جرمن سفارتکاری اور ہماری سیاست


جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے گزشتہ منگل سے شروع ہونے والے اپنے دو روزہ دورہ پاکستان کے دوران جرمن سفارت خانے اور جرمن سوسائٹی فار انٹرنیشنل کوآپریشن (GIZ) کے عملے سے ملاقاتیں کرنا تھیں۔ لیکن انہیں اپنا دورہ مختصر کرنا پڑا کیونکہ نہیں کرونا ہو گیا تھا۔ اس بیماری کا پتہ اس وقت چلا جب انہیں دوپہر کے کھانے کے دوران محسوس ہوا کہ ان کی ذائقے کی حس کام نہیں کر رہی۔

دیگر چیزوں کے علاوہ، ان کا دورہ اس لئے بھی اہم تھا کہ جرمن سفیر برن ہارڈ شلاگیک نے اپنے عہدے کی مدت تقریباً پوری کر چکے ہیں۔ 23 مارچ کو اپنے یوم پاکستان کے پیغام میں شلاگلک نے اعلان کیا کہ ”پاکستان ایک اچھی قوم ہے اور، جیسا کہ میں یہاں اپنے قیام کے اختتام کے قریب ہوں، میں ایسے قابل تعریف اور بہت مہمان نواز لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے کے موقع پر شکر گزار ہوں۔ دعا ہے۔ پاک جرمن دوستی ترقی کی منازل طے کرتی رہے۔“

جرمن وزیر خارجہ کو پاکستانی حکام کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ شلاگلیک کی جگہ کون گا۔ لیکن وہ اسلام آباد میں جرمن سفارت کاروں کو کچھ پالیسی ہدایات دے سکتی تھیں اگر بیمار نہ پڑ جاتیں۔

مسٹر شلاگلیک ایک کہنہ مشق سفارتکار ہیں اور اپنے پیشرو مارٹن کوبلر کی طرح پاکستان ان کی بھی آخری سفارتکارانہ منزل ہو سکتا ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ وہ 1956 میں پیدا ہوئے اور جرمنی میں سفارت کاروں کی ریٹائرمنٹ کی عمر تقریباً 66 سال ہے۔ پاکستان وہ سب سے بڑا ملک ہے جس میں انہوں نے بطور جرمن سفارت کار خدمات انجام دیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کوبلر کی جگہ لینا ایک مشکل کام تھا اور 2019 ایسا کرنے کا بہترین وقت نہیں تھا۔ کوبلر مقبولیت کی اتنی بلندیوں پر تھے کہ جہاں تک کوئی سفیر جس نے پاکستان میں کام کیا ہو کبھی نہیں پہنچ سکا۔ سوشل میڈیا کے ہنر مندانہ استعمال اور عوامی انداز نے انہیں سفارت کاری میں ایک برانڈ بنا دیا تھا۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جرمن ایمبیسی کے ٹویٹر اکاؤنٹ کے 322,100 پیروکار ہیں۔ یہ تعداد امریکی سفارت خانے کے بعد غالباً سب سے زیادہ ہے۔ امریکی سفارتخانے کے پیروکاروں کی تعداد 459.500 ہے

تاہم، مقبول یا پاپولر ہونے کا یورپ میں ایک منفی مفہوم ہے۔ جرمن سفیر نے اپنا کام بخوبی نبھایا۔ جرمن دفتر خارجہ کے مطابق 2019 میں جب انہوں نے منصب سنبھالا تو پاکستان کی جرمن برآمدات کی مالیت 1.8 بلین یورو اور پاکستان میں درآمدات 1.1 بلین یورو تھیں۔  فریڈرک ناؤمان سٹفٹنگ کے مطابق، گزشتہ سال پاکستان میں جرمن سرمایہ کاری 2.3 بلین یورو سے زیادہ تھی۔ اب جرمنی پاکستان کا چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

کورونا وائرس کے بعد جرمن شہریوں اور جرمن اداروں کے ملازمین کو افغانستان سے حفاظت سے لے جانا ایک حقیقی چیلنج تھا جسے مسٹر شلاگلیک نے اطمینان کے ساتھ پورا کیا۔ اس وقت افغانستان میں یورپی یونین کے سفیر آندریاس وان برینڈٹ بھی جرمن شہری تھے۔ امریکہ کے بعد جرمنی افغانوں کی پسندیدہ منزل تھا اور ہے۔

شلاگلیک نے جرمنوں اور ان سے مربوط افغانستان میں پھنسے افراد کی جان بچانے پہ پاکستان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا لیکن اس وقت کابینہ کے کچھ ارکان نے یورپ میں پی آئی اے پر پابندی لگانے پر عوامی سطح پر اور سوشل میڈیا پر ان کا اور دیگر یورپی سفارت کاروں کا مذاق اڑایا تھا۔

اگرچہ اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سفارت کاروں کے ساتھ ہمیشہ شائستگی کا برتاؤ کیا لیکن وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری یورپ کے سفیروں کے خلاف نفرت انگیزی میں پیش پیش تھے۔ معاملات اس وقت مزید بگڑ گئے جب جرمنی سمیت یورپ کے 22 سفارت کاروں نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کے لیے پاکستان سے اپیل پر دستخط کر دیے۔ عوامی اجتماعات میں یورپ کے خلاف نفرت پیدا کی گئی اور اسے سوشل میڈیا کے ذریعے سفارتی حلقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بیان بازی اور جعلی خبروں کا راج رہا۔ بنگلہ دیش، بھارت اور سری لنکا نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وہی موقف اپنایا جو پاکستان کا تھا لیکن مغرب کے خلاف غصہ اور نفرت کا جو مظاہرہ پاکستان میں ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی۔

مشترکہ محاذوں پر مشترکہ بیانات جاری کرنا سفارتکاری میں کوئی نئی بات نہیں۔ پچھلے ماہ مئی میں یوم یورپ کے موقع پر 17 سفیروں نے ایک پاکستانی اخبار میں اپنی اقدار اور مفادات کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ خط لکھا۔ لیکن اس بار ان کے خلاف کوئی سازشی تھیوری نہیں بنی گئی۔

مسٹر شلاگلیک نے گزشتہ سال جرمنی اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے 70 سالہ جشن منانے میں کافی دلچسپی لی۔ یونیورسٹی کے طلباء، اساتذہ اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد کو اپنے تجربات سے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے مختلف پروگراموں میں مدعو کیا گیا تھا۔ ان تمام سرگرمیوں میں جرمن سفیر نے نہایت مہارت سے فریگیٹ بائرن کی کراچی بندرگاہ پر لنگر اندازی کو چھپا دیا۔ شلاگلیک یہ اعلان کرتے رہے کہ جہاز دوستی کا جشن منانے کے لیے پاکستان آیا ہے۔ اس کا عملہ بھی مزار قائد پر گیا اور پاک بحریہ نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔

لیکن اس جہاز کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اسے انڈو پیسیفک اوشین مشن پر بھیجا گیا تھا تاکہ کسی بھی ایسی سرگرمیوں کی نگرانی کی جا سکے جو اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے خلاف ہو۔ عام طور پر ایسی سرگرمیوں کا مقصد اس غیر مستحکم خطے میں چین پر نظر رکھنا ہوتا ہے۔

سفیر خیبرپختونخوا کا اکثر دورہ کرتے تھے جہاں جرمن ادارے انسانی ترقی اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ عام طور پر یورپی سفارت کار سندھ اور بلوچستان جانا پسند کرتے ہیں لیکن کے پی سے گریز کرتے ہیں۔

اب جب کہ یورپ کے ساتھ دوستانہ حکومت قائم کی گئی ہے، نئے سفیر کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو ان کے پیشرو نے کیا تھا۔ آخر کار یہ ایک طویل عرصے کے بعد ہوا کہ گزشتہ ہفتے کسی جرمن وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کیا۔ نئے ایلچی کے لیے چیلنج، تاہم، یہ ہو گا کہ وہ پاکستانی عوام تک پہنچیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں سول سوسائٹی کی تنظیموں اور پر آسائش ہوٹلوں سے باہر آنا ہو گا۔

ڈاکٹر حسن شہزاد انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں میڈیاٹائزیشن کے پروفیسر ہیں۔ ان کا یہ مضمون ایڈٹ ہو کے دی نیوز آن سنڈے میں شائع ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments