عامر لیاقت: شادیٔ مرگ


نہ سمجھ میں آنے والی کہانی ہے، جو سمجھ میں آتی بھی ہے تو سمجھنے کو دل نہیں کرتا۔ ایک خوش مزاج، خوش لباس، زندہ دل شخص اچانک دنیا سے چلا جائے، دکھ تو ہوتا ہے۔ میرا عامر لیاقت سے ذاتی تعلق نہیں، اتنا ہی ہے جتنا بیشتر ٹی وی دیکھنے والوں کا ہے۔ بلکہ ان سے بھی کم۔ کہ میں ذاتی طور پہ عامر لیاقت کی کبھی بھی مداح نہیں رہی۔ سچی بات ہے اس کی رمضان ٹرانسمیشن کبھی پسند نہیں کی۔ لیکن یہ نا پسندیدگی صرف میری اپنی ذات تک محدود تھی۔ میری پوری فیملی بھی بیشتر لوگوں کی طرح عامر لیاقت کی زبردست مداح تھی۔ لوگ اس کے عالم آن لائن والے پروگرام پر قربان تھے تو کبھی اس کی نعت پڑھنے پر صدقے واری جاتے۔ بہت سارے اس کی دعا کے عاشق تھے تو کئی گیم شو کی صورت مسکراہٹیں بکھرنے والے کے پرستار۔

بہت ٹیلنٹڈ بندہ تھا، ہر فن مولا تھا۔ اس کی ذاتی زندگی میں اتار چڑھاؤ تھا، اور لوگوں کو اس میں بھی اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی اس کے پروگراموں میں، بلکہ یوں کہیے ذاتی زندگی میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی تھی۔

ایک دن بریکنگ نیوز آئی، عامر لیاقت نے دوسری شادی کر لی۔ حیرانی نہیں ہوئی کہ جب ناممکن کام اکثر وقوع پذیر ہو جاتے ہیں یہ تو پھر ممکن تھا سو ہو گیا۔ عامر لیاقت کا نجی چینل پر انٹرویو دیکھا تھا جس میں وہ اپنی دوسری بیوی طوبی کے ساتھ بہت خوش تھا۔ طوبی پہ رشک آیا کہ ایک مشہور شخصیت شوہر کے روپ میں اس سے اتنا پیار کرتی ہے کہ اس کے لیے کچن میں گھس کے کھانے بنائے جاتے ہیں۔ پھر خدا جانے کیا معاملہ ہوا اور طلاق ہو گئی۔ لوگوں کو ہو گا تجسس، بہت ساروں نے اس کو سرچ بھی کیا ہو گا، یو ٹیوب پہ بھی سینکڑوں ویڈیوز آئی ہوں گی۔ لیکن یہ اس کا ذاتی معاملہ تھا، خوامخواہ میں لوگ خوش یا ناخوش ہو رہے تھے۔

کچھ ماہ پہلے اس کی تیسری شادی کی خبر دیکھی، آنکھیں کھل گئیں۔ پھر سے شادی۔

چلو کوئی بات نہیں یہ اس کا حق تھا چار کی اجازت مذہب دیتا ہے۔ اور بنا اجازت کوئی اپنی مرضی سے پانچویں چھٹی، ساتویں جتنی چاہے کرے۔ عامر لیاقت کی کم سن لڑکی سے شادی کو لے کر میڈیا پر بہت لے دے ہو رہی تھی۔ اس کی نئی بیوی دانیہ نے ایک ویڈیو شیئر کیں۔ سخت برا لگا۔ کہ جو بھی ہے کچھ چیزیں منظر پر لانا نامناسب ہوتا ہے۔ لیکن سوچا یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے، میں آپ کون یہ طے کرنے والے۔ یہی خیال تھا کہ شاید نو عمر بیوی کے لاڈ دیکھے جا رہے، نخرے اٹھائے جا رہے۔ اور پھر ناز اٹھانے اور اٹھوانے کا دورانیہ بھی اچانک سے ختم ہو گیا۔ اور پھر انتہائی نامناسب ویڈیوز وائرل ہوئیں۔

اور اس کے ساتھ ہی بری خبر آ گئی۔ دل سے دکھ ہوا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا مانا یہ ایک بے جوڑ شادی تھی، لیکن چل بھی سکتی تھی، کاش چل جاتی۔ نہ چلتی لیکن کم از کم یوں تو پھر بھی نہ ہوتا۔

سمجھ نہیں آتا عامر لیاقت کی موت پہ کیا لکھا جائے۔ حیرانی ہے پریشانی ہے اور اس سب سے زیادہ پشیمانی ہے۔ کہ کیا ہوتا اگر یوں نہ ہوتا۔ اس کے مرنے کے پیچھے کیا ہو گا۔ اس کے پیچھے جو بھی ہوتا اس کی اپنی وجہ ہوتی تو شاید اتنا دکھ نہ ہوتا۔ لیکن یوں لگتا ہے کہیں نہ کہیں ہم ذمہ دار ہیں۔ ہم جو خوامخواہ دوسروں کی زندگیوں میں دخل دیتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمارے مطابق چلیں۔ جہاں دوسرے ہماری توقعات پہ پورے نہیں اترتے، ان پہ لعن طعن شروع کر دیتے ہیں۔ کسی کو سر پہ بٹھا لیں تو چاہتے ہیں وہ زمین پہ کبھی نہ دیکھے نہ ہم اس کو زمین دکھانا چاہتے ہیں۔

کیوں ہم لوگوں کو ان کی خواہش کے مطابق زندگی گزارنے نہیں دیتے۔ اگر کوئی ایک شادی کرے، دو کرے یا دس کرے۔ ہم کون ہیں اعتراض کرنے والے، کوئی ڈرگز لے شراب پیئے یہ بھی اس کی اپنی چوائس ہے۔ دانیہ شاہ عامر لیاقت کی تیسری ہی سہی لیکن بیوی تھی۔ اور اس بیوی نے جب خاص لمحات کی ویڈیوز وائرل کی تو کسی ایک نے بھی اس کو لعن طعن نہیں کی۔ الٹا عامر لیاقت کے سر ہو گئے۔ وہ جو بھی کر رہا تھا کہہ رہا تھا۔ اپنی شرعی بیوی سے کہہ رہا تھا۔

دانیہ اس کے نکاح میں تھی اور بیوی کے ساتھ اپنے لمحات کوئی کیسے چاہے گزارے دوسرا کون ہے اعتراض کرنے والا۔ دانیہ کو عامر سے مسئلہ تھا وہ سیدھا عدالت سے رجوع کرتی۔ نہ کہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا پہ تماشا لگاتی۔ وہ معاملہ لوگوں کی عدالت میں لے آئی۔ اور لوگ دوسروں کی زندگیوں کا فیصلہ ہم خوبی کرنا جانتے ہیں۔ دوسرے نے کیسے جینا ہے، کیا کرنا ہے، دوسرے کے لیے کون سا کاروبار موزوں ہے اور کون سا رشتہ، یہ ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ ہم جسے چاہیں آسمان پر بٹھا دیں اور جسے چاہیں آسمان کی بلندیوں سے زمن پر پٹخ دیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کوئی بندہ یا اس کی بات آپ کو پسند ہے تو اس کی تعریف کریں اور اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیں۔ اور اگر نہیں پسند یا آپ کے معیار سے نیچے آ گیا ہے تو آپ اس شخص کو اگنور کر دیں۔ اس کے لیے فتوے مت جاری کریں۔ اگر دوسرے کی بات نہیں پسند آ رہی تو اس سے کنارہ کر لیں، لیکن ہم اس کے پیچھے پتھر لے کر پڑ جاتے ہیں۔

جب ہجوم دیوانہ وار کسی انسان کو مارنے کے لیے دوڑ پڑے تو اکیلا انسان مقابلہ نہیں کر پاتا، ہار جاتا ہے۔ بہت مضبوط نظر آنے والا انسان بھی ڈھے جاتا ہے۔ انسان بہت کمزور ہے۔ وہ ہار جاتا ہے تھک جاتا ہے۔ خدارا لوگوں کو ہارنے مت دیں۔ اگر کوئی کھڑا شخص گر رہا ہے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر سنبھال لیں۔ اس کو گرنے سے بچا لیں۔ ناکہ اس کے گرنے کا پورا انتظام کیا جائے، اور پھر اس پر قہقہے لگائیں جائیں۔ اور دوسرے کے منہ کے بل گرنے کو اپنی فتح سمجھا جائے۔ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں گرنے والا نہیں ہم گرانے والے ہارتے ہیں۔ اپنی جملوں سے دوسروں کو اتنی اذیت مت دیں کہ وہ جملے ہی اس کے لیے موت کا کام کر جائیں۔ عامر لیاقت نے جانا ہی تھا، اس کا وقت آن پہنچا تھا۔ لیکن دکھ ہے تو اس بات کا کہ کاش وہ اس طرح نہ جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments