ٹک ٹک کرتی ٹائم مشین


2050 سال

میں ایک باپ ہوں، میرے دو بچے ہیں، میں ستر برس کا ہوں اور یہ سن 2050 کا ایک لمحہ ہے جس میں میں آپ سے مخاطب ہوں۔ میرے دونوں بیٹے علی الترتیب پینتیس اور تیس سال کے ہیں، میں نے انہیں بڑی محبت اور توجہ سے پالا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت پر وقت صرف کیا ہے۔ اس وقت جب کہ میرا بڑا بیٹا رات کا کھانا کھا رہا ہے تو میں اسے محبت سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ بڑی توجہ سے ایک بوتل میں سے چکن کے ذائقے والا آمیزہ نکال کر پیپر سینڈوچ پر اس طرح لگا رہا ہے جیسے کبھی ڈبل روٹی کے ٹوسٹ پر مکھن لگایا جاتا تھا۔ قریب ہی ایک اور بوتل رکھی ہے جس میں وہ چٹنی (Sauce) ہے جو اس کاغذ کو ایک سینڈوچ کا مزا دے گی۔ میرا بیٹا چکن سپریڈ کے بعد اس چٹنی کو بھی اپنے پیپر سینڈوچ پر لگائے گا۔ وہ بڑے انہماک سے اپنا یہ ڈنر تیار کر رہا ہے اور میں اسے محبت سے دیکھ رہا ہوں۔

میرے دل میں محبت، لیکن میری سوچ میں تاسف بھرا ہے۔ اس لیے کہ میری توجہ اپنے چھوٹے بیٹے پر بھی ہے جس کی کھانا کھانے کی باری دوپہر میں یعنی لنچ کے وقت تھی۔ جیسے میں نے بتایا کہ یہ سن 2050 ہے اور کھانا مل جانا، اور چاہے ایک وقت کے لئے ہی سہی، کھا سکنا، خوشحال ہونے کی نشانی ہے۔ کھانے کے لئے روٹی اور ڈبل روٹی کی بجائے اب اخباری کاغذ کی طرح کے رول ملتے ہیں جن کا ذائقہ روٹی جیسا ہی ہوتا ہے۔ سالن کی جگہ بوتلوں میں بند ہر طرح کے مزے والی ساس نے لے لی ہے۔

ٹیکنالوجی نے تمام باتوں کو آسان تو بنا دیا ہے لیکن یہ سب اتنا مہنگا اور تھوڑی مقدار میں دستیاب ہے کہ ہمیں کھانے کی راشننگ کرنی پڑتی ہے۔ چنانچہ خوشحال ہونے کے باوجود میرے چھوٹے بیٹے کی کھانا کھانے کی باری اب کل آئے گی۔ چونکہ بھوک اسے اس وقت بھی لگی ہے، تو اس کی نظر نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بھائی کی طرف چلی جاتی ہے۔ اگر چہ وہ اپنے ماں باپ کی دی ہوئی تربیت اور اقدار کے تحت فوراً اپنی نظر بھائی کی پلیٹ سے ہٹا بھی لیتا ہے، کہ کہیں لالچ اس کی نظر سے چھلک نہ جائے، اسے نادیدہ نہ بنا دے۔ اور اس نظر کے ادھر جانے اور پھر ہٹا لینے کو میں بھی ایک باپ کی نظر سے دیکھ رہا ہوں۔

میں دونوں بیٹوں کی دلی کیفیت کو سمجھتا ہوں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی۔ اپنے بچوں کو اس قدر احتیاط پر مجبور دیکھ کر مجھے بہت دکھ اور افسردگی ہے، شرمندگی اور گناہ کا احساس، تاہم، زیادہ ہے۔ اس وجہ سے کہ میں کبھی یہ سنا اور پڑھا کرتا تھا کہ موسموں کے طور بدل رہے ہیں اور یہ ہم انسانوں کے طریقوں کی وجہ سے ہیں۔ گرمیاں آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہیں، سردیوں کا دورانیہ کم ہو رہا ہے۔ برفیں پگھل رہی ہیں اور کھیت خشک ہو رہے ہیں۔ ایتھوپیا، صومالیہ، افغانستان اور یمن جیسے ملکوں میں قحط ہے لیکن مجھ ایسے لوگ دور بیٹھے سوچتے تھے کہ یہ تو کسی اور دنیا کی بات ہے۔

ہمارے پاس خوش حالی تھی، وسائل تھے، اس لئے جب ہمیں گرمی لگتی تو ہم اے۔ سی یعنی ائر کنڈیشنر لگا لیتے۔ چونکہ ہم افورڈ کر سکتے تھے تو سارا دن اور رات ائر کنڈیشنر لگا لیتے۔ پھر یوں ہوا کہ گرمی بڑھتی گئی اور پانی سوکھتا گیا۔ بجلی کی پیداوار کم ہونے سے لوڈ شیڈنگ ہونے لگی، پنکھا اور ائر کنڈیشنر لگانے کے لئے جو بجلی چاہیے تھی، وہ اس لوڈ شیڈنگ میں میسر نہ رہی۔ لیکن چونکہ ہم خوشحال تھے، اللہ کا دیا بہت کچھ تھا، سو ہم نے بجلی پیدا کرنے والا جنریٹر بھی لگوا لیا۔

جنریٹر میں ڈیزل ڈالتے اور وہ چل پڑتا، اے۔ سی بھی چل پڑتا۔ کبھی کبھی میں اپنے گھر یا دفتر سے باہر نکلتا تو دیوار کے برابر بنے ہوئے کسی کھوکھے یا جھونپڑی نما گھر کی طرف توجہ ہو جاتی۔ میں ایسے جھونپڑوں کے باسیوں کو دیکھتا جنہیں بجلی کے دوران ایک ہلکا سا پنکھا بھی مشکل سے میسر آتا۔ اور جب لوڈ شیڈنگ ہو جاتی تو پنکھا بھی نہ رہتا۔

سائنس ہمیں یہ بتاتی تھی کہ جب ہم لوڈ شیڈنگ کے اوقات کے دوران، چالیس ڈگری سے اوپر کی گرمی میں ڈیزل کا جنریٹر چلا کر بجلی پیدا کرتے ہیں تو یہ جنریٹر مزید گرمی پیدا کرتا ہے جو ظاہر ہے، گھر سے باہر کے ماحول کو ، جہاں پہلے ہی شدید دھوپ اور گرمی ہے، اور زیادہ گرم کرتی ہے۔ اور معاملہ یہیں پر نہیں رکتا، اس گرمی والے پراسیس سے بجلی حاصل کر کے ہم اے۔ سی چلاتے ہیں جو ہمارے گھر یا دفتر کے اندر کی گرمی کو باہر پھینکتا ہے۔ اس طرح اپنی خود غرضی کی رو میں ہم باہر کے ماحول میں رہنے والوں کے لئے گرمی کی تمازت میں تین طرح کا اضافہ کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور ان سے مستقبل میں ممکنہ طوفانوں اور خرابیوں کی جانب ماحولیاتی سائنس کے ماہرین توجہ دلاتے رہتے، لیکن ہم کہاں سنتے تھے۔

میری والدہ البتہ یہی بات ایک اور طرح سے کہا کرتی تھیں۔ کہتیں کہ اس غریب یا تکلیف میں مبتلا شخص سے خاص طور پر ڈرو، جو شکایت بھی نہیں کرتا۔ کیونکہ ایسے شخص کے دل کی بات کو خدا بڑے قریب سے سنتا اور اس کے شکوے کے جواب میں بڑا بے رحم انصاف کر سکتا ہے۔ اگر ہم سائنس کی تفصیلات پر یقین رکھتے تو انہیں مان لیتے، اور اگر دنیا و آخرت پر ایمان تھا، تو شاید والدہ کی بات میں زیادہ اثر محسوس ہوتا۔ لیکن ہم کہیں ان دو دنیاوٴں کے بیچ زندگی گزارتے رہے۔

وقت گزر گیا۔ موسموں نے ایسا رنگ بدلا کہ جہاں کبھی لہلہاتے کھیت ہوتے تھے، وہاں پانیوں نے ڈیرا ڈال لیا۔ جہاں آبادیاں ہوتی تھیں، وہاں ویرانیاں آ گئیں۔ جہاں دانے اگتے تھے وہاں ویرانے بن گئے، زمینوں کے ساتھ ساتھ چہرے بھی سوکھنے شروع ہو گئے۔ بازو اور تانگیں سوکھی لکڑیاں بن گئیں۔ انسان کی جگہ بس ان کی پسلیاں رہ گئیں۔ روٹی کی جگہ کاغذ نے لے لی اور سالن کی جگہ اس کے ذائقے والے مصنوعی آمیزے نے۔ کیلوگ، نیسلے، کرافٹ جیسی کمپنیوں کا اس مصنوعی ذائقے پر بھی قبضہ ہو گیا۔ ان کمپنیوں کی مصنوعی غذا استعمال کرنے والے اپنے اور ان کے جیسے دوسرے بچوں کو دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے، پشیمانی لیکن کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

سال 2022

ہمارا خطہ شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ تاریخ میں اتنے گرم دن پہلے کبھی نہیں آئے۔ اتنی شدید گرمی میں اے سی کے بغیر گزارا ممکن ہی نہیں۔ لیکن اگر ہم نے کچھ مشکل برداشت کرنے کی عادت نہ ڈالی تو آنے والے وقت میں معاملات برداشت سے مکمل باہر ہو جائیں گے۔ آج اگر ہم کم از کم اتنا کر لیں کہ لوڈ شیڈنگ کے دوران جنریٹر چلا کر اے سی کی مدد سے اپنا گھر ٹھنڈا اور دنیا کو دوزخ نہ بنائیں تو آنے والے وقت میں اس دینا اور اگلی دنیا، دونوں میں دوزخ سے بچ سکتے ہیں۔ اگر بہت سارے لوگ ان اوقات میں اپنا جنریٹر اور اے سی دونوں بند رکھیں تو یقین مانیں کہ ماحول کا مجموعی ٹمپریچر بھی کافی کم ہو جائے گا۔ اے سی کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔ آزمائش شرط ہے۔

ڈاکٹر زعیم الحق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر زعیم الحق

ڈاکٹر زعیم الحق ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اپنے شعبہ کے تکنیکی امور کے ساتھ ان انفرادی و اجتماعی عوامل پر بھی نظر رکھتے ہیں جو ہماری صحت یا بیماری کا باعث بنتے ہیں۔

dr-zaeem-ul-haq has 15 posts and counting.See all posts by dr-zaeem-ul-haq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments