خوف اور فوج کی سیاست میں عدم مداخلت کے بیان ختم ہوجائیں گے۔ پاکستان کی پالیسی بنائیں۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات پر سیاسی پابندیاں نہ لگائی جائیں۔ جیسا ماضی میں ہوتا رہا اور اب تحریک انصاف یا اس کے سربراہ سابق وزیراعظم پر پابندی کی افواہیں سننے کو مل رہی ہیں۔ آج کل پاکستان کی دفاعی پالیسی کے حوالے سے ”باجوہ ڈاکٹرائن“ کی اصطلاح بہت عام ہوئی۔ ہمیں اسی بنیاد پر پاکستان ڈاکٹرائن پر کام کرنا چاہیے۔

اگر ہم ان تمام تجاویز پر عمل کر لیں تو ایک روشن پاکستان ہمارا منتظر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments