کیا خواجہ سراؤں کو تفریح کا حق بھی حاصل نہیں؟


تفریح ہر انسان کا بنیادی انسانی حق ہے۔ سیاحتی مقامات کی سیر انسان کی شخصیت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کی یاداشت مضبوط ہوتی ہے۔ بلڈپریشر نارمل سطح پر آ جاتا ہے۔ ماضی کی تلخیاں بھلانے میں مدد ملتی ہے۔ صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سیاحتی مقام کی سیر انسان کو ریفریش کر دیتی ہے۔ جینے کا نیا جذبہ اور ولولہ فراہم کرتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں خواجہ سراء بچہ جیسے ہی مخالف جنس کی حرکتیں کرتا ہے اسے تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ روک ٹوک کا یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ مار دھاڑ اور تشدد میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے۔

بچہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو محلے والے اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سکول جاتا ہے تو ساتھی اور اساتذہ پڑھنے نہیں دیتے۔ خاندان والے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ بچہ تنگ پڑ کر گھر سے باہر وقت گزارنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ گھر آتا ہے تو گھر والے گھر کا دروازہ تک نہیں کھولتے۔ گھر میں داخل ہو تو کمرے میں بند کر دیا جاتا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ شاید مار کٹائی اور کھانا پینا بند کرنے سے بچہ سدھر جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

بہت سے خواجہ سراء تنگ آ کر خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ خود کو گھر میں قید کر لیتے، تو کچھ باغی ہو کر گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔

گروؤں اور ڈیروں پر رہنے خواجہ سراؤں کی زندگی بہت ہی سخت ہوتی ہے۔ بھیک، ناچ گانا اور سیکس ورک جیسے کاموں سے پیٹ پالتے ہیں۔ خواجہ سراؤں کی زندگی میں غم ہی غم ہوتے ہیں۔ اس لیے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو خوب سیلیبریٹ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی سالگرہ پر خوب جشن مناتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر شرطیں لگانا شرط جیت جانے پر کھانا کھلانا ان کی زندگی کا معمول ہے۔ خواجہ سراء روٹین کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے پیسے جمع کرتے ہیں اور سال میں ایک آدھ بار تفریحی مقامات کی سیر پر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

چند روز قبل فیصل آباد کی خواجہ سراؤں کا ایک گروپ سیر کے لئے ناران کاغان گیا۔ گروپ کے دو خواجہ سراؤں کا انٹرویو میڈیا پر چلا۔ ایک کا نام گیت تھا جو میک اپ آرٹسٹ تھی۔ دوسری کا نام بیبو خان رانی تھا جو ڈینٹسٹ تھی۔ دونوں خواجہ سراؤں نے بتایا کہ ان کے ساتھ ناران اور کاغان میں بہت برا سلوک کیا گیا۔ ہوٹل والے انھیں رہنے کے لئے کمرہ دینے کو تیار نہیں تھے۔ اس لیے انھیں ہوٹل کا ڈبل کرایہ دینا پڑا۔ اس کے علاوہ سیر کے دوران بھی لوگ آوازیں کستے رہے۔

یہ ویڈیو مجھے مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی بہت اچھی دوست نادرہ نے بھیجی اور کہا کہ اس نجی چینل کے سوشل میڈیا پیج پر لوگ خواجہ سراؤں کو برا بھلا کہ رہے ہیں، سیاحت کا دشمن قرار دے رہے۔ آپ ہمارے دفاع میں کچھ لکھیں۔

میں نے نادرہ سے دریافت کیا کہ کیا ان کے ساتھ بھی ایسا کوئی واقعہ کبھی پیش آیا ہے۔ تو نادرہ نے کہا کہ ان کے ساتھ تو بہت ہی برا ہوا تھا۔

نادرہ کچھ عرصہ قبل اپنے چیلوں کے ساتھ ناران کی سیر کو گئیں۔ ہوٹل کا کمرہ بک کرانے کی کوشش کی تو کوئی ہوٹل کمرہ دینے پر راضی نہ تھا۔ بڑی مشکل سے ڈبل کرائے پر کمرہ ملا۔ نادرہ نے ایک گاڑی بک کرائی ہوئی تھی۔ صبح جب اسی گاڑی پر گھومنے کے لئے نکلیں تو پتہ چلا کہ کسی نے گاڑی کے چاروں ٹائر کے پیچ ڈھیلے کر دیے تھے۔ نادرہ کہتی ہیں کہ انھوں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا۔ بڑی مشکل سے گاڑی کو روکا گیا۔ چیک کرنے پر پتہ چلا کہ چاروں ٹائروں کے پیچ کسی نے جان بوجھ کر ڈھیلے کیے تاکہ خواجہ سراء حادثے کا شکار ہو جائیں۔

یہ ہیں وہ روزمرہ کے مسائل جن کا سامنا خواجہ سراء کمیونٹی کو کرنا پڑتا ہے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ حکومت تفریحی مقامات کے حوالے سے قواعد میں مزید سختی لائے۔ تفریحی مقامات کا ماحول اتنا دوستانہ ہونا چاہیے کہ ہماری خواتین اور خواجہ سراء کمیونٹی آزادی کے ساتھ تفریح سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ہوٹل انتظامیہ کو خواجہ سراء کمیونٹی کے حوالے سے اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ خواتین اور خواجہ سراء کمیونٹی کے لیے تفریحی مقامات پر ہیلپ لائن بنانے کی ضرورت ہے۔ جو زائد کرایوں اور ہراسانی وغیرہ جیسے واقعات پر فوری ایکشن لے۔

خواجہ سراء بھی ہماری طرح خدا کی مخلوق ہیں۔ انھیں بھی جینے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ ہمیں۔ خواجہ سراؤں کے مسائل پر زیادہ نہیں لکھا گیا۔ جس کی وجہ سے لوگ ان سے جڑے مسائل سے ناواقف ہیں۔ ہمارے لکھنے کا مقصد ان مشکل مسائل کے حوالے سے آگہی عام کرنا اور خواجہ سراؤں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق دلوانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments