تھپڑ – کیا عورت پر تشدد کرنے والا مرد کمزور ہوتا ہے؟


میں نے ایک تاریخ محفوظ کر لی ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جو صحیح وقت پر اپنے بھانجے کو دکھاؤں گی کہ دیکھو اس تاریخ کو دوسری بار تمہارے باپ نے تمہاری ماں پر اس لئے ہاتھ اٹھایا کیونکہ تم رو رہے تھے۔ جب کہ پہلی دفعہ تمہارے باپ نے میری جان سے پیاری عزیزہ جو تمھاری ماں ہے پر ہاتھ اٹھایا تھا تب تم اس کی کوکھ میں تھے۔

میں اس کو بتاؤں گی کہ میں کس کرب میں مبتلا ہوں، میں کتنا بے بس محسوس کر رہی ہوں۔ غم اور غصے کی کیفیت مجھ پر طاری ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میں اس سے انتقام لوں مگر اس سے بھی پہلے میں چاہتی ہوں کہ میں تمہاری ماں کو آرام دوں، اس عقوبت خانے سے رہائی دلواؤں۔ میں یہ سوچنے سے بھی قاصر ہوں کہ تمہاری ماں کس بے بسی کے سمندر میں غرق ہوگی، توہین کے کس معیار سے اپنی لاچارگی کی پیمائش کر رہی ہوگی۔

لوگوں پر کوئی آواز اونچی کر لے تو ان کو کس قدر برا محسوس ہوتا ہے، اس حد تک کہ وہ اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔ کوئی ہاتھ اٹھا لے اور اٹھاتا رہے اور سامنے والا روکنے کے قابل بھی نہ ہو، اس اعصاب شکن کیفیت کی تعریف بیان نہیں کی جا سکتی۔ بے چارگی کو لفظوں میں قید کر کے دنیا کو نہیں بتایا جاسکتا کہ وہ کتنا برا محسوس کر رہے ہیں۔ ان عورتوں کی بے بسی کو جانچا نہیں جاتا جو اپنے مجرموں کے ساتھ رہتی ہیں۔ جو دن میں ان پر تشدد کرتے ہیں اور رات کو ان کے ساتھ زبردستی خلوت کرتے ہیں جس میں دن کے تشدد کی جھلک بھی دکھتی ہے۔

جس کی صورت دیکھنے کو جی نہ کرتا ہو، اس کے ہاتھوں جبر جنسی کا شکار ہونا، اس کے ساتھ رہنا ایک ایسے گناہ کی سزا ہے جو لڑکیاں اس لئے کاٹتی ہیں کہ فطرت نے ان کو خاص ہیئت میں پیدا کیا ہوتا ہے جو عورتوں سے نفرت کرنے والے ملکوں میں پیدا ہو جاتی ہیں۔

ہم اب بڑی ہو گئی ہیں۔ اتنی بڑی ہو گئی ہیں کہ اس بات کا تعین کر سکیں کہ ہم اس وقت کے دوران بڑی ہوئی ہیں جب ہمارے اطراف بس عورتیں مار کھا رہی تھیں، الزام سہ رہی تھیں اور ان کی سننے والا کوئی نہ تھا کہ ان کو انصاف ملتا۔ ہم اپنی ماؤں، خالاؤں کو مار کھاتا دیکھتے دیکھتے اتنی بڑی ہو گئیں ہیں کہ اب ہماری بہنیں اور سہیلیاں اس ستم کا نشانہ بننا شروع ہو گئی ہیں۔ بس ہم اس وقت کے دوران جوان ہو گئیں۔

کہتے ہیں کہ ہم نے ایسے ہی مر جانا ہے مگر مرنے سے قبل میں پدرشاہی کے ان اداروں کی بنیادوں میں دراڑ ڈالنا چاہتی ہوں۔ میں وہ اینٹیں لازماً توڑنا چاہتی ہوں جو اب میری ہستی تک آ پہنچی ہیں۔

لوگ طنز و مزاح میں کہتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد ہمارے دوست ترقی پا رہے ہیں، شادی کر رہے ہیں، ان کے بچے ہو رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں کہوں گی کہ ہماری اب وہ عمر ہو چکی ہے جب ہماری اسکول کی سہیلیاں گھریلو تشدد کے باعث شوہروں کے ہاتھوں قتل ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ہماری وہ عمر ہے کہ ہماری ہم جماعت لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہو چکی ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں مرنے والی سعدیہ منظور میرے ساتھ اسکول جاتی تھی۔ اٹلی کے جنگل میں مار پیٹ کر جس لڑکی کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا وہ میری دوست کی اسکول کی ساتھی تھی۔ وہ آج بھی اسی متشدد شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور ہے جس نے اس کو جنگل میں سبق سکھانے کے لئے پھینکا تھا۔

کراچی میں میری ایک ہم جماعت کا غیرت کے نام پر قتل ہوا تو میری عزیزہ کی بچپن کی دوست کا بھمبھر میں غیرت کے نام پر قتل ہوا۔ ہم وہ لڑکیاں ہیں جن کی سہیلیاں صرف مائیں اور دلہنیں ہی نہیں بن رہی بلکہ ہم وہ بھی ہیں جن کی سہیلیاں شوہروں کے ہاتھوں مر رہی ہیں، گھریلو تشدد سہ رہی ہیں اور ان کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔ چاہنے کے باوجود ان کی امداد نہیں کی جا رہی کہ آج تک اس ملک میں ایسا کوئی طاقتور اور سہولت کار نظام نہیں بن سکا کہ دوسرے خیال سے بھی پہلے عورت انصاف مانگ سکے۔

اگر چور کی بجائے عورت پر ہاتھ اٹھانے والے شوہر کے ہاتھ کاٹنے کا بھی حکم ہوتا تو آج ہماری جان سے پیاری بہنیں اور سہیلیاں یوں تشدد کا نشانہ نہ بنا کرتی۔ ہر روز ایک مرد کے ہاتھوں ان کی عزت نفس کی یوں سر عام توہین نہ ہوتی، ان کی ہستی ان کی ہی نظروں میں ختم نہ ہوتی۔ تشدد جھیل کر اسی کو کھانا دینے پر مجبور نہ ہوتیں۔ ان کی عزت نفس کی توہین اور وجود کی یوں گستاخی نہ ہوتی۔

جس طرح شراب اور خنزیر سے نفرت سکھائی گئی، اسی طرح بیوی پر ہاتھ اٹھانے والے شوہر کی بھی مذمت کی گئی ہوتی تو ہمارے دل کے ان ٹکروں کو اذیت اور تکلیف نہ ملا کرتی۔

یہ کون کہتا ہے کہ عورت پر ہاتھ اٹھانے والا مرد کمزور ہے؟ عورت پر ہاتھ اٹھانے والا شوہر بس مرد ہے، وہ کمزور نہیں ہے، اس سے طاقتور ہی کوئی نہیں ہے جو یوں بنا کسی خوف کے عورت کو تھپڑ لگا دیتا ہے، چوٹی سے پکڑ کر دیوار میں مار دیتا ہے، اپنی بھاری انگلیوں سے اس کی کلائیاں مروڑ دیتا ہے، سر پر تھپڑ مارنا شروع کرتا ہے تو رکتا نہیں۔ پیٹ، کمر اور ٹانگوں کے وسط مکے مارنے سے اس کو تسکین ملتی ہے۔ جو زور سے گلا دبوچتا ہے، زمین پر پٹخ کر ٹھوکریں مارتا ہے، گھر بھر میں گھسیٹتا ہو، وہ مرد کمزور نہیں ہے وہ بس وہ مرد ہے جس کو دنیا کی ہر طاقت نے یہ کرنے کی جرآت اور اجازت دے رکھی ہے۔

یہ اجازت اس کو عالم نے بھی دی ہے، ریاست نے بھی، سماج نے بھی یہاں تک کہ عورت کے باپ اور بھائی نے بھی۔ اس دنیا میں لاکھوں عالم، فلسفی اور پیغمبر آئے، ولی اور رہنما آئے مگر ایک بھی عورت پر ہونے والے اس فطرتی تشدد کو روک نہیں سکا۔ تہذیبوں کے رنگ، اقوام کے ایمان اور خدا بدل گئے، نظریات اور نظام بدل گئے مگر عورت پر ہونے والے ستم کی شکل نہیں بدلی۔ وہ آج تک ہوتا ہے، پوری آب و تاب سے ہوتا ہے۔ اس میں کچھ نہیں بدلا تو عورت کی بے وقعت ہوتی در بدر حیثیت نہیں بدلی۔

بیٹی کو رات گئے مار پیٹ کر گھر سے نکالا جاتا ہے تو ماں باپ ہاتھ سے پکڑ کر واپس چھوڑ آتے ہیں۔ کبھی سنا ہے کہ کسی سپاہی کو دشمن کی فوج قیدی بنا لے جب کہ وہ قید توڑ کر وطن واپس آئے اور فوج اس سپاہی کو دوبارہ دشمن ملک چھوڑ آئے؟ مگر بیٹی کو وہیں چھوڑ کر آتے ہیں۔

عورت پر ہاتھ اٹھانے والا مرد کمزور نہیں ہوتا۔ اس کو ہم کمزور کہتے ہیں۔ ہم اپنی لاپرواہی کو تسکین دینے کی خاطر ظالم کو کمزور کہہ دیتے ہیں۔ اعصاب سے کچھ بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں کمزور وہ عورت ہے جس کا کوئی موقع پر کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ سب کو عزت کی چپ کا سانپ سونگھ جاتا ہے تو کوئی بے اعتنائی کی ہر سیڑھی چڑھتا ہے تو کوئی بے ضمیری کی دلدل نما غلاظت میں ماں باپ کی لاج رکھنے کے غوطے لگواتا ہے۔

میں اس وقت کا بے صبری سے انتظار کروں گی جب عین عدالتوں کے وسط تشدد سہنے والی عورتیں بے معنی مہر کی بے سود رقوم خوشی اور فخر سے لوٹائیں گی، جو ظالموں، ظلم کے معذرت خواہوں اور اس نظام کے منہ پر طمانچہ ہو گا جو اس کی بے بسی سے اپنے الاؤ کی آگ بھڑکاتے آئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments