مدارس کا چندہ لینے والوں کا احوال


ماہ رمضان مقدس میں پورے ملک سے ملک کے مختلف حصوں سے مدارس والے (چھوٹے اور پسماندہ علاقوں سے ) چندہ لینے آتے ہیں۔ اب مشکل یہ ہے ان مدارس تصدیق کون کرے آیا یہ درست ہیں یا جعلی ہیں۔ ان کے پاس ملک کے بڑے مدارس کے تصدیقی سرٹیفیکیٹ ہوتے ہیں لیکن اس کی بھی کیا حقیقت ہے کہ وہ بھی اصل ہیں کہ نہیں۔

تجربے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اکثر ان میں جعلی ہوتے ہیں۔ لوگ بیچارے اپنی فرض زکوٰۃ اور صدقات خیرات وغیرہ ادا کرتے ان کی وجہ سے حقداروں کو نہیں پہنچ پاتے۔ چند واقعات ملاحظہ فرمائیں

پہلا واقعہ

2007 تربت میں عصر کی نماز کے بعد بیٹھا ہوا ذکر کر رہا تھا۔ دوسری طرف امام مسجد ان چندہ مانگنے والوں سے گفتگو کر رے تھے ان کے تصدیقی اسناد ایک اس مدرسے کی بھی تھی جس مدرسے سے امام صاحب نے درس نظامی کیا تھا لہذا وہ کاغذ کے کوڈ اور کوالٹی کو پہچانتے تھے جب دیکھا تو ویسا نہیں تھا۔

پھر امام صاحب نے اسی تناظر سے سوال جواب کیے وہ بہرحال سمجھ گئے اور ضروری کام کا عذر کر کے نکل گے امام صاحب اس دوران ان کے ہوٹل معلوم کر چکے تھے۔ جب تک امام صاحب ہوٹل پہنچتے وہ بس میں سوار ہو کر نکل گے اس واقعہ کا میں چشم دید گواہ ہوں

دوسرا واقعہ

دو سال پہلے 2020 کے رمضان میں قریب کے مسجد میں دو ساتھی چندہ کے لیے آئے امام صاحب ان سے اچھی طرح تعارف لے کر اپنے پاس ٹھہرنے کی سہولت دے دی

دوسرے دن قاری صاحب کو کام سے بازار جانا ہوا وہاں اسی علاقے کے لوگوں سے جو کاروباری تھے۔ قاری صاحب ان سے ملے اور ان چندے والوں کا ذکر کیا آپ کے علاقے کے لوگ ہیں انہوں جب تحقیق کی تو اس نام کا کوئی مدرسہ کا وجود نہیں تھا وہ قاری وہی سے واپس ہوئے اور بس اتنا کہا شرافت سے چپ کر یہاں سے نکل جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہو گا ان لوگوں نے کوئی سوال نہیں کیا اور نکل گئے

تیسرا واقعہ

یہ ہمارے محلے کی مسجد میں ہوا اعلان ہوا چندہ کا اس میں علاقے کا ذکر بھی کرتے ہیں بقیہ نماز کے بعد جماعت میں ایک صاحب اسی علاقے کے رہنے والے تھے انہوں نے تعارف کیا تو وہ قابل ذکر بات نہ کر سکے۔ ہماری مسجد کمیٹی نے پھر ہمیشہ کے لئے پابندی لگا دی

چند ضروری گزارشات

1۔ زکوٰۃ کا صحیح ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس کو دینی ہو اس کو حالات معلوم ہوں کہ حقدار ہے کے نہیں۔ یہ نہ ہو حقدار ہوتے ہوئے وہ سب سے لیتے ہوئے خود زکوٰۃ کا صاحب حیثیت بن جائے

2۔ جس طرح زکوٰۃ کا حساب جانفشانی کے ساتھ نکالا جاتا ہے اسی طرح مستحقین زکوٰۃ کو تلاش کر کے دینا بھی افضل ہے

3۔ زکوٰۃ کا حق پہلے اپنے رشتے داروں اور عزیز اقربا اور دوست احباب ہیں

4۔ مدارس زکوٰۃ کے حقدار ضرور ہیں اور ان کو کسی ادارے کی سپورٹ نہیں ہے صرف عوام کے مدد کی ضرورت ہوتی ہے لہذا ان مدارس کی خوب چھان پھٹک کر کے پھر دی جائے۔

4۔ قصہ مختصر یہ کہ آئندہ مسجد میں چندہ لینے والوں سے احتیاط کی جائے اگر تسلی ہو تو دی جائے

فضائل زکوٰۃ۔
زکوٰۃ دینے سے مال بڑھتا ہے اور سود سے مال گھٹتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments