اپنے جنازے کی تیاری کرو


”تم اپنے جنازے کی تیاری کرو“ ، کل شام سے یہ جملہ بھلائے نہیں بھول رہا، ذہن بار بار گردان کیے جا رہا ہے۔ ایک فارغ سروس افسر  نے ایک صحافی کو جن کا فرض ہی سوال کرنا اور جواب لانا ہے، یہ دھمکی اس وقت دی جب سوال ہوا کہ ملک کو اس معاشی بحران سے نکالنے کے لئے کیا کروڑ پتی اور بیشتر ارب پتی سابقہ فوجی اعلی افسران وہ زمینیں واپس کر سکتے ہیں جو انہیں ادارے نے عطا کی ہیں۔

سابقہ حضرات کا عالم یہ تھا کہ حاکمیت چلی گئی پر حاکمانہ مزاج بدستور ہیں۔ اس سوال کا جواب اسی جملے سے دیا گیا کہ تم اپنے جنازے کی تیاری کرو۔ یہ گویا قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی۔ جبکہ اس کا جواب تحمل سے بھی دیا جا سکتا تھا کہ خیال اچھا ہے، ہم اس پہ بھی ضرور سوچیں گے۔ یوں بات ٹل جاتی مگر نہ صاحب۔ تحمل اور متانت وہ بھی ایک سویلین سے؟

گستاخی کا مرتکب تو وہ ہوا کہ ان جانبازوں سے ایسا سوال کیا، جنھوں نے سر پے کفن باندھ کے 1948 سے اپنی مدت حاکمیت (ملازمت تو معاذاللہ نہیں کہہ سکتے) مکمل ہونے تک اپنے ہی عوام کو کئی بار فتح کیا اور دوسری جانب جنگ آزادیٔ کشمیر۔ پینسٹھ۔ اکہتر۔ سیاچن حتیٰ کہ کارگل تک نااہلی کی عظیم الشان داستان رقم کرنے کے عوض ترقیاں پائیں، ستارۂ بسالت، شجاعت، طوالت، فراغت وغیرہ وغیرہ لئے اور پھر تاحیات جاری رہنے والی مراعات اور ملنے والی
اراضی کے بعد اکثر اہم ملکی اداروں میں سویلین کو نظر انداز کرتے ہوئے اعلیٰ کرسیوں کے مزے بھی لوٹے۔

کل سے ان دنوں نیوٹرل کی منت سماجت کرنے والے، وہ افراد جو اوروں کو بوٹ پالشیا کہتے ہیں، اس واقعے پر آہ و بکا کر رہے ہیں کہ اعلی حضرات فارغ سروس دامت برکاتہم کی شان و عظمت کے تقاضوں کو نظرانداز کیا گیا ہے اور مورد الزام ان دلیر صحافیوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے جو پریس کانفرنس کے
رائج طریقے کے مطابق بات ختم ہونے کے بعد سوال و جواب کے سیشن کا بجا طور پر انتظار کر رہے تھے اور بزعم خود سابقہ محسن ملک کنی کترا کے نکل جانا چاہتے تھے۔

المختصر، اس وقت سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پے واویلا مچا ہے، یہاں تک کہ پریس کلب کے بجائے باہر لان میں جگہ ملنے پر تحریک انصاف کے شہباز گل صاحب نے اسے فاشزم قرار دیتے ہوئے ٹویٹ کی کہ اب عوام کو فاشزم نامی بلا کا مطلب سمجھ آ گیا ہو گا؟ محب وطن فارغ سروس افراد سے عرض ہے کہ عوام فاشزم کو 1951 کے بعد تھوڑا اور 1958 کے بعد چاروں طبق روشن ہوتے ہی اچھی طرح جان گئے تھے۔
مزید یہ کہ محترم پورا پاکستان محب وطن ہے الحمدللہ، حاضر سروس و فارغ سروس اسی قوم سے ہیں نہ یہ کبھی اوتار تھے، نہ ہیں۔
سب سے اہم بات، پریس کلب صحافی کا دوسرا گھر ہوتا ہے۔ ان کا شکوہ اپنے ادارے کے چیف سے ہے تو بھئی اس کے دفتر کے باہر جمع ہو کر، ہلڑ بازی کرو، دھرنا دو، وعدے یاد دلاؤ، اول تو یہ جواب دو کہ آرمی چیف نے کس آئینی استحقاق کا استعمال کرتے ہوئے، یہ یقین دہانی کرائی کہ نوے دن میں نئے
انتخابات کروا دیے جائیں گے؟ یہ فیصلہ حاضر، فارغ موکلات کے طے کرنے کا نہیں بلکہ بائیس کروڑ عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے قومی اسمبلی میں کیا جائے گا۔

جناب علی قلی خان نے ”ہم چاہتے ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں، ہم نہیں مانتے۔ ہم، ہم، ہم۔ ہم ”جیسا ایک فرمان سنایا۔ عوام اور عوامی نمائندوں تک آپ کی تمنا، آرزو، خواہش، خواب، حسرت جو بھی کہیے، پہنچ گیا۔ گو آپ نے ہم جیسے حقیروں اور ہمارے منتخب کردہ نمائندگان کو مخاطب کرنا گوارا ہی نہیں کیا تھا، آپ تو اپنے ادارے کے سربراہ سے مطالبہ کرنے اور بقول آپ کے وعدہ ایفا نہ کرنے پر احتجاج کرنے جمع ہوئے تھے۔ آپ کی فراست و روشن دماغی کے ہم معترف ہیں لہذا اب ہم یعنی بے وقعت عوام نے بھی آپ کی تقلید کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ہم کراچی والو کی سب سے بڑی شکایت پانی کی قلت اور عدم دستیابی ہے، اس کے لئے پہلے ہم واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، گھارو پمپنگ اسٹیشن اور ٹینکرز بھرنے والے واٹر ہائیڈرنٹ پے احتجاج کرتے رہے، احمق کہیں کے!
مگر کل ہماری آنکھیں کھل گئیں۔ اب ہم یہی احتجاج پی ٹی وی کراچی اسٹیشن۔ پاکستان ریلویز اور جم خانہ کے سامنے کریں گے۔
ڈالر کی بڑھتی قیمت پر بھی کچھ کم عقل اسٹیٹ بینک پاکستان اور چیمبر آف کامرس کراچی پے جمع ہونے کا سوچ رہے تھے تاہم آپ کی حکمت عملی نے ہمیں ہوش کے ناخن دیے، اب پریس کانفرنس ہاکی اسٹیڈیم پر رکھی جائے گی۔
مگر بات یہ ہے بھئی، ہم ٹیکس دیتے ہیں اور سی او ڈی سے سستا راشن آپ! ہم مہنگی دوا اور سرکاری اسپتال کے دھکے کھاتے ہیں اور سی ایم ایچ سے بشمول اہل خانہ لاکھوں کا فیض پاتے ہیں آپ!
ہم مہنگے داموں بجلی خریدنے پر بھی گھنٹوں لوڈ شیڈنگ بھگتے ہیں اور واپڈا میں کھربوں کی بدعنوانی میں ملوث پائے گئے ہیں، آپ!
جو سرکاری ادارے اس وقت دیوالیہ ہونے اور خطیر خسارے سے جونجھ رہے ہیں، ان کو سالہا سال سے آپ جیسوں کی سربراہی کا شرف حاصل رہا ہے جیسے پی آئی اے اور سول ایوی ایشن!
ایف بی آر کی مجال نہیں کہ آپ کے ادارے کے آڈٹ کی جرات بھی کرسکے۔ خود آپ کے اثاثے آپ کی عمر بھر کی تنخواہوں سے کہیں زیادہ ہیں، یہ جادو ہمیں بھی سکھائیے حضور!
دل تو یہ سب کہنے کو چاہتا ہے، سمجھ میں بھی آتا ہے لیکن پھر سوچتی ہوں، اچھے لٹھے کا کفن، قبر کی بکنگ، قناتوں اور سوئم کی دیگوں کے لئے کچھ بچت کر لوں تو کہوں کیونکہ اس کے بعد تو میرا جنازہ بھی تیار ہی سمجھئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments