مسرت شاہین سے وسی بابا تک


مشرقی طریقہ علاج کا مشہور طریقہ ”علاج بالمثل“ ہے، یعنی ”گرمی سے گرمی کا، اور سردی سے سردی کا علاج کرنا، لہذا کل تقریباً معذوری کے عالم میں،“ فیس بک ”پر سرفنگ جاری تھی، کہ ایک بہت دلچسپ، مضمون نما طویل پوسٹ پر نظر پڑی، جس کا آغاز ہمارے دوست“ وسی بابا ”کی جملہ خصوصیات کے بیان سے کیا گیا تھا، اور اختتام جاکر“ مسرت شاہین ”پر کیا گیا تھا، اب قارئین اس مضمون کے آغاز اور انجام کوایک خط مستقیم سے آپس میں ملا کر باآسانی“ کونٹینٹ ”کا اندازہ لگا سکتے ہیں، لیکن دوران، دھواں اٹھنے کی گارنٹی اور ذمہ داری ہماری نہیں، کیونکہ ایک تو گرمی ویسے ہی آج کل زیادہ ہے، دوسرے جا بجا“ جملہ اقسام ”کے قدرتی و غیر قدرتی جنگلات میں بھی آگ لگی ہوئی ہے، نیز گرمی اور خشکی کی وجہ سے جملہ قابل سوختنی اشیاء بھی جل اٹھنے کو تیار بیٹھی ہوتی ہیں، آج کل لوگوں کے موڈ سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، کہ ذرا سے چھیڑنے یا رگڑ لگ جانے سے جملہ آستینوں اور پائنچوں سے دھواں نکلنے لگے، تو جیسے بقول احمد فراز“ شرابوں میں شرابیں ملنے سے نشہ بڑھتا ہے ”ویسے ہی کہیں آگوں میں آگ ملنے سے بھی“ گرمی اور درجہ حرارت میں اضافہ نہ ہو جائے، جس کا صرف ایک مثبت پہلو ہی ذہن میں آ رہا ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں ”ریزرز اور جملہ کریمز“ کے خرچ میں خاطر خواہ کمی تو آئے گی ہی، کہ جنگل جل جانے کے بعد ان کی کٹائی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔

ایک تو ہم پتہ نہیں کہاں نکل جاتے ہیں، تو بات ہو رہی تھی اس مضمون نما پوسٹ کی، جو وسی بابا سے شروع ہو کر مسرت شاہین پر اختتام پذیر ہوئی، ہم  نے اس پر طویل تبصرہ لکھا تو بوجہ طوالت وہ اس پوسٹ نما مضمون پر تبصروں میں شیئر نہ ہو سکا، ہم اپنا ”قیمتی“ تبصرہ محفوظ کرنے لگے تو وہ پوسٹ ہی گم ہو گئی، اور بدقسمتی سے ہمیں یہ تک دیکھنے کا موقع نہ مل سکا کہ یہ عالیشان تحریر تھی کس کی، وسی بابا کے پیج پر بھی ڈھونڈا، کاکڑ صاحب کی تازہ تحاریر میں بھی ڈھونڈا لیکن کچھ معلوم نہ ہو سکا،بس اتنا یاد ہے کہ ہمارے طویل تبصرے کے نیچے محترمی ”شازار جیلانی“ صاحب کا تبصرہ تھا، لہذا اب وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ شاندار مضمون کس کی پوسٹ تھا۔

اس مضمون کے اختتام پر قارئین سے بھی استفسار کیا گیا تھا، بلکہ دعوت دی گئی تھی، تقریباً بالکل ویسے ہی جیسے دعوت گناہ دی جاتی ہے، یا بھینسے کو سرخ کپڑا دکھایا جاتا ہے، کہ کیا قارئین محترمہ مسرت شاہین کے نام سے واقف ہیں، اور ان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟ تو گویا ”اک تیر سینے میں مارا ہائے ہائے“ والی کیفیت ہو گئی، اور ہم کو محسوس ہونے لگا کہ اگر ہم نے ”اس عمر میں“ اپنی ملی اور قومی ذمہ داریوں کے تحت نوجوان نسل کو پاکستان کی درخشاں تاریخ کی اس عہد ساز، ”نسل ساز“ بلکہ ذہن ساز فنکارہ سے متعارف نہ کروایا، تو اس سے ملک و قوم کو دو بڑے نقصان ہوں گے، ایک تو نئی نسل اپنے قیام پاکستان کے بعد کے ادوار کے اسلاف کے کارناموں اور اصلی تعارف سے محروم رہ جائے گی، دوسرے بہت سی دل کی، دل ہی میں رہ جائیں گی لہذا۔

ہم تو مسرت شاہین کے بارے میں ”ان کی بدر منیر کے ساتھ فلم“ دلہن ایک رات کی ”حد تک جانتے ہیں، اور جن قارئین نے اپنے دور نوجوانی میں وہ فلم دیکھ رکھی ہو، تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں، کہ مسرت شاہین اسی فلم سے شروع ہو کر اسی فلم کے اندر ہی اختتام پذیر ہو گئیں تھیں، لیکن بہت سے فنکاروں کو درجنوں فلموں میں کام کرنے کے بعد بھی وہ فنی مقام نہیں مل پاتا، جو موصوفہ نے اس فلم میں“ بے اعتنائی سے ”کیمرے کی طرف سے منہ موڑے موڑے ہی حاصل کر لیا، بلکہ بعد میں تو یہ بے اعتنائی کا چلن اور ادا پشتو فلموں کی اداکاراؤں کے لیے لازمی قرار پا گئی، گو کہ اس فلم کی اداکارہ شرمیلی غلافی آنکھوں والی عفیفہ“ نمی ”تھیں لیکن ان کو اس فلم میں مرکزی کردار کا موقع ملنے اور بہت پرکشش شخصیت کے باوجود وہ بلند مقام حاصل نہ ہو سکا، جہاں مسرت شاہین اسی فلم کے واسطے سے چڑھ بیٹھیں، گو کہ ان کو خود بھی پھر، تا زندگی اس چوٹی سے اترنے کا موقع نہ مل سکا، ویسے اس کی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ موصوفہ نے شاید اس بلندی سے سیدھے منہ یعنی چہرے کی طرف سے اترنے کی کوشش فرمائی ہو گی، کیونکہ کسی بلند مقام جس سے اترنے کے لیے لمبی سی بانس کی سیڑھی لگی ہوئی ہو، اس سے کبھی سیدھے اترا نہیں جا سکتا، اس سے صرف الٹا یعنی دیوار یعنی سیڑھی کی طرف منہ کر کے ہی اترا جا سکتا ہے۔

لہذا اس واحد مشہور فلم، جس نے مسرت شاہین کو ایک“ ٹرینڈ سیٹر ”اداکارہ بنا دیا، اور حیرت کی بات کہ بیرون ممالک کی کئی اٹالین و دیگر فلموں میں اس“ رواج ”کو بہت بعد میں ایک مخصوص کیٹیگری کے نام سے“ جاری ”رکھا گیا، اب اس میں تو مسرت شاہین کا کوئی قصور نہیں لیکن کردار ضرور ہے۔ بعد میں پشتو فلمیں، اس ذوق کی بابت، پٹھانوں کی انتہا پسند طبیعت کے پیش نظر“ طول و عرض میں اضافہ ہوتے ہوتے، تجریدیت ”کی طرف چل نکلیں، جب“ صبا گل ”کا دور، ان فلموں میں جاری ہوا، پوری فلم کے دوران ان عفیفہ کے چہرے کی جھلک دیکھنے کے لیے ایک بڑا دائروی سفر دائیں طرف سے یا بائیں طرف سے، طے کر کے دوسری طرف پہنچنا پڑتا تھا، جو کہ صرف“ انتہا پسندوں ”اور برق رفتار کمانڈو صفت شائقین کے بس میں ہی تھا، کیونکہ ہم نے تو جب بھی ایسی کوشش کی تو، منزل پر پہنچنے سے قبل عام طور پر فلم ہی ختم ہو جایا کرتی، اور تماشائی ایک دوسرے سے نظریں چراتے ( نہ جانے کیوں ) اپنی اپنی چادروں کو مزید لپیٹتے سنیما ہاؤس سے جلدی جلدی نکلنے کی کوشش کیا کرتے، شاید ان کو بھی ہماری طرح گھر والوں سے“ پوچھ کر ”آنے کی فرصت نہ ملی ہوتی ہو، اور اس زمانے کے رواج کے مطابق یہ یاد بھی عام طور پر فلم ختم ہونے اور باہر دن ڈھلنے کے بعد ہو چکے ملگجے اندھیرے کو دیکھ کر ہی آتی ہو، کیونکہ اندھیرا ہو جانے کے بعد گراؤنڈ میں کھیلنے کا بہانہ بھی کارگر نہیں رہا کرتا تھا، ویسے ایک ضمنی سی بات کہ باہر ہر جگہ سگریٹ نوشی کی اجازت ہونے کے باوجود جو طلب اور لطف سگریٹ نوشی کا سنیما ہال میں آیا کرتا وہ اور کہیں نہ آتا، شاید لطف، مزے اور پابندی کا آپس میں کچھ نہ کچھ پراسرار سا تعلق ضرور ہے۔

مکمل آزادی اور اجازت بالآخر بے لطفی، بے رغبتی اور بے دلی پیدا کرتی ہے، اکثریت کی عائلی زندگی اس بات کا ثبوت ہے! راولپنڈی میں ایسے معاملات میں، ناولٹی سنیما سے زیادہ قدیم اور شہرت یافتہ“ خورشید سنیما ”ہوا کرتا تھا، جو راولپنڈی کے“ دل ”راجہ بازار کے ایک طرف واقع ہوا کرتا تھا، اس سنیما کی شہرت پشتو فلموں اور اپنے مشہور زمانہ“ سائیڈ پروگرام ”کی وجہ سے ہوا کرتی تھی، اس تاریخی سنیما کی اپنی قدامت کے علاوہ ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ہال میں سب سے پیچھے رنگین نوار والی بالکل چھوٹی اور نیچی کرسیاں رکھی گئی تھیں، جو ان دنوں عام طور پر ٹینٹ سروس والے شادی بیاہ کے موقع پر فراہم کیا کرتے، جبکہ اگلی قطاروں میں وہ جو بلند بارعب پشت والی عالیشان کرسیاں، آج کل عدالتوں میں چیف جسٹس صاحبان کے لیے رکھی جاتی ہیں، ان دنوں ویسی ہی شاندار اور بلند پشت والی کرسیاں خورشید سنیما میں سب سے اگلی چار روز یعنی قطاروں میں رکھی جاتی تھیں اور ان کی سب سے آگے رکھے جانے کی کوئی وجہ ہمیں تو اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی، نہ ہی کبھی آگے جا کر دیکھنے کی ہمت ہوئی لیکن قیاس یہی ہے کہ جو عالی قدر بریڈ آج کل ایسی کرسیوں پر براجمان ہوئے دکھائی دیتی ہے، وہی اپنے معصوم بچپن میں، خورشید سنیما کی ان اگلی قطاروں میں رکھی ان عالیشان اونچی کرسیوں پر براجمان ہوتے ہوں گے، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ان کی معصومیت کا، وہاں ان بلند، عالیشان کرسیوں پر براجمان ہونے کے باوجود محفوظ رہنا“ بوجوہ ”تقریباً تقریباً ناممکن ہی تھا، آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک عام آدمی کو فراہمی انصاف کی حالت سے تو ایسا لگتا ہے، کہ قوم سے شاید“ ان ”دنوں ان حضرات سے“ خورشید سنیما ”والے سلوک، کا بدلہ ہی لیا جا رہا ہے، اب کوئی پوچھے کہ اس سلوک میں ہمارا کیا قصور تھا، جو ہم سے وہ بدلہ لیا جا رہا ہے، بدلہ لینا ہے، تو آج کے“ کے پی کے ”میں جا کر، ان زیادتیوں کے باقی ماندہ“ زندہ ذمہ داروں ”سے براہ راست لیں، اب تو آپ کو “ مکمل اختیار بھی حاصل ہے، دن کو رات کریں، یا رات کو دن، کس کی مجال جو سوال کرے۔

تو ”موضوع“ پر واپس آتے ہیں، کہ ہمیں تو سنیما انتظامیہ کے زیادہ تر پٹھان ہونے کی وجہ سے کرسیوں کی اس ترتیب کے بارے میں پوچھنے کی ہمت بھی نہ پڑتی، لہذا کئی بار پچھلی نیچی نواڑی کرسیوں پر کھڑے ہو کر بھی اچک اچک کر دیکھنے کے باوجود سکرین پر جلوہ افروز مسرت شاہین کی سڈول بلکہ گول گول پنڈلیوں کے دیدار سے محروم رہتے، گورے گورے گتھے گتھے پیارے پیارے پیروں کا دیدار تو سوائے اندازے یا قیاس کے ممکن ہی نہ ہوتا تھا، لیکن یہ مقام ایسا تھا کہ قیاس یا تصور کئیے بغیر بھی چارہ نہ ہوا کرتا تھا، آخر نام نہاد ”اپر سٹال“ کا ٹکٹ جو خریدا ہوا ہوتا تھا، جس کی نسبتاً گراں داموں خریداری کی دو وجوہات میں سے ایک تو یہ تھی، کہ ہال میں سب سے پچھلی قطار میں بیٹھنے کا ”مقصد“ پورا ہو جایا کرتا، اور دوسری وجہ۔

ہمیں یاد نہیں۔ بہر حال مسرت شاہین کا کبھی کبھی دوران فلم شائقین کی طرف لحظہ بھر کو مڑ کر دیکھنا ہی طوفان برپا کر دیا کرتا، اور ہم سوچتے رہ جاتے کہ یہ ایک لحظہ کا مڑ کر دیکھنا اگر طوفان برپا کر دیتا ہے، تو اگر وہ دوسری اردو فلموں کی ”شین قاف“ سے درست اداکاراؤں کی طرح کیمرے کی طرف دیکھ کر ”روایتی“ اداکاری فرماتیں تو کیسا لگتا، یہاں پھر تصور ”کے“ ٹول ”کو ہی کام میں لانا پڑتا، اور تب سمجھ میں آتا کہ فنون لطیفہ میں سے فلم کو کیوں شائقین کی ذہنی تربیت“ کا آلہ سمجھا اور کہا جاتا ہے، تخریب اور تعمیر، دونوں مقاصد کے لیے، دونوں کا ثبوت سامنے ہے۔

ویسے آپ نے یہ بتا کر کہ ہمارے پسندیدہ ”وسی بابا“ دراصل ”چوہدری“ ہیں ہمارے ان کے بارے میں تعمیر کیے ہوئے ”تصورات کے محل“ مسمار کر دیے ہیں۔ ہم نے کیا کیا سوچا ہوا تھا، لیکن بقول شاعر ”بیاں ہوا تو گیا، حسن اس فسانے کا “ لہذا رہنے ہی دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments