کسی کے حب میں یا کسی کے بغض میں!


جنرل مشرف، جنرل علی قلی خان کو سپر سیڈ کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف تعینات کیے گئے تھے۔ خود جنرل مشرف نے اپنی خود نوشت میں اعتراف کیا کہ ان کی تعیناتی کی ایک وجہ ان کا متوسط طبقے سے تعلق تھا۔ اس کے برعکس جنرل علی قلی یقیناً ایک با اثر سیاسی اور کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ فوج میں پروموشن کا طریقہ کار عمومی طور پر موثر اور انسانی کمزوریوں کی گنجائش رکھتے ہوئے ایک بہترین نظام کا حصہ ہے۔ چنانچہ جو افسران ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے سینئر عہدوں پر پہنچتے ہیں، جن میں بالخصوص تین ستارہ افسران شامل ہیں، افتاد طبع میں فطرتی طور پر مختلف ہونے کے باوجود پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں ایک دوسرے کے عمومی طور پر ہم پلہ ہوتے ہیں۔ یقیناً کچھ اور عوامل بھی ہوتے ہیں جو سیاسی قیادت کو چند بہترین سینئر کمانڈرز میں سے کسی ایک کو اعلیٰ ترین عہدے کے لئے منتخب کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ہم جیسوں کے لئے ان عوامل کو زیر بحث لانا بے جا قیاس آرائی کے سوا کچھ نہیں۔

نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد جنرل علی قلی خان عسکری روایات کے مطابق مستعفی ہو کر پس منظر میں چلے گئے اور کم آمیز جرنیل کا نام ہمارے ذہنوں سے جلد ہی معدوم ہو گیا۔ کئی سال بعد جب پاک فوج نے سابق قبائلی علاقوں میں غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کا آغاز کیا تو قوم کے ایک بڑے حصے نے ان کارروائیوں کو ’امریکی جنگ‘ قرار دے کر قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ خود ہمارے اپنے کئی سابق افسران جن میں جنرل حمید گل اور انہی کے ہم عصر ایک سابق چیف آف آرمی سٹاف بھی شامل تھے، حکومت کو کئی وجوہات کی بناء پر تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔

پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا نیا نیا دور تھا۔ راتوں رات شہرت پانے والے کئی میڈیا سٹارز ان سابق فوجیوں کو آئے روز اپنے ٹاک شوز میں بلاتے اور ملکی سلامتی سمیت کئی موضوعات پر ہمیں ان کے خیالات سنوائے۔ چنانچہ بے چہرہ عفریت کے خلاف جنگ پر تنقید میں مخصوص مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے علاوہ کئی ایک ریٹائرڈ فوجی افسران بھی پیش پیش رہتے۔

جنرل مشرف کے خلاف جب وکلاء کی تحریک شروع ہوئی تو کئی ایک سابق فوجی کہ جنرل حمید گل ایک بار پھر جن میں نمایاں تھے، تحریک میں عملی طور پر شامل ہو گئے۔ مجھے یاد ہے ایک بار جنرل مشرف نے اکتا کر ایک پریس کانفرنس میں چند سوڈو انٹیلکچوئل کا تذکرہ کیا تو سابقہ ’سینئرز‘ کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انہیں عسکری روایات کی پاسداری کی نصیحت کرتے ہوئے ان کے متکبرانہ رویے پر عمومی ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس سب کے باوجود مجھے مگر یاد نہیں پڑتا کہ کبھی حکومت یا حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی بناء پر ان حضرات کو کسی قسم کی دھمکیاں دی گئیں ہوں، یا ان کے کسی فورم پر بولنے پر قدغن لگائی گئی ہو۔ حتی کہ کبھی کسی جانب سے ان سابق فوجیوں کے ساتھ کسی ٹی وی پروگرام یا کسی اور جگہ پر بد تمیزی کیے جانے کا بھی کوئی واقعہ دیکھنے سننے کو نہ ملا۔

از کار رفتہ سپاہی کے مضامین کو جو تواتر کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کئی عوامل کی بناء پر گزشتہ ایک عشرے کے دوران ہر درجے کے سابق فوجیوں کی غیر معمولی اکثریت کے عمران خان کے حق اور روایتی سیاسی خاندانوں کے خلاف متحرک ہونے کے اسباب کا احاطہ ان مضامین میں اکثر کیا جاتا رہا ہے۔ ہمیشہ رائے دی گئی کہ سابق فوجیوں کی طرف سے عمران خان کی بے مثال حمایت کے پس پشت بنیادی طور پر عمران خان کی ذاتی خوبیوں سے زیادہ ان کے سیاسی مخالفین سے بیزاری کا عنصر کار فرمائے۔

سابق فوجی مڈل کلاس کا حصہ ہیں، اور کچھ عرصہ سے پوری کی پوری مڈل کلاس بالخصوص نوجوان نسل سٹیٹس کوو اور خاندانی حکمرانی سے بیزار ہے۔ یہ نہیں کہ ہمارے سیاست دان اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ اندازہ تو یہ ہے کہ مریم نواز بھی معاشرے میں رونما ہونے والی اس تبدیلی سے واقف ہیں۔ تاہم ہم میں سے اکثر زندگی افتاد طبع کی اسیری میں بسر کرتے ہیں۔ تنہا کسی ایک عنصر نے اگر مڈل کلاس بالخصوص سابق فوجیوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے تو وہ صاحبزادی کا گھمنڈ اور ہمہ وقت بے جا تلخ نوائی پر مبنی رویہ ہے۔

25 مئی کے دن جو پر امن شہری اپنے گھروں سے اپنے بیوی بچوں سمیت اپنی عمر بھر کی کمائی سے خریدی گئی یا کرائے پرلی گئی گاڑیوں میں سوار اسلام آباد کے لئے نکلے تھے، ان میں بے شمار سابق فوجی افسران اور ان کے اہل خانہ بھی شامل تھے۔ محض ایک دن پہلے کسی اور نے نہیں مریم نواز نے اپنے مخصوص لہجے میں پوچھا تھا، ’یہ جانتے نہیں کہ وزیر داخلہ کون ہے! ‘

گزشتہ روز جو چند سابق فوجی افسران پہلے سے طے شدہ کانفرنس کے لئے اسلام آباد پریس کلب پہنچے تو قرین انصاف تو یہی تھا کہ تنظیم کے ذمہ دار ان کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا جاتا۔ چند افراد پہلے سے لکھے ہوئے چند مطالبات سنا کر چلے جاتے، بات ختم ہو جاتی۔ مگراس کے برعکس عین وقت پر پریس کلب میں ان کو داخلے سے روک دیا گیا۔ عمر رسیدہ افراد سڑک پر بیٹھنے پر مجبور ہوئے تو پریس کانفرنس روڈ شو میں بدل کر ان کی گرفت سے نکل گئی۔

چند خطابات کے بعد حیران کن طور پر وہ صحافی اور یوٹیوبرز جو کسی نہ کسی دور میں مبینہ طور پر ’ایجنسیوں‘ کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے یا اغوا ہوئے تھے، معمر ویٹرنز بالخصوص تین ستارہ جنرلز پر چھوٹتے ہی پل پڑے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان ویٹرنز کا جرم یہ تھا کہ یہ اپنے سابقہ ادارے کو بدنام کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے تو ان تمام عناصر کہ جن کی پہچان ہی ادارے سے نفرت ہے، انہیں ان عمررسیدہ اشخاص سے بد اخلاقی اور موقع پر ہنگامہ آرائی کی تحریک کہاں سے ملی؟

اگرچہ اس کے بعد کئی سابق فوجیوں کی طرف سے بھی نا مناسب رد عمل دیکھنے کو ملا۔ چنانچہ جہاں ایک یوٹیوبر صحافی کے خلاف غیر اخلاقی نعرہ بازی کی گئی تو وہیں سینئر ویٹرنز نے تین ماہ کے اندر انتخابات کروائے جانے کے جس ’وعدے‘ کا تذکرہ کیا اس کے لئے بھی یہ موقع محل ہرگز مناسب نہیں تھا۔ تاہم اس باب میں دلچسپ صورت حال اس وقت دیکھنے کو ملی جب ایک طرف تو ویٹرنز کی پوری پریس کانفرنس کا ملکی میڈیا نے مکمل بلیک آؤٹ کیا مگر دوسری جانب حیران کن طور پر اگلے ہی روز برطانوی نشریاتی ادارے کی اردو سروس کی طرف سے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے مبینہ ’وعدے‘ کی تردید پر مبنی خصوصی رپورٹ چھاپی گئی۔ ہم نہیں جانتے کہ راتوں رات ایسا کیا ہوا کہ مغربی نشریاتی اداروں کی اردو سروس والے ہمارے ’ادارے‘ کے ہمدرد اور ترجمان بن گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments