شہباز شریف اعتراف میں پہل کریں


کچھ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ آئین پاکستان اور پارلیمنٹ کی موجودگی میں کسی نئے گرینڈ ڈائیلاگ یا میثاق کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب ہماری تاریخ ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ماننا پڑتا ہے کہ بلاشبہ شہباز شریف کی میثاق معیشت کی تجویز نہایت اہم ہے اور یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ملکی معیشت جس دلدل میں دھنس چکی ہے اس کا حل یہی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ایک جامع معاشی پالیسی تشکیل دی جائے جس کے بعد حکومت خواہ کسی کی بھی ہو نہ اس پالیسی سے انحراف ہو اور نہ ہی کوئی ریاستی ادارہ اس پر عمل میں رکاوٹ بنے۔

اس پالیسی کا بنیادی نکتہ نجی شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہونا چاہیے۔ کیونکہ جب تک روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہوں گے عوام کی مشکلات میں کمی نہیں آ سکتی۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے نہایت ضروری ہوتے ہیں اور موجودہ حالات میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے لیے حکومت کو اپنے غیر ضروری اخراجات میں بھی کمی کرنا ہوگی۔ غیر ترقیاتی اخراجات پلک جھپکتے کم نہیں ہو سکتے، ہفتے میں تین یا چار دن کام ورک فرام ہوم اور سرکاری افسران کی مراعات میں کمی جیسے فیصلے مقبول ضرور ہو سکتے ہیں تاہم ان سے خاطر خواہ فائدہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ محکمانہ کارکردگی پر بھی فرق پڑے گا اور بد عنوانی کے نئے راستے بھی کھلیں گے۔

غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے کے لیے طویل مدتی، سخت فیصلوں کی ضرورت ہوگی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے جیسا غیر مقبول فیصلہ کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں شہباز شریف صاحب کی جانب سے پہلی ہی تقریر میں تنخواہوں اضافے کا اعلان غیر ضروری شہرت حاصل کرنے والا اقدام تھا، اس قسم کے وقتی شہرت حاصل کرنے والے اعلانات سے گریز لازمی ہے۔ اس وقت وفاقی اور صوبائی ملازمین کی تعداد تقریباً تیس لاکھ ہے اور پچیس لاکھ سے زائد ریٹائرڈ ملازمین ہیں جو پنشن وصول کرتے ہیں، یہ بہت بڑی رقم بنتی ہے اور اس کا بھی حل نکلنے کی ضرورت ہے۔

سرکاری ملازمین کی تعداد کم کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اس سے نصف تعداد بھی کار مملکت بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتوں سے محروم کرنا یقیناً کسی ایک سیاسی جماعت کے لیے مشکل فیصلہ ہو گا اس لیے تمام سیاسی جماعتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز مل کر ہی یہ فیصلہ لے سکتے ہیں۔ اسٹیل مل کے 10 ہزار ملازم گولڈن شیک ہینڈ دے کر فارغ کرنے کی کوشش پہلے بھی ہو چکی ہے جس پر بہت شور شرابا ہوا تھا۔

حالانکہ یہ ملازمین کئی سالوں سے گھر بیٹھے ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی سے عیش کر رہے ہیں۔ اب تک قومی خزانہ سے اسٹیل مل کے نقصان کو پورا کرنے پر سینکڑوں ارب خرچ کیے جا چکے ہیں اور یہی حال پی آئی اے، ریلوے اور دیگر سرکاری اداروں کا ہے جو ہر سال قومی خزانہ سے کئی سو ارب ہڑپ کر جاتے ہیں۔ خسارے میں چلنے والے ایسے تمام اداروں کی نجکاری فی الفور ضروری ہے۔ آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کیونکہ اپوزیشن جماعتیں وقتی مفاد کی خاطر اسے سیاسی ایشو بنا لیتی ہیں اور عدلیہ کی طرف سے بھی فوراً اس قسم کے حکومتی اقدامات کالعدم ہو جاتے ہیں۔

ہر حکومت ڈرتی ہے کہ احتجاج اور ہنگامہ آرائی سے امن و امان کا مسئلہ بنے گا جو اقتدار کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے دوسرا انتظامی معاملات میں عدلیہ کی مداخلت کی صورت میں اس کے سر پر دہری تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈر ایک پالیسی پر متفق ہوں گے تو ہی خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری ممکن ہو سکے گی۔ ایک دست نگر معیشت میں دفاع پر اٹھنے کثیر اخراجات کا بھی باریک بینی سے جائزہ لینے اور ملکی سلامتی کو تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں تک ہو سکے کفایت شعاری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

حکومت کے لیے ایک بڑا درد سر بجلی کا شعبہ ہے جس کا گردشی قرض ہر سال خطیر رقم نگل جاتا ہے پھر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ گزشتہ حکومت میں آئی پی پیز سے متعلق ایک رپورٹ کا بڑا چرچا تھا جس کے مطابق بجلی بنانے کی نجی کمپنیوں سے ایسے معاہدے کیے گئے جنہوں نے وفاقی حکومت کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور وہ مہنگی بجلی خریدنے کی پابند ہے، ان پر بھی اتفاق رائے سے نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ملک میں بجلی کی بڑے پیمانے پر چوری چکاری بھی ایک مسئلہ ہے جس کی قیمت ایمانداری سے بل دینے والوں اور حکومت کو ادا کرنا پڑتی ہے اس کا حل بھی ہمارے ملکی حالات میں مل بیٹھ کر ہی نکل سکتا ہے۔

گزشتہ آٹھ برسوں میں حکومت بجلی خریدنے کے لیے قومی خزانہ سے تقریباً ڈھائی ہزار ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ اس کے باوجود اس وقت بجلی کا گردشی قرض ڈھائی ہزار ارب روپے کا ہندسہ کراس کرچکا ہے۔ جب تک اس مسئلے کا حل نہیں نکلتا آمدن اور اخراجات میں توازن لانا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس کے علاوہ جتنا جلد ممکن ہو روایتی ذرائع پر انحصار کم کر کے ہمیں قابل تجدید توانائی کی طرف جانا پڑے گا۔ اسی طرح حکومت کی آمدن میں اضافے کے لیے ٹیکس کے نظام کو عام فہم بنانے اس میں اصلاحات اور اس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔

یقیناً تاجر برادری اور پراپرٹی مافیا اس میں مزاحم ہوگی۔ ان معاملات پر دلیرانہ فیصلے اور اقدامات کوئی حکومت تنہا نہیں لے سکتی اور ملکی معیشت کو پٹری پر ڈالنے کے لیے آج نہیں تو کل یہ کام کرنا ہو گا۔ یہ ادراک اب ہو جانا چاہیے کہ قرض، ترسیلات زر کے سہارے یا درآمدات میں مصنوعی کمی کے ذریعے ملک کو طویل عرصہ تک نہیں چلایا جا سکتا۔

اصل سوال اس وقت یہ ہے کہ کسی میثاق کے لیے سیاسی جماعتیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر کس طرح تیار ہوں گے؟ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے چند دن قبل تک موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بار بار یہ دعوی کر رہے تھے کہ اقتدار میں آنے کے بعد پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں فوراً کمی کر دی جائے گی۔ حالانکہ ہر کوئی جانتا تھا کہ عمران خان کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات میں دی جانے والی سبسڈی بھی ہر صورت حکومت کو واپس لینا پڑے گی۔

اب اتحادی حکومت ڈیڑھ ماہ تک پس و پیش سے کام لینے کے بعد پٹرول کی قیمت میں ساٹھ روپے کا اضافہ کر چکی ہے اور بجلی کی قیمت بھی بڑھانے کی تیاری کر رہی ہے، اس کے باوجود معاشی اشاریے بہتر نہیں ہو رہے۔ صاف ظاہر ہے مفتاح اسماعیل کے اس وقت کے بیانات اور پٹرولیم مصنوعات کی مد میں سبسڈی کے خاتمے کے فیصلے میں تاخیر کے پیچھے سیاسی مفادات تھے۔ یہی فیصلہ اگر بر وقت لے لیا جاتا تو شاید اب تک آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو چکا ہوتا جس کے بعد روپے کی قدر میں اتنی کمی ہوتی اور نہ ہی مارکیٹ بے یقینی کا شکار ہوتی۔

ان حالات میں شہباز شریف کی اس تجویز کو کون سنجیدہ لے گا۔ شہباز شریف صاحب میثاق معیشت کی تجویز میں اگر واقعتاً سنجیدہ ہیں تو وہ اعتراف کرنے میں پہل کریں کہ ماضی میں ان کی جماعت بھی معیشت پر سیاست کرتی رہی ہے اور آئندہ خواہ کسی بھی جماعت کی حکومت ہو نون لیگ معاشی معاملات پر پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments