ڈاکٹر محمد کامران شہزاد کی مرتب کردہ کتاب ’‘ مشرف عالم ذوقی کا فکشن ”:ایک جائزہ


 

مشرف عالم ذوقی کا فکشن ”ڈاکٹر محمد کامران شہزاد کی مشرف عالم ذوقی کے فن اور ان کے لکھے ناولوں پر لکھے 22 آرٹیکلز کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے یہ کتاب 19 اپریل 2021 ء کو مشرف عالم ذوقی کی ناگہانی وفات کے نتیجے میں پیدا ہو جانے والے جذباتی خلا کو پر کرنے اور ان سے اظہار محبت کے لیے مرتب کی۔

مشرف عالم ذوقی 24 مارچ 1964 ء کو ہندوستان کے صوبہ بہار کے نسبتاً ایک چھوٹے شہر آرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ادب سے گہرا شغف تو رکھتے ہی تھے لیکن وہ اچھے شاعر بھی تھے۔ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ گھر میں غالب، اقبال، ذوق ہی نہیں بلکہ شیلے اور ملٹن جیسے نابغہ روزگار شاعروں کی صدائیں بچپن سے ہی ان کے کانوں میں پڑنا شروع ہو گئیں۔

یہ ذوقی کے بچپن کی بات ہے کہ ایک دن ان کے والد ان کو ذوق کا کلام سنا رہے تھے کہ مشرف عالم کو ذوق ؔسے ایک قلبی لگاؤ کیا محسوس ہوا کہ غالب اور اقبال کے کلام کی بجائے ان کی زبان پہ ذوق کا کلام جاری ہو گیا جب یہ سلسلہ دراز ہوا تو اچانک ان کے والد نے کہا یہ تو ذوقی ؔہے۔ اسی دن سے مشرف عالم سے مشرف عالم ذوقی ہو گئے۔

تاریخ میں ایم۔ اے کیا تو گویا یہی تاریخ میں دلچسپی انہیں تاریخ نویسی کی طرف لے آئی۔ ان کے متعدد ناول تاریخی ہیں یا ان میں تاریخ یعنی ہسٹری موجود ہے۔ اور اصل تاریخ ہمیشہ درسی کتابوں میں نہیں ملتی بلکہ فکشن میں ہی ملتی ہے۔

ذوقی کا پہلا ناول ’‘ عقاب کی آنکھیں ”جب شائع ہوا تو ان کی عمر ابھی صرف 17 برس تھی پھر ان کا ذہن رسا ہر وقت کہانیاں بنتا رہا۔ وہ بہت زیادہ پڑھتے تھے۔ ان کی نظر بین الاقوامی ادب پر خوب تھی۔ ان کا ذہن صحرا کی مانند تھا جہاں پانی کی ایک دست یاب بوند بھی فوری جذب ہو جاتی ہے۔ اس طرح ان کی تحریروں میں کافکا اور جارج اورویل کا اثر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ان کی تحریروں میں کہیں کہیں ڈکنز اور ہرمن ہیسے کا اسلوب بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

فریج میں مٹن بیف بن جاتا ہے۔ پاؤں چھوٹے بڑے ہو جاتے ہیں۔ یہاں مکان ہیں جو راتوں رات غائب ہو رہے ہیں اور یہ مکان مسلمانوں کے ہیں۔ ملک کی الگ الگ ریاستوں میں لوگ غائب ہو رہے ہیں۔ لوگ سرخ چیونٹیوں کا نوالہ بن رہے ہیں۔

نئے دور کے عفریت انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے نئی نسل پر اثرات کا نہ صرف مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ ان کا اظہار بھی اپنے ناولوں میں کرتے ہیں۔

مشرف عالم ذوقی ایک انسان دوست شخصیت تھے۔ ہر شخص کے ساتھ محبت سے پیش آنا ان کا اسلوب زندگی تھا حتی کہ ایسے لوگ جو معاصرانہ چشمک کا شکار تھے ان کے ساتھ بھی محبت سے پیش آتے اور ان کے علمی و ادبی مقام کو ملحوظ خاطر رکھتے۔ پروفیسر ڈاکٹر ضیا الحسن کہتے ہیں ’‘ اس مجموعے میں ڈاکٹر کامران شہزاد نے ذوقی صاحب کے اہم ناولوں پر نمایاں لکھنے والوں کے مضامین کو جمع کیا ہے۔ بیشتر مضامین انہوں نے ایسے ادیبوں سے خود تحریر کروائے جن کی فکشن کی سوجھ بوجھ پر انھیں اعتبار تھا یا جو خود اعلی درجے کے فکشن نگار ہیں۔ ایسے لکھنے والوں میں جناب علی احمد فاطمی، محمد حمید شاہد، محمد حامد سراج، رحمان عباس، اقبال خورشید، حمید قیصر اور یونس خان قابل ذکر ہیں۔ ”

اس مجموعے میں میں ذوقی صاحب کے فکر و فن پر مضامین کے ساتھ ان کے ناولوں آتش رفتہ کا سراغ، لے سانس بھی آہستہ، نالہ شب گیر، مرگ انبوہ اور مردہ خانے میں عورت کے خصوصی مطالعات شامل ہیں۔

عصر حاضر کا ایک بڑا نام اقبال خورشید کا ہے ؛ مشاہدہ، علمی تبحر اور ادب پاروں سے گندھی ہوئی دلفریب تحریر اور انوکھا اور اچھوتا اسلوب اس کی پہچان ہے۔ اقبال خورشید کے دو مضامین اس مجموعے میں شامل ہیں۔

اقبال خورشید ’‘ اور کہا ذوقی نے ’لے سانس بھی آہستہ‘ ”میں لکھتے ہیں ’‘ پہاڑ کی چوٹی وعظ دینے کے لئے موزوں ترین جگہ ہے، مگر بیج بونے کے لیے کھیت میں اترنا پڑتا ہے! مجھے تسلیم کرنے دیں کہ جب فکشن نگاروں نے اپنی تخلیقیت سے میری آنکھوں کو خیرہ کیا اور اپنی قوت سے مجھے مبہوت کر دیا، ان فسوں گروں میں مشرف عالم ذوقی کا نام بھی شامل تھا۔

وہ کھیت میں اترا اس نے بیج بونے اور کہانیوں کی فصل اگنے کا انتظار کیا۔

اور اب جب وہ اس دنیا میں نہیں رہا، اچانک چلا گیا، تو اس سے جڑی یادیں میری ذہن کی گلیوں میں تند ہواؤں کی طرح گردش کرتی ہیں۔

مجھے اس کا ناول لے ’‘ سانس بھی آہستہ ”یاد آتا ہے، جس کی پڑھت کے بعد میں نے اس پر قلم اٹھانے کی سعی کی اور اپنے خیالات کو ایک ورق پر اتار کر اسے ایک کھیت میں بو دیا اور اسے خراج تحسین پیش کرنے کا موزوں ترین طریقہ یہ ہے کہ میں یہ مضمون، کچھ کانٹ چھانٹ کے بعد ، قارئین کو سونپ دوں، تا کہ وہ بھی مشرف عالم ذوقی کی دنیا میں داخل ہو جائیں۔“

مشرف عالم ذوقی چلا گیا لیکن اپنے پیچھے لاتعداد کام چھوڑ گیا۔ مشرف عالم ذوقی کے کام کی بہتر تفہیم کی خاطر اس کتاب کا پڑھنا اشد ضروری ہے۔ اس کتاب کو مثال پبلشرز فیصل آباد نے شائع کیا ہے۔ گیٹ اپ خوب صورت ہے۔ کتاب کو خریدیے کتاب دوستی کو نبھائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments