مردوں میں مقبول ویاگرا خواتین کے لیے کیوں نہ بن سکی؟

کامیلا ورسا موتا - بی بی سی برازیل، ساؤ پاؤلو


Un frasco y píldoras rosas
ویاگرا کی فروخت کا آغاز سنہ 1998 میں ہوا اور پھر یہ تقریباً فوراً ہی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی دوا بن گئی۔

امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کی طرف سے اتفاقاً دریافت ہونے والی ’نیلی گولی‘ ان کے لیے پیسہ کمانے والی ایک بہت ہی زبردست مشین بن گئی۔ صرف پہلے تین ماہ میں امریکیوں نے عضو تناسل کی ایستادگی کے لیے اس دوا پر ایک اندازے کے مطابق 40 کروڑ ڈالر خرچ کیے۔

انڈسٹری کو مارکیٹ کے دوسرے نصف حصے یعنی خواتین پر توجہ کرنے اور اپنے منافع کو دگنا کرنے کا موقع دیکھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور انھوں نے اس پر بھی کام کرنا شروع کر دیا۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس (UCLA) میں نیورو سائنسدان اور محقق نکول پراؤس یاد کرتی ہیں کہ ’میں نے سیکشوئل فزیالوجی کا مطالعہ اسی وقت شروع کیا تھا جب ویاگرا متعارف کرائی گئی تھی اور احساس یہ تھا کہ اس وقت سیکشؤالوجی (عِلْمُ الجِنْس یا جنسیات) کی تحقیق میں بہت ساری سرمایہ کاری ہونے لگی ہے۔

’ہم نے اس تحقیق کی وسعت کے بارے میں کبھی نہیں دیکھا۔ ہماری سائنس (سکیشوئل فزیالوجی) اب بھی کافی حد تک پسماندہ ہے، اسے ایک پرخطر علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ بہت سی کمپنیاں ایسی ہیں جو اس موضوع کو چھیڑنا بھی نہیں چاہتی ہیں۔’

تاہم تقریباً 25 سال اور کروڑوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد فارماسیوٹیکل انڈسٹری تاحال خواتین کے لیے ’نیلی گولی‘ کا فیمیل ورژن تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

یہ ایک ناکامی ہے جس نے خواتین کی جنسیت پر ایک بڑی بحث کا موقع فراہم کیا ہے، جیسا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ جو خواتین کی خواہشات اور جنسی لطف کی انتہا (لبیڈو) کے بارے میں عمومی طور پر ممنوعہ علاقہ سمجھی جانے والی باتیں اور غلط فہمیوں کے بارے میں بھی ایک کہانی بتاتی ہے۔

گلابی گولی کی تلاش

مردوں کے لیے ویاگرا کی تاریخ مشہور ہے۔ برطانیہ میں فائزر کے تحقیقی شعبے میں کام کرنے والے ڈاکٹر میترا بُولِل نے بی بی سی برازیل کو بتایا کہ آج جو دوا عضو تناسل کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے وہ اتفاقاً دریافت ہوئی تھی۔

’ہم انجائنا کے لیے ایک دوا تیار کر رہے تھے جو کہ دل کی تکلیف ہے۔ اس وقت کلینیکل ٹرائل کے کچھ شرکا نے معمول سے زیادہ عضو تناسل کی ایستادگی کی اطلاع دینا شروع کی۔ ابتدا میں ہم نے زیادہ توجہ نہیں دی، ہم نے سوچا کہ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ شرکا نوجوان تھے۔‘

Publicidad del viagra en 2006.

Pfizer
سنہ 2006 میں ویاگرا کا اشتہار

اس بارے میں مزید تحقیقات کا فیصلہ اس وقت کیا گیا، جب امریکی محققین کی طرف سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا کہ جس دوا کی وہ جانچ کر رہے تھے اس کے اجزا میں سے ایک (جسے PDE5 inhibitor کہا جاتا ہے) عضو تناسل کے کارپس کیورنوسم (کلائیٹورس کی شریانیں) ٹشو پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے جس سے اس حصے میں خون کی گردش میں اضافہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر بُولِل یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرے باس نے مجھ سے یہ معلوم کرنے کے لیے ایک ریسرچ کرنے کا کہا کہ آیا یہ واقعی ایسا ہوتا ہے یا یہ کوئی اتفاقی ’حادثہ‘ ہے۔‘

بعد میں ویاگرا پر ہونے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ عضو تناسل کے ارد گرد بڑھتی ہوئی خون کی گردش کا باعث بننے اور انھیں زیادہ دیر تک ایستادگی برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اور دواسازی کی صنعت کا اپنی کوششوں کو ممکنہ خواتین کے لیے ویاگرا بنانے کی جانب جانے کا پہلا نقطہ نظر بالکل اسی اصول پر مبنی تھا یعنی ایسی دوا بنائی جائے جو اندام نہانی اور کلائیٹورس میں خون کی گردش بڑھائے۔

ڈاکٹر بُولِل کہتے ہیں کہ ’وہ بافتیں (ٹشوز) جو نر اور مادہ کے جنسی اعضا کی تخلیق کرتی ہیں ہیں وہ جنین کی نشوونما کے ابتدائی مراحل میں ایک جیسی ہوتی ہیں۔‘

‘یہ ٹشوز مختلف ہوتے ہے کیونکہ یہ ہارمونز کے پیدا ہونے سے ظہور میں آتے ہیں لیکن جنسی اعضا کی تخلیق کرنے والے سٹیم سیلز بنیادی طور پر نر اور مادہ میں ایک جیسے ہوتے ہیں اور انزائم فاسفوڈیسٹیریز ٹائپ 5 (PDE5) بھی ٹشوز میں موجود ہوتا ہے۔ ہم نے سوچا، ’ٹھیک ہے اگر یہ مردوں کے لیے کام کرتا ہے تو اس کا خواتین پر موثر ہونے کا بہت امکان ہے۔‘

لیکن ایسا نہیں تھا۔

خواتین کی ویاگرا

انسانی جسم کی بافتیں

جسمانی جانچ نے یہاں تک کہ اندام نہانی اور کلائیٹورس میں خون کے بہاؤ میں اضافہ دکھایا لیکن کنٹرول گروپ کے شرکا اور ویاگرا لینے والے دونوں نے جنسی فعل میں کوئی بہتری نہیں بتائی۔

اسی طرح کی تحقیق کرنے والے دیگر ادوایات بنانے والے بھی اسی مسئلے سے دوچار ہوئے تھے کہ یہ حیرت کی بات نہیں کہ جنسی فزیالوجسٹ جو پہلے ہی اس بات کی تحقیقات کر رہے تھے کہ خون کا بہاؤ جنسی تسکین اور لطف کے نظام میں کیسے کام کرتا ہے۔

یہ سائنسدان نکول پراؤس تھیں جو اُس وقت امریکہ میں خواتین کے ویاگرا کے کئی جاری منصوبوں میں سے ایک میں شامل تھیں۔

جنسی اعضا میں خون کے بہاؤ میں اضافہ بھی خواتین کے جنسی ردعمل کا حصہ ہے۔ جب ایک عورت جنسی جوش میں آ جاتی ہے، تو جسم اندام نہانی کی دیواروں اور کلائیٹورس تک خون کے بہاؤ کو بڑھاتا ہے جس سے وہ بڑا ہو جاتا ہے جیسا کہ لیبیا مائورا، ایک عمل جسے خون کی نالیوں میں بندش (vasocongestion) کہتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ کئی بار خواتین کو احساس تک نہیں ہوتا کہ ایسا ہو رہا ہے۔

پراؤس کا کہنا ہے کہ ’ہم نے برسوں سے اس کا مطالعہ کیا اور خواتین کے لیے، خون کی نالیوں میں بندش (vasocongestion) کا خود اندازہ لگانا اتنا آسان نہیں۔ لہذا ہم جانتے تھے کہ ہمارے لیے اس سمت میں کچھ کرنے کا موقع ہے اور خواتین یہ رپورٹ کرتی ہیں کہ وہ حقیقت میں کچھ محسوس نہیں کرتی ہیں۔‘

کینیڈا میں برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے شعبہ امراض نسواں کی پروفیسر لوری بروٹو کہتی ہیں کہ زیادہ تر خواتین کے جنسی مسائل کا تعلق جینیاتی علاقے میں خون کے ناکافی بہاؤ سے نہیں ہوتا۔

ان میں سے سب سے عام وجہ جنسی خواہش کا نقصان یا اس میں کمی کا ہونا ہے۔

Cuerpo de mujer

دریں اثنا مردوں میں ویاگرا خواہش کے بغیر کام نہیں کرتی اور ایک عضو تناسل کے لیے دماغ کی ’فعالیت‘ کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں مرکزی سوال یہ ہے کہ خواہش کے اظہار کا طریقہ کار مردوں اور عورتوں کے درمیان بالکل مختلف ہے۔

پراؤس کی رائے میں، اگرچہ خواتین ویاگرا کی تحقیق میں شامل بہت سے سائنسدانوں کے لیے یہ سب کچھ پہلے ہی واضح تھا لیکن فروخت کی صلاحیت کی وجہ سے بہت سی دوا ساز کمپنیوں نے انتباہات کو نظر انداز کر دیا۔ انھوں نے دہرایا کہ ’ہم نے انھیں خبردار کیا کہ یہ (عورتوں میں) کام نہیں کرے گی۔‘

2000 کی دہائی کے اوائل میں پراؤس بطور گریجویٹ طالب علم خواتین کے لیے ویاگرا کی دریافت کے پروجیکٹوں میں سے ایک میں شامل ہوئیں۔ پراؤس کو خواتین کے لیے ویاگرا کے پراجیکٹ پر تحقیق کرنا والے گروہ کے ساتھ ملاقات میں یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ اس گروہ میں صرف وہ ہی واحد خاتون تھیں جبکہ باقی بیشتر افراد 50 سال سے زیادہ عمر کے مرد محقق تھے۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ تحقیق کے لیے شرکا ’بہترین ارادوں کے ساتھ وہاں موجود تھے کہ وہ خواتین کی مدد کرنا چاہتے تھے مگر پھر بھی، انھیں یہ محسوس ہوا کہ اس متعلق کوئی معقول بحث نہیں ہوئی ہے کہ خواتین کا جنسی ردعمل کیا اور کیسا ہوتا ہے۔

Una mujer recostada

جنسی خواہش عورتوں اور مردوں کے درمیان مختلف طریقے سے ظاہر ہوتی ہے

یہ بھی پڑھیے:

خواتین کے لیے ’نئی ویاگرا‘ اتنی متنازعہ کیوں ہے؟

سیکس کی خواہش ہی نہ ہو تو زندگی کیسی ہوتی ہے؟

’ویاگرا الزائمر کے علاج میں کار آمد ثابت ہو سکتی ہے‘

پہلی تحقیق میں ناکامی

ڈاکٹر بُولِل اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دوا سازی کی صنعت کو ’خواتین کو زیادہ سننا چاہیے تھا۔‘ سنہ 2004 میں جب فائزر نے اعلان کیا کہ وہ اپنے پروجیکٹ کو معطل کر رہا ہے تو اس نے اس کی وجہ بتانے کے لیے انٹرویوز کا ایک سلسلہ دیا۔

اس وقت ڈاکٹر بولل نے کہا تھا کہ ’جنسی عمل کے دوران بہت سی خواتین میں جنسی اعضا میں تبدیلیوں اور دماغ میں تبدیلیوں کے درمیان رابطہ منقطع ہوتا ہے جبکہ رابطے کا اس طرح منقطع ہونا مردوں میں موجود نہیں ہوتا ہے۔ مرد مسلسل برہنہ عورتوں کی موجودگی میں عضو تناسل کی ایستادگی کے خیال کا شکار ہو جاتے ہیں اور جنسی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ خواتین کے ساتھ معاملات کئی عوامل پر منحصر ہوتے ہیں۔‘

خواتین کے پراجیکیٹ پر ناکامی کے بعد فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے دھیرے دھیرے اس پر رقم صرف کرنا بند کر دی اور سیکشوئل فزیالوجی پر تحقیق کے لیے وافر فنڈنگ کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔

پراؤس، جو اس وقت تک یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ڈیپارٹمنٹ آف سائیکیاٹری میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ تھیں، کو ’ہیجان شہوت‘ اور ڈپریشن پر ریسرچ جاری رکھنے کے لیے ادارے میں اندرونی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

اپنی تحقیق کے لیے اپنی ہی کوششوں سے نجی ذرائع سے فنڈنگ حاصل کرنے کے باوجود یونیورسٹی نے اسے بتایا کہ وہ رقم قبول نہیں کر سکتی، اس پوزیشن کو وہ اپنی تحقیق کی ’متنازعہ‘ نوعیت سے منسوب کرتی ہے۔

Pareja en la cama

پراؤس کا کہنا ہے کہ بہت سی کمپنیاں سیکس سے متعلق کسی بھی چیز کے امیج کو نقصان پہنچاتی ہیں

پراؤس کہتی ہیں کہ ’ابھی بھی کسی بھی چیز کے ارد گرد بہت ساری بدنامی ہے جو خواتین کے جنسی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں ہوتی ہے۔ ایک گولی کو ’قابل قبول‘ سمجھا جاتا ہے لیکن بہت سی کمپنیاں جنسی معاملات سے متعلق کسی بھی چیز کے امیج کو نقصان پہنچاتی ہیں، یعنی ایسی چیز جسے فحاشی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، اُس کی بہت زیادہ مزاحمت ہوتی ہے۔‘

نئی شرط: مایوسی کم کرنے والی ادویات

تقریباً دو دہائیوں کے بعد ایک دوا ساز نے خواتین ویاگرا کے منصوبے کو ترک نہیں کیا بلکہ اس کے بجائے دوسرے عضو پر توجہ مرکوز کی، یعنی دماغ پر۔

سنہ 2015 میں، ’سپراؤٹ‘ (Sprout) نامی کمپنی نے عورتوں کے دماغ پر اثر کرنے والی دوا ’فلیبینسرین‘ (flibanserin) کا آغاز کیا، ایک دوا جو اصل میں ایک اینٹی ڈپریسنٹ (یعنی مایوس کو کم کرنے والی) دوا کے طور پر تیار کی گئی تھی جو خواتین کی لبیڈو بڑھانے کے وعدے کے ساتھ ہارمونز ڈوپامائن اور سیروٹونن کی سطح کو ہدف بناتی ہے۔

ماہرین نے اس دوا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ اس کی تاثیر کم تھی، اسے کم درجے کی دوا سمجھا جاتا ہے۔ کلینیکل ٹرائلز میں پلیسبو گروپ کے نتائج کا موازنہ کرتے وقت شرکا کے درمیان ایک ماہ کے دوران جنسی عمل کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی شرح 0.5 سے 1 تھی۔

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں جتنی رقم لگی تھی فائدہ اس کے برابر نہیں تھا۔ ویاگرا کے برعکس، ’فلیبینسرین‘ (flibanserin) کو روزانہ لینے کی ضرورت تھی اور اس سے چکر آنا، تھکاوٹ اور متلی ہو سکتی ہے اور اس شراب پینے والی خواتین استعمال نہیں کر سکتی ہیں کیونکہ یہ روزانہ کھانی ہوتی ہے، اس لیے جو بھی اسے لینے کا فیصلہ کرتا ہے اسے شراب پینا چھوڑ دینا چاہیے۔

Un frasco de Addyi (flibanserin)

ابتدائی طور پر ایک اینٹی ڈپریسینٹ (antidepressant) کے طور پر تیار کی گئی، ‘فلیبینسرین’ (flibanserin) کو سنہ 2015 میں امریکہ میں ‘ایڈائی’ (Addyi) کے نام سے لانچ کیا گیا تھا۔

یہاں تک کہ اس دوا کو امریکی ریگولیٹری ادارہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے منظور ہونے سے پہلے دو بار مسترد کر دیا تھا۔ ’فلیبینسرین‘ (flibanserin) کی فروخت کبھی شروع نہیں ہوئی۔ فی الحال کچھ ممالک میں اس دوا کی منظوری ہو چکی ہے۔

دیگر فارماسیولوجیکل ادویات، جیسے کہ ’وائلیسی‘ (Vyleesi)، ایک ’بریمیلانوٹائیڈ‘ انجکشن جو کہ سنہ 2019 میں امریکہ میں کم لیبیڈو کے ساتھ ماہواری سے پہلے کے دنوں میں استعمال کے لیے خواتین کے لیے منظور کیا گیا تھا، وہ بھی ناکام ہو چکی ہیں۔

خواتین میں جنسی خواہش کے معمے کی ناکامی کی ایک وجہ اس حقیقت سے متعلق ہو سکتا ہے کہ خواتین میں جنسی خواہش کی ایک نفسیاتی جہت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اس سے یہ سمجھانے میں مدد ملتی ہے کہ کیوں کم لبیڈو مردوں کے مقابلے خواتین کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔

یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی پروفیسر لوری بروٹو کا کہنا ہے کہ ڈپریشن، پریشانی، تناؤ، کم خود اعتمادی، رشتے میں تنازعہ، پارٹنر کی شرمندگی یہ سب مرد کی خواہش کے مقابلے خواتین کی خواہش میں زیادہ مداخلت کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مرد بھی ٹیسٹوسٹیرون کی اعلٰی سطحوں کے اثرات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جو انھیں خواہش کی زیادہ بے ساختہ شکل کا تجربہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔‘

Brazos de una mujer sobre sábanas rojas.

جنسی مباشرت کرنے کی بے ساختہ خواہش کو ایک طویل عرصے سے پہلے سے تصور کیا گیا تھا کہ آخر یہ خواہش کیا ہے، کچھ ایسی خواہش جو بھوک یا پیاس کی طرح پیدا ہوتی ہے۔ خواتین کی جنسیت کے مطالعہ میں سب سے زیادہ جدید تحقیقی نظریات والوں نے کام کیا تاہم اسے وہ جوابی جنسی خواہش کہتے ہیں، جو کسی محرک کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔

سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں جن سائنسدانوں نے اس تصور کو متعارف کرایا ان میں سے ایک کینیڈا کی روزمیری باسن تھیں۔ اُن کے لیے اور آج سائنسدانوں کے ایک بڑے گروہ کے لیے چیزیں اتنی آسان نہیں ہیں جتنی کہ سمجھی جاتی ہیں۔

روایتی لینیئر ماڈل، جو سنہ 1960 اور سنہ 1970 کی دہائیوں کے مطالعے سے سامنے آئے، اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ’خواتین کی جنسی تسکین کے اہم اجزا، اعتماد، قربت، احترام، بات چیت، پیار، اور رابطے میں خوشی‘ سے منسلک ہیں۔ ان کے مطابق، عورتوں کا جنسی ردعمل لینیئر ہو سکتا ہے، جب ان کا کوئی مستحکم ساتھی نہ ہو، مثال کے طور پر ابھی ان کا کسی سے تعلق نیا نیا بنا ہو۔

طویلُ المدت رشتوں میں رہنے والی خواتین کو تکرار کے ساتھ ایک جنسی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں خواہش اور جوش و جذبہ جنسی تعلق کے بارے میں سوچ، اس عمل کے مرحلے ہوتے ہیں جس میں جذباتی قربت اور نفسیاتی جنسی محرکات بھی شامل ہوتے ہیں۔

یہ بحث نہ صرف خواتین کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ان مسائل کے درمیان فرق کرنے کے لیے بھی ضروری ہے جن کے علاج کی ضرورت ہے اور یہ کہ خواتین کی جنسیت کی نوعیت کیا ہے۔

ویاگرا

نفسیاتی مسائل مردوں کے مقابلے خواتین میں جنسی خواہش میں زیادہ مداخلت کرتے ہیں

اگر ویاگرا گولی نہیں تو پھر کیا ؟

یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں جنسی صحت کی لیبارٹری کی ڈائریکٹر لوری بروٹو مثبت نتائج کے ساتھ مطالعہ کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پریکٹس کے ذریعے، خواتین جنسی سرگرمیوں سے پہلے اور اس کے دوران ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ ہونے میں کامیاب ہو گئی ہیں — خون کی نالیوں میں بندش یا ’گُدگُدی‘ جیسے احساسات جو عام طور پر جنسی جوش سے پیدا کرتے ہیں — جو انھیں جنسی خواہش کو بڑھانے یا برقرار رکھنے میں مدد کر سکتی ہیں۔

’ہم نے دیکھا کہ ذہن سازی بڑی تعداد میں منفی خیالات پر بھی کام کرتی ہے جو جنسی مسائل میں مبتلا خواتین اپنے بارے میں رکھتی ہیں، خود تنقید کی سطح کو کم کرتی ہیں اور خود سے ہمدردی میں اضافہ کرتی ہیں۔‘ پراؤس کا خیال ہے کہ اب دوا سازی کی صنعت نے ایسی گولی تلاش کرنا چھوڑ دیا ہے جو خواتین کے جنسی مسائل کو حل کر دے گی۔

’میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ سٹارٹ اپس (نئی نئی کمپنیاں) انفرادی طور پر چند سائنسدانوں کے ذریعہ زیادہ اختراعی خیالات کے ساتھ اس پر کام کر رہی ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ کوئی دوا خواتین کے جنسی مسائل کو حل کر دے گی؟‘

’یہ دکھ کی بات ہو گی اگر یہ گولی تھی، ٹھیک ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ ہم (خواتین) اس سے زیادہ ہیں۔ آج کل لوگ ہر چیز کے لیے ایک گولی چاہتے ہیں: وزن کم کرنے کے لیے، اپنے جنسی مسائل کو حل کرنے کی ایک گولی لیکن جسم اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ہم لاکھوں سال کے ارتقا کا نتیجہ ہیں۔ انسانی جسم ایک ناقابل یقین مشین ہے اور اس پر یقین کرنا کہ ایک گولی تمام مسائل کو حل کر سکتی ہے ایک تنگ نظریہ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments