بولو جی تم کیا کیا خریدو گے


اس کہانی کے مطالعے سے پہلے ایک بات واضح کر لیجئیے کہ جہاں جہاں یہ کہانی آپ کو حقیقت لگنے لگے، اسے افسانہ سمجھئیے، اور جہاں جہاں یہ افسانہ محسوس ہونے لگے، اسے حقیقت سمجھئیے۔ چند روز قبل ہم سب کے بلاگ سیکشن میں ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں مصنف نے پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے دنیا کے مختلف ممالک کی مثالیں دیں، ساتھ تھائی لینڈ اور دیگر ممالک میں ”براتھل انڈسٹری“ کے کردار کا بھی اس ضمن میں تزکرہ کیا، اور تجویز دی کہ دیگر لوازمات یعنی شراب، نائٹ کلبز کے ساتھ ساتھ ”سیاحت“ کے فروغ کے لیے پاکستان میں بھی اس کی نہ صرف اجازت دی جائے بلکہ اس کی تھائی سرکار کی طرح سرپرستی بھی کی جائے، اس معاملے کے بارے میں راقم کی رائے مختلف ہے، باقی تجاویز سے توکسی حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے، سوائے ”سیکس ورکر“ والی تجویز کے، آپ اس معاملے کو دوسری طرف سے دیکھ رہے ہے، جبکہ اس معاملے کو ذرا گہرائی سے انسانی سطح پر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔

میری نظر میں انسانیت کی اس سے بڑی توہین اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی، المیہ یہ ہے کہ اس شکنجے میں پھنسی ہوئی مظلوم عورتوں کی اکثریت کو اپنی ذہنی سطح کی وجہ سے اس زندگی کی المناکی اور اس کے دردناک مستقبل کا وقتی طور پر اندازہ بھی نہیں ہوتا، حتیٰ کہ وہ لمحہ نہ آ جائے، جب ان کے سامنے بھی حقیقت اسی شدت اور تکلیف کے ساتھ کھل جاتی ہے، جیسے اپنے کینسر سے بے خبر مریض کو ایک مرحلے پر جا کر اپنے مرض کے بارے میں معلوم ہوتا ہے، لیکن تب وہ کچھ نہیں کر سکتا۔

ان کو نہ سہی لیکن ایک باشعور انسان کو تو ان کی زندگیوں کی اس المناکی کا احساس ہونا ہی چاہیے، میرے ساتھ اپنے تجسس کی وجہ سے، ماضی میں کئی بار یہ واردات پیش آ چکی ہے، کہ کسی ایسی عورت کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا، تو جوں ہی میں نے اس کو ایک انسان کی نظر سے انسان کی حیثیت میں دیکھا، تو وہ سیکس ورکر میرے سامنے سے غائب ہو گئی، کبھی اس کے پاؤں کے انگوٹھے پر لگی آدھی اتر چکی شوخ رنگ کی نیل پالش نے کوئی المیہ کہانی سنا ڈالی، اور کبھی اس کی ایک عورت یا لڑکی ہونے اور معصومیت میں کوئی ایسی بات کر دینے پر جو شاید اس میں باقی خوابوں اور بہتر مستقبل کی امید کو بتاتی ہو، اور مجھے اچھی طرح معلوم ہو کہ اس کا بالآخر کیا انجام ہونا ہے، کبھی میں بھی بے وقوفی یا سادگی میں اس کی معصومیت اور خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے اسے کسی مناسب شخص کے ساتھ گھر بسا کر ایک باعزت زندگی گزارنے کا مشورہ دے بیٹھتا، کہ تم اتنی اچھی ہو کیوں اپنی زندگی کو تباہ کر رہی ہو، یوں اکثر میں ان سے ملاقات کے بعد آنکھوں میں چھپائے آنسو، اور دل میں ان کی مظلومیت کا تکلیف دہ احساس لیے ، کچھ کئیے بغیر، کیونکہ ایک انسان کی حیثیت سے ان کا ان کی بھی انسانی سطح اور مقام کی حیثیت سے جائزہ لینے کے بعد سب کچھ ہو سکتا ہے، ان کے ساتھ سیکس ممکن نہیں رہتا، لہذا میں طے شدہ رقم سے بھی کچھ زیادہ دے کر کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر کچھ باتیں کر کے واپس آ جاتا، اور ان میں سے کچھ انسانی سطح پر میری دوست بھی بن جاتیں، کیونکہ تمام تر حالات اور مشکلات کے باوجود یہ سیکس ورکرز بھی تو انسان ہی ہوتی ہیں، تقریباً ہم ہی جیسی۔

تو ہم کبھی کبھار انسانوں، دوستوں کی طرح ملتے، میں ان سے برابر کے انسانوں اور دوستوں والا سلوک کرتا، ہم ویران سڑکوں پر پھرتے، بچوں جیسی باتیں کرتے، کبھی ان کی فرمائش پر ان کے پینے کو کچھ ہلکا پھلکا انتظام بی کرنا پڑتا، کیونکہ بقول منٹو یہ سچ والی دوا ہوا کرتی ہے، کسی ریسٹورنٹ کے باہر گاڑی میں ہی بیٹھ کر کچھ کھاتے پیتے، میوزک سنتے، ان کے بچے اگر ہوں، ان کی باتیں کرتے، پھر میں ان کے شدید انکار کے باوجود کچھ پیسے ان کے پرس میں ڈال کر ان کو عزت سے ان کی بتائی جگہ پر اتار آتا، لیکن ایسے تعلق کے حتمی اختتام پر ایک بہت پراسرار بات ضرور ہوا کرتی، کہ کچھ عرصے کے بعد وہ کہیں گم ہو جاتیں، ان کے تمام فون نمبر مستقل طور پر بند ہو جاتے، اور وہ اس دنیا کی وسعت اور بھیڑ میں کہیں گم ہو جاتیں، اس تعلق کی وجہ سے میں ممکن حد تک ان کو تلاش کرنے کی کوشش بھی کرتا، لیکن جو اس طرح ایک بار گم ہو گئی، وہ پھرکبھی نہ ملی۔

صرف ایک واقعہ مختلف پیش آیا میں پندرہ بیس سال قبل آزاد کشمیر کے ایک خوشحال شہر میں تعینات تھا، میں وہاں اکیلا رہا کرتا، کہ اسی طرح ایک لڑکی سے ملاقات ہوئی، میں کرائے پر ایک بہت بڑی کوٹھی میں بالکل اکیلا اس کی چوتھی منزل پر رہا کرتا، تو ایک دن وہ لڑکی میرے پاس آ گئی، اسے اپنے ہاتھوں سے بنا کر چائے پلائی، اس کا حسن، شخصیت، اس کے بات کرنے کا طریقہ، اس کا کپڑوں کا انتخاب، بلکہ جو پرفیوم اس نے لگائی ہوئی تھی، وہ بھی انتہائی منفرد قسم کی تھی، اور اپنی بات چیت سے وہ کوئی اعلی تعلیم یافتہ لگ رہی تھی، میں نے دریزہ نظر سے اس کا جائزہ لیا، اس کا سونے کی طرح سنہرا جسم، شہد کی سی قدرتی رنگت لیے بال، میں تو اس کی شخصیت اور حسن سے مسحور ہو گیا، لیکن ساتھ ہی میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اتنی خوبصورت، شخصیت کی لڑکی کو وہ کیا مشکل یا ضرورت پیش آئی کہ وہ مجھ جیسے عام سے انسان کے پاس آ جانے پر مجبور ہو گئی، خیر وہی ہوا جو ہمیشہ میرے ساتھ ایسے موقعوں پر ہوا کرتا ہے، اس کے بارے میں میرے دل سے مکمل طور پر سیکس اور جنس کے خیالات ختم ہو گئے، ہم باتیں کرنے لگے، دنیا بھر کی، میں نے اس سے بڑی سنجیدگی سے درخواست کی کہ مجھے اس کے ساتھ سیکس نہیں کرنا، وہ مسکرا کر بولی، تو کیا کرنا ہے، میری کیفیت کا آپ میرے جواب سے اندازہ لگا سکتے ہیں، میں نے اس سے کہا کہ بس مجھے اپنے دوستوں میں شامل کر لو، چاہے پھر کبھی نہ ملنا، لیکن ایک وعدہ کرو جب بیس پچیس سال کے بعد تم بوڑھی ہو جاؤ گی، تب میرے پاس آنا، میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ ہم دونوں بڑھاپے میں ایک بار اکٹھے کہیں بیٹھ کر کافی پئیں، وہ حیران سی ہو گئی اور بالکل سنجیدہ ہو کر میری طرف دیکھنے لگی، اس کی خوبصورت آنکھیں مجھے کسی گہری سوچ میں ڈوبی لگ رہی تھیں۔

ایک اور بات جو مجھے ایسے یاد ہے جیسے ابھی کی بات ہو کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں بہت ہی زیادہ خوبصورت تھے، ہم ساتھ ساتھ بیٹھے تھے، میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، اور اس سے کہا کہ دیکھو میں شادی شدہ ہوں میرے بچے بھی ہیں، جن سب سے میں بہت محبت بھی کرتا ہوں، اور ان سے میری محبت کا تقاضا ہے کہ انھیں راستے میں نہ چھوڑوں، ورنہ آج میں نے تم کو واپس نہیں جانے دینا تھا، چاہے آسمان گر پڑتا، تم چاہتیں یا نا چاہتیں، میں زبردستی تم کو اپنا لیتا، اس کا ہاتھ پکڑے پکڑے میں نے اسے کہا کہ یار ایک مخلص دوست کی حیثیت سے مشورہ دیتا ہوں، کہ کسی انگلینڈ والے سے ہی شادی کر لو، اتنی پیاری ہو، ہیرے جیسی، اپنی زندگی خراب نہ کرو، تم تو کسی کے دل پر حکومت کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہو، پلیز کسی سے بھی شادی کر لو۔

میری یہ بات سن کر اس کی آنکھیں جھک گئیں مجھے اس کی لمبی لمبی پلکیں یاد ہیں، اس نے بہت آہستگی کے ساتھ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھڑا لیا، اس کے بعد ہم کچھ دیر اور باتیں کرتے رہے لیکن اس کی کیفیت میں کچھ عجیب سی تبدیلی آ چکی تھی، اور کچھ دیر کے بعد اس نے کہا، بہت دیر ہو گئی ہے، مجھے چھوڑ آؤ، میں نے اسے گفٹ کے نام پر ایک معقول سی رقم دینے کی کوشش کی، تو اس نے نظریں اٹھا کر مجھے اس نظر سے دیکھا، کہ میں اس حرکت پر اپنی نظروں میں ہی گر گیا۔

بہر حال پھر میں اس کو جہاں اس نے کہا، چھوڑ آیا، لیکن عجیب بات ہوئی کہ وہ کبھی کبھی شہر میں نظر آتی، کبھی کسی شاندار گاڑی میں، کبھی کہیں شاپنگ کرتے ہوئے، لیکن میرا فون نہ وہ اٹینڈ کرتی نہ وہ نظر اٹھا کر میری طرف دیکھتی۔ وقت گزرتا گیا اور ہمارا پراجکٹ پایہ تکمیل کو پہنچا، تو میں واپس اپنے محکمے میں وادی نیلم آ گیا، پانچ سال اور گزر گئے، ایک روز میں وہاں ریسٹ ہاؤس کے سٹاف روم میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا، کہ میرے فون پر اس کی کال آئی، مجھے پہلے تو یقین نہ آیا، پھر کال اٹینڈ کی، وہی تھی، ویسی ہی کھنکتی ہوئی خوبصورت آواز، میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی، تو وہ بولی مجھے کچھ کہنے دو۔

اس نے کہا کہ تم حیران ہو گے کہ میں نے تو اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی، تو اس نے مجھے کیوں اگنور کرنا شروع کر دیا، اس نے کہا آج میں تم کو اس بات کا جواب دوں گی، تم نے مجھے کہا تھا، کہ اتنی پیاری ہو، کیوں اپنی زندگی تباہ کر رہی ہو، کسی سے شادی کر لو، حیرت انگیز طور پر اسے اس ملاقات کا ایک ایک حرف اسی ترتیب سے یاد تھا، اس نے کہا کہ میرے کیا حالات تھے، کیا مجبوریاں تھیں تم ان سے واقف نہ تھے، نہ میں نے تم کو بتانا مناسب خیال کیا، لیکن تمہارے لہجے میں جو خلوص تھا، اس نے مجھ پر گہرا اثر کیا، لیکن ان حالات میں یہ ممکن نہ تھا۔

اس لیے میں پھر تمہارا سامنا نہ کر سکی، تم نہ جانے کیا سوچتے ہو گے، آج اس لیے تم کو فون کیا ہے، کہ تم کو بتاؤں، کہ جو تم مجھے کہا کرتے تھے، کہ کہیں شادی کر لوں، تو میں نے شادی کر لی ہے، اور ہم اگلے ہفتے ہمیشہ کے لیے کینیڈا جا رہے ہیں، اس کی بات سن کر اس سے ہوئی، ملاقات کا ایک ایک پل سامنے آ گیا، پتہ نہیں کیسی کیفیت طاری ہو گئی، اس سے یہ بات سن کر، میرے منہ سے اتنا ہی نکلا، اپنے شوہر کے ساتھ آؤ نا وادی نیلم، وہ کھلکھلا کر بولی، کس لیے ، میں ابتدائی جھٹکے سے کچھ بحال ہو چکا تھا، تو اسے کہا کہ بھئی نیلم کی شیشے کی طرح، شفاف برفانی پانی والی ندیاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں، کہ تم آؤ اور ان پانی میں اپنے گورے گورے پیر ڈبو کر ان کے کنارے بیٹھو، یہ بات کہتے ہوئے میرے تصور میں اس کے خوبصورت مہکتے ہاتھ، اور گورے، گدگدے سے خوبصورت پیروں کا خیال آ گیا، چند لمحے وہ خاموش رہنے کےبعد وہ آہستہ سے بولی , تم مجھے جانے نہیں دو گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments