ایک فیصلہ جو عامر لیاقت کبھی نہ کر سکے


بیسویں صدی کی آخری دہائی میں کراچی کا ماحول بڑا دل چسپ تھا، پرجوش اور کشیدگی بھرا۔ اسی زمانے کی بات ہے، نصرت مرزا کی کسی کتاب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ تقریب میں مختلف مکاتب فکر تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات شریک ہوئیں۔ لاہور سے مرحوم عارف نظامی پہنچے اور کراچی سے شہید محمد صلاح الدین۔ ایسا یاد پڑتا ہے کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی کوئی ممتاز شخصیت بھی موجود تھی، شاید سردار محمد عبدالقیوم خان مرحوم تھے۔

کشمیر کی جدوجہد آزادی زوروں پر تھی۔ اس لیے فطری طور پر کشمیر ہی موضوع گفتگو رہا۔ معروف اور بدنام کراچی آپریشن ہوئے بھی چند برس گزر چکے تھے لیکن شہر اب بھی اس کی تکلیف دہ یادوں میں کراہتا تھا۔ اسی آپریشن کے آس پاس شہر میں ایک ایسا ماحول بھی بن گیا تھا جس سے کسی نہ کسی طرح یہ معنی بھی اخذ کر لیے جاتے تھے کہ کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کر کے ہانگ کانگ بنانا مقصود ہے۔ اس قسم کا پروپیگنڈا ماحول کو مزید کشیدہ کر دیتا۔ ایسے ماحول میں کشمیر کے ذکر سے پیدا ہونے والی جذباتی کیفیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ شہید محمد صلاح الدین کی تقریر اسی کی آئینہ دار تھی۔ انھوں نے کہا:

’میں لعنت بھیجتا ہوں، ایسے پاکستان پر جس میں کشمیر نہ ہو‘ ۔

یہ ایک روایتی سے تقریب تھی، اخبارات میں جس کی رپورٹنگ بھی معمول کے مطابق ہوئی لیکن ایک اخبار ایسا بھی تھا جس نے اس خبر کو اپنے صفحہ اول پر چھ کالمی سپر لیڈ کے طور پر شائع کیا۔ سرخی تھی:

’ تکبیر کے صلاح الدین کی پاکستان پر لعنتیں‘ ۔

یہ اخبار تھا روزنامہ ’پرچم‘ ۔ یہ اخبار ایک ایسی شخصیت کی ادارت میں شائع ہوتا تھا جسے لوگ اس کے نام و نسب کے باعث بہت جانتے تھے لیکن اگر وہ صحافی بھی تھے تو اس حیثیت میں ان کی شناخت کے یہ ابتدائی دن تھے۔ لہٰذا اس اخبار میں شائع ہونے والے مندرجات کو اسی انداز میں دیکھا جاتا۔ اخبار کی ہمدردی ایم کیو ایم کے ساتھ تھی۔ یہی سبب تھا کہ اس میں 1992ء کے آپریشن کے تعلق سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی زیادتی کی خبریں بھی شائع کی جاتیں۔ ان کہانیوں کی اشاعت میں کچھ ایسی خاص بات نہ تھی۔ ایسی تفصیلات دیگر ذرائع سے بھی سامنے آتی رہتی تھیں۔ خاص بات ان کہانیوں کے ردعمل میں شائع ہونے والی تحریریں تھیں جنھیں عامر لیاقت حسین خود لکھا کرتے۔ ان تحریروں میں ایک جملہ تواتر کے ساتھ شائع ہوتا:

فلاں کے ’اہل خانہ نے ظلم کی اس داستان کی اشاعت پر پرچم اور اس کے ایڈیٹر کو جھولیاں اٹھا اٹھا دعائیں دیں‘ ۔

کراچی کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں عامر لیاقت حسین کی یہ پہلی بھرپور انٹری تھی۔ اس کے بعد انھوں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے بغاوت کر کے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ یہ زمانہ عامر لیاقت حسین کے تعارف کا نیا زمانہ تھا۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کے پرائیویٹ چینل قائم ہو رہے تھے، یہ چینل ناظرین کو متوجہ کرنے کے لیے بہت منفرد اور دلچسپ پروگرام پیش کیا کرتے تھے۔ ان میں ایک پروگرام عالم آن لائن بھی تھا جس کے میز بان عامر لیاقت حسین تھے۔

یہ پروگرام دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گیا۔ یہی دن تھے جب ان کے نام کے ساتھ ممتاز مذہبی اسکالر کے سابقے کا اضافہ ہوا۔ وہ کتنے بڑے عالم تھے، مذہب کا مطالعہ انھوں نے کس گہرائی سے کر رکھا تھا؟ ان سوالوں پر ان کے مداح اور نقاد بحث مباحثے میں مصروف رہتے لیکن مرحوم کی اصل کامیابی ان کے پروگرام کی مقبولیت میں تھی اور اس بات میں تھی کہ ان کی بات پر توجہ دینے والوں کی تعداد میں اضافہ روز افزوں تھا۔

عامر لیاقت کی زندگی میں تحرک تھا۔ اس پروگرام کو انھوں نے اپنی آخری منزل نہیں سمجھا۔ ایک چینل سے نکلے دوسرے میں گئے۔ یہ سفر سے ان کی فنی گہرائی اور گیرائی کو سمجھنے میں بڑی معاونت کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کام کا ماحول اور اس کے لیے کیا جانے والا اہتمام کسی ٹیلی ویژن پروگرام کی کامیابی میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔ جیسی شہرت، مقبولیت اور عزت انھیں پہلے پروگرام میں ملی، ویسی بعد میں نہ مل سکی۔

سبب یہ تھا کہ پہلے پروگرام میں انھیں بہترین ٹیکنیکل معاونین کے علاوہ گہرا فہم رکھنے والے محققین کی اعانت بھی حاصل تھی۔ اکثر ہوتا ہے کہ ایک سے دوسرے چینل کو سفر کرنے والے اینکر اپنی ٹیم بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ عامر یہ فرق سمجھ نہ سکے یا ان محققین کا اپنے چینل سے رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ انھوں نے کہیں اور جانا مناسب نہ سمجھا۔

عامر کی فنی زندگی میں یہ فرق تسلسل کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ ٹیلی ویژن کو کیریئر بنانے والوں کے لیے اس میں بڑا سبق ہے۔ عالم آن لائن سے انھوں نے جو بہترین شناخت بنائی، وہ ان کی حوصلہ مند طبیعت کے لیے ناکافی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ مرحوم طارق عزیز کے پروگرام نیلام گھر سے بہت متاثر تھے۔ شاید یہی سبب رہا ہو گا کہ انھوں نے رمضان نشریات اسی کی طرز پر شروع کیں۔ یہ درست ہے کہ انھوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر طارق عزیز کی پیروی کی لیکن اس حقیقت میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ انھوں نے اپنا پروگرام وسعت اور شہرت کے تعلق سے اس سے کہیں آگے پہنچا دیا۔ آج جس جس چینل پر بھی رمضان نشریات ہوتی ہیں، ان پر عامر لیاقت ہی کی چھاپ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔

ایک چینل پر انھوں سیاسی پروگرام کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس کے باوجود کہ سیاست سے ان کی گہری وابستگی تھی، ان کا یہ پروگرام توجہ نہ پا سکا بلکہ بعض لوگوں کا تو یہ خیال بھی ہے کہ ان کی شہرت کو متاثر کر گیا۔ اس حادثے کا سبب بھی ہمیں عالم آن لائن کی کامیابی کی وجوہات میں تلاش کرنا چاہیے۔

عامر کی سیاسی زندگی کا آغاز ایم کیو ایم سے ہوا۔ اس کی بنیاد ان کے والد مرحوم شیخ لیاقت حسین رکھ چکے تھے۔ شیخ لیاقت حسین معروف مسلم لیگی تھے لیکن ایم کیو ایم کے عروج کے زمانے میں بعض دیگر سیاست دانوں اور دانش وروں کی طرح انھوں نے بھی اسی جماعت میں پناہ لی۔ فطری طور پر عامر بھی اسی جماعت میں چلے آئے۔ اخبار پرچم کے زمانے میں انھوں نے بڑی جرات سے اس جماعت کے موقف کی ترجمانی کی تھی، لہٰذا جنرل مشرف کی فوجی حکومت میں پہلے عام انتخابات ہوئے تو انھیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملا۔ وہ کامیاب ہوئے اور انھیں مذہبی امور کے وزیر مملکت کا منصب دیا گیا۔ وزارت کا یہی زمانہ ہے جب ایک دل گداز نعت خواں کی حیثیت سے ان کی شہرت ہوئی۔

پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام بتاتے ہیں کہ جنرل مشرف کا جس زمانے میں اسرائیل کی طرف جھکا ہوا اور اس کے تسلیم کرنے کی باتیں عام ہوئیں، انھوں نے بطور احتجاج وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور جنرل مشرف کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ الطاف حسین نے جب ایک جلسے میں پاکستان کے خلاف باغیانہ نعرہ لگایا تو بعض خفیہ اور کھلی وجوہات کے باعث پارٹی پر قبضے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ ایم کیو ایم کی سربراہی کے دعوے داروں میں ایک نام ان کا بھی تھا۔

انھوں نے بہت کوشش کی لیکن پارٹی کے پرانے راہنماؤں یعنی ڈاکٹر فاروق ستار وغیرہ کے مقابلے میں ان کا چراغ جل نہ سکا۔ یہی واقعہ تھا جس کے بعد انھوں نے ایم کیو ایم سے مایوس ہو کر تحریک انصاف میں پناہ لی۔ ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کی طرح تحریک انصاف میں بھی ان کے قدم جم نہ سکے۔ قومی اسمبلی کا انتخاب جیتنے کے باوجود اس جماعت میں انھیں زیادہ اہمیت نہ مل سکی۔ اس صورت حال نے انھیں بہت بدمزہ کیا۔ کبھی احتجاج کیا، کبھی پی گئے اور کبھی برس پڑے۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ ایک بار جب عمران خان نے قومی اسمبلی سے دوسری بار اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تو اس موقع پر عامر لیاقت حسین نے ایک نعت پرسوز ترنم کے ساتھ پڑھی۔ نعت کے ایک شعر میں انھوں نے اس طرح کی تحریف کی ؂

مجھ کو کرسی کی چاہ نہیں ہے مجھ کو سنتا جو وہ سمیع ہے
اپنے عمران کو تنہا نہ چھوڑیں، آ رہا ہوں میں آقا مدینہ

عامر لیاقت جس ذوق و شوق کے ساتھ نعت پڑھتے، اسی کیفیت میں درود شریف کا ورد بھی کیا کرتے۔ وہ اپنے ہر مذہبی پروگرام میں اس اہتمام کے ساتھ درود شریف پڑھا کرتے کہ کیفیت طاری ہو جاتی۔ عامر لیاقت کی زندگی بڑی پہلو دار ہے۔ انھوں نے اپنے مختصر کیرئیر میں زندگی کے کئی شعبوں میں قسمت آزمائی کی اور کامیابی نے ان کے قدم چومے۔ ان کی کامیابی ان کی قوت فیصلہ میں تھی۔ ہمارے دوست اور ممتاز صحافی فیصل حسین جنھیں عامر سے بہت قربت رہی ہے، بتاتے ہیں کہ وہ بہت تیزی سے فیصلہ کرتے اور اس پر جم جاتے۔ کیا سبب ہے کہ اپنے کیریئر میں عامر یہ حتمی فیصلہ کبھی نہ کر پائے کہ انھیں کیا بننا ہے، عالم دین، سیاست داں، اینکر، انٹرٹینر یا صحافی؟ کیا خبر قوت فیصلہ بھی کبھی کبھی کسی بندے کا امتحان لیتی ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments