ڈے ژا وو: ایک حقیقت


کبھی کسی نئی جگہ پر ایسا احساس ہونا کہ یہ جگہ پہلے سے دیکھی ہوئی ہے، کسی شخص سے پہلی دفعہ ملتے ہوئے ایسا لگنا جیسے پہلے بھی اس سے مل چکے ہیں یا کبھی رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ کر یوں لگنا جیسے یہ سب پہلے ہو چکا ہے، ڈے ژا وو کہلاتا ہے۔ بقول شاعر

نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے

آج ہم ڈے ژا وو کو بہت آسان الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ محققین کے لئے اس کی وجوہات کا مطالعہ اور تحقیق میں مشکلات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ اچانک سے نمودار یا رونما ہونے والے وہ احساسات اور خیالات ہیں جن کا پہلے سے انسان کو اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان خیالات و احساسات کا دورانیہ بہت مختصر ہوتا ہے۔ سائنس بہت سارے مفروضات اور نظریات کے باوجود ابھی تک کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہے کہ ڈے ژا وو کی اصل وجہ کیا ہے۔

ڈے ژا وو فرانسیسی زبان سے ماخوذ ہے جس کو انگریزی میں کہتے ہیں
”already experienced or seen“
اردو میں اس کے معنی ہیں
”پہلے سے دیکھا ہوا“

ایک اندازے کے مطابق ستر سے نوے فیصد لوگ زندگی میں کبھی نہ کبھی ڈے ژا وو کے تجربے سے گزرتے ہیں جو کم عمری میں زیادہ ہوتا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ کم ہوتا جاتا ہے۔

ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارہ کہ یہ دوبارہ ہے

تحقیقات بتاتی ہیں کہ ڈے ژا وو دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک پیتھالوجیکل، جس کے ساتھ کوئی ذہنی، اعصابی یا نفسیاتی علامات منسلک ہوں اور دوسری قسم غیر پیتھالوجیکل ہے جو ایک عام کیفیت ہے جس کا تعلق کسی بیماری سے نہیں ہے۔

زیادہ سفر کرنے والے، مطالعہ کے شوقین، ذہین افراد، ادب سے وابستہ لوگ یا زیادہ ڈرامے اور فلمیں دیکھنے والے افراد کو اس کیفیت کا سامنا زیادہ ہوتا ہے۔ اکثر اوقات اپنے علم، تجربات، مشاہدات اور دوسروں کے تجربات کی معلومات کا خزانہ ذہن میں ایک کتب خانہ کی طرح اکٹھا ہو کر مختلف مواقع پر ڈے ژا وو کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ پہلی دفعہ کوئی ڈرامہ دیکھتے ہوئے یا کوئی کہانی پڑھتے ہوئے ایسا لگنا کہ یہ تو پہلے بھی دیکھ یا پڑھ چکے ہیں، ڈے ژا وو ہے۔

ذہنی تناؤ کا شکار یا حد سے زیادہ مصروف افراد کو ڈے ژا وو کی کیفیت سے گزرتا ہوا زیادہ دیکھا گیا ہے۔ صحت مند افراد میں اس کیفیت کو وقتی دماغی غلطی کہا جاتا ہے۔

مختلف نظریات میں سے کچھ آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

روحانیات میں بھی ڈے ژا وو کا نظریہ موجود ہے جس کو کسی نئے واقعے کا ماضی یا مستقبل سے تعلق یا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

بعض دفعہ کسی مقام یا شخص کو دیکھتے ہوئے ہماری توجہ کہیں اور ہوتی ہے لیکن ہمارا دماغ اس واقعے کو محفوظ کر لیتا ہے، بعد میں کبھی ہم اس شخص یا جگہ کو دیکھیں تو اچانک ایسا لگتا ہے جیسے پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔

ایک نظریے کے مطابق کبھی ہم خواب میں کچھ دیکھ کر بھول جاتے ہیں اور وہ ہمارے لاشعور میں محفوظ رہتا ہے، بعد میں حقیقی زندگی میں وہ یا ملتا جلتا واقعہ رونما ہو تو بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پہلے یہ سب ہو چکا ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ جس طرح بچے ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی یا دیگر خونی رشتوں سے رنگ، قد اور عادات لیتے ہیں اسی طرح ان رشتوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی یادداشت بھی بچوں میں منتقل ہوتی ہے اور ڈے ژا وو کے روپ میں سامنے آتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کوئی واقعہ بچپن میں پیش آیا ہو اور ہماری یادداشت میں چھپ گیا ہو لیکن مٹا نہ ہو، یا کوئی شخص جس کو بچپن میں دیکھ کر ہم بھول گئے ہوں اور بڑے ہونے کے بعد جب وہی کچھ دوبارہ نظر آئے تو دماغ اس کی یاد دلائے گا، ایسا لگے گا جیسے یہ سب پہلے ہو چکا ہے۔ پہلے کب ہوا، یہ یاد نہیں آتا ہے۔

ہندو مذہب میں ڈے ژا وو کو پچھلے جنم کی یادداشت سے جوڑا جاتا ہے جس میں کوئی صداقت نہیں۔ مختلف مذاہب اور ثقافتوں میں الگ الگ نظریات پائے جاتے ہیں۔

ڈے ژا وو پر کی جانے والی تحقیقات دو طرح کی ہیں، ایک مشاہداتی اور دوسری تجرباتی۔

مشاہداتی تحقیقات بتاتی ہیں کہ ڈے ژا وو کی خصوصیات کیا ہیں، یہ کس کے ساتھ، کس عمر میں اور کس موقع پر زیادہ تر پیش آتا ہے۔ تجرباتی تحقیقات نسبتاً مشکل ہیں جن میں لوگوں کو مختلف تجربات سے گزرتے یا گزارنے کے بعد نتائج مرتب کیے جاتے ہیں، ماضی کی تحقیقات اور تجربات پر بھی غور و فکر کیا جاتا ہے۔

محققین کے مطابق ابھی تک سائنس کے لئے ڈے ژا وو کی وجوہات ایک ایسا راز ہے جس تک بے شمار تحقیقات، تجربات اور نظریات کے باوجود نہیں پہنچا جا سکا ہے، سائنس کو ابھی تک ایسے سائنسدان کی تلاش ہے جو اس راز کو افشا کرسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments