ایک یوتھن کی سچی کہانی


یکم رمضان سے جس طرح آئین شکنی اور آئین کی پاس داری کے لئے ایک آپریشن کلین اپ شروع ہوا جسے کم از کم ہم تو فطری ابال ہے کہیں گے کیونکہ جب سب کچھ غیر متوقع ہونا شروع ہو جائے تو سمجھ لیں نظام کسی اور کے ہاتھ میں چلا گیا ہے اور اب عمل اور در عمل کا منطق سمجھنا ہی حق و باطل کی جنگ ہے

بہت حکومتیں آئیں گئیں مگر اس بار جو حماقتیں اور بونگیاں اور ناقابل برداشت دکھائی دے رہی ہیں۔ کبھی یہ طوفان بد تمیزی اس زمین نے نہیں دیکھا تھا ان وقتی جذباتیت ہوتی تھی۔ لیڈر جیل میں جذبات کھال میں

اب مہذب دکھنے والوں کے اوپر سے تہذیب کی کھال رد عمل کے طور پہ فوری اتر گئی۔ چونکہ یہ ان کی اپنی نہیں تھی۔ کھال بھی اپنی ہی سلامت رہتی ہے

جو کچھ ہو رہا ہے ہم سب دیکھ رہے ہیں۔

مگر یہ جو جلا دیں گے مار دیں گے عمران کو کچھ ہوا تو کوئی نہیں بچے گا تو عزیزو بھٹو کم از کم اس سے بہت قابل اور مقبول لیڈر تھا۔

کہانی تھی جی یوتھن کی۔ جس کی پوسٹ فیس بک پہ شاید کئی بار لگائی کیونکہ کالونی میں رات کی وال پہ سماجی سلام دعا سب کی ہو ہی جاتی ہے۔ اس تیس پینتیس سالہ عورت کو اللہ کے اس کے لیڈر کی طرح دنیا کی پر شے سے نوازا ہوا ہے سوائے ظرف شکر اور تمیز کے۔

تمیز و تہذیب بھی یکم رمضان تک باقی تھی جو معلوم ہوا کہ تہذیب سکھانے والوں اداروں سے والدین نے دولت مند ہو نے کے باعث رقم شکم دے کر پینٹ کروائی تھی۔ مگر جینز کبھی نہ کبھی تو ابلتے ہیں اور غمی خوشی میں انسان اصل کھال میں ہو تا ہے۔

پہلا رمضان افطار کے بعد واک پہ جو جملہ مادام کی طرف سے سننے کو ملا ”ک ن ج ر وں نے راتوں کو“ م ج را ”کروایا اور ان لیڈر کا ہٹا دیا گیا“

ہم نے کہا بھی سیاست ہے آنا جانا لگا رہتا ہے مدت کسی نے پوری نہیں کی۔ یہ سب تاریخ اس کو کیسے پتا ہوتی وہ تو ہینڈ سم پہ مری ہوئی تھی۔ ورنہ دولت ہو اور میٹرک ایف اے کے بعد دوبئی قطر ایران شیران کے نام پہ نیو ائر نائٹ تعلیم سے زیادہ اہم ہیں، تعلیم غریب لوگوں کی مجبوری ہے۔ بزنس امارت کی نشانی ہے۔

چلو سب مان لیا۔ اس کے بعد روز کبھی بلاول کے نام کا بگاڑ تو کبھی مریم کے نام کی آگ۔ فوج کیا کرتی ہے اس کے عظیم نالج کے مطابق یونیفارم پہن کر تنخواہ لیتی ہے۔ اور سیلاب و آفات میں کام کرتی ہے یا پھر جنگ ہو جائے تو جنگ لڑتی ہے۔ بیوروکریسی کیا ہوتی ہے کچھ معلوم نہیں۔ گریڈ بائیس کا افسر کیا ہوتا ہے نامعلوم

معلوم کیا ہے عمران میری جان انقلاب لائے گا۔
جب کچھ معلوم ہی نہیں تو اس سوچ میں انقلاب کا ریپ ہی ہو گا۔
کئی صبحیں کئی شامیں ہمارے ظرف اور برداشت کا امتحان تھے۔ جو کل تک بھی تھے۔

عمران نے بی بی سے شادی کی سالے سالیاں ادل بدل کی شادیاں اس طلاق یافتہ خاتون کے لئے امید کی کرن بنے کہ یہ جلسوں جیسا سماج بنے گا تو وہ بھی اس کا حصہ بن جائے گی۔ بہت امید تھی پب ہو گا شب ہو گا اور ذرا دم مست مست

مگر جونہی حکومت آئی اعلان ریاست مدینہ نے بہت سے عاشقوں کے دھمال پہ پانی پھیر دیا۔ مگر محبوب کرسی پہ تھا۔ یہ تسلی کافی تھی۔

اللہ رسول کا نام لیتا تھا یہ تڑکا تو ابھی سوری صیب نے کھول دیا۔

خیر پہلے اس یوتھن پہ یک دم بڑھاپا سا آیا۔ جسم اور چہرے پہ وقت سے پہلے عمر چھا گئی۔ یہ تقریباً ہر جاننے والی یوتھن کے ساتھ ہوا۔

چہرے پہ کرختگی آ گئی۔ انتقام کی آگ صاف دکھائی دینے لگی
اس کے بعد ڈپریشن ہوا جو شدید بڑھتا چلا گیا۔ مزاج چڑچڑا ہوا۔ بات بات پہ گالی۔

اور نسل در نسل گوالمنڈی اور بازار حسن کے رہنے والے ایک شدید احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ پوش علاقوں میں گھر بنا کر ویسا کچھ شو کروانا چاہتے ہیں،

لیکن سادگی کے خاندانی پن اور رکھ رکھاؤ کا مقابلہ ایسوں سے کیسے ہو تا ہے۔ آخر پتا لگ ہی جاتا ہے۔ ہمیں معلوم تو تھا اصل کہاں کی ہے۔ لیکن دولت نے چھپائی ہوئی ہے تو کیا ہوا۔ ظرف خاموشی کا تقاضا کر تا ہے۔

اس کے بعد مسلسل وہی بازاری قسم کی جوک نما سیاسی پوسٹ آنے لگیں۔ ہم کوئی جواب نہیں دیتے کہ دکھے ہوئے اور ہارے ہوئے لوگوں سے مقابلہ کرنا بہت ہی پست درجہ ہے۔ ان کے تو ساتھ کھڑا ہوا جاتا ہے

اور ہم جیسے لوگ جو بے لوث لکھ رہے ہوتے ہیں جن کی جیب میں حرام کے لفافے نہیں ہوتے وہ عوام کے ساتھ ہوتے ہیں۔

کوئی بھی حکومت کچھ بھی غلط کرے قلم کو تلوار بنانا پڑتا ہے۔ پسند نا پسند کو دفنانا پرتا ہے۔ اسے ہم یہ نہیں سمجھا سکتے تھے،

فائنلی آپ سب نے دیکھا قوم یوتھ کا جذباتی جنون پاگل پن سب سے پہلے ان کو خود نقصان پہنچا رہا ہوتا ہے۔
سو بلڈ پریشر کی وہ مریضہ تھی۔ کولیسٹرول کی مقدار ان چند ماہ میں بڑھ گئی۔ پہلے کندھوں، میں کھچاؤ آیا نیک کالر لگا اور بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک آئی کہ کل اس کو فالج کا اٹیک ہو چکا۔ جسم کا ایک حصہ فالج سے ڈاکٹرز کے حوالے ہے۔

کیونکہ وہ اپنے لیڈر کو وہ مذہبی اور رومانوی ہیرو مان رہی تھی جو اس لیول کی ہر عورت لا حاصلی میں کر رہی ہے۔ تو جناب یہ وہی یوتھن ہے جو پارک میں ہمارے موسم کو سیاسی کرتی رہنے کی کوشش میں تھی۔ مگر ہمیں کبھی یہ اندازہ نہیں ہو سکا۔ ہر عام بات میں سیاست لانے کا اور دوسروں کو تنگ کر کے اپنا کیتھارسس کیسے ہو سکتا تھا۔

مگر یہ سمجھ آتا تھا جھگڑنے کا موقع چاہیے۔ درخت جلانے ہیں۔ گولی مارنی ہے ہر اس عورت کو جو اندھے عشق عمران میں کبھی مبتلا نہیں رہی۔

اسے تو معلوم تھا ہم بچپن سے عشق یوسف میں مبتلا ہیں وہ بھی اس لئے کہ دنیا کی ہر طاقت اس کے قدموں میں تھی۔ دروازے بند تھے۔ مگر اس کی نگاہیں اور نیت نے قید قبول کر لی۔

اس کے بعد یہ ننگا پنگا ہیرو ہمیں کہاں بھاتا۔ بہت سوں نے کوشش کی قبول عمران ہو جاؤ۔ مگر غلامی سے رب نے بچا رکھا ہے

بہت ہی خواتین نامعلوم اس انجام کو کب اور کہاں پہنچ جائیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ آپ فانی ہے تو آپ کا معشوق بھی فانی ہے۔

شناختی کارڈ ساٹھ سال کے بعد تاحیات بنتا ہے۔ ساٹھ سال کے بعد پی ایم نہیں۔ یہ ان کو بھی سمجھنا ہے اور آپ کو بھی۔

ہم سب فانی ہیں یہ بھی ہم سب کو سمجھنا ہے۔

سپر پاور اللہ ہے ناں تو پھر لڑ کیوں رہے ہیں۔ اس مذہبی ٹچ پہ ایمان لے آئیں۔ سپر پاور ہینڈ سم کچھ خود ہی سنبھال لے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments