انڈیا میں غیر قانونی تعمیرات کے نام پر مسلمانوں کی املاک مسمار کرنے کے سلسلے میں تیزی
نیاز فاروقی - بی بی سی، نئی دہلی
گذشتہ ہفتے جب جاوید محمد اترپردیش کے پریاگ راج میں فسادات پھیلانے کے الزام میں پولیس حراست میں تھے تو بندوقوں، لاٹھیوں اور بلڈوزروں سے لیس مقامی انتظامیہ ان کے دروازے پر آئی اور ان کا مکان منہدم کر دیا۔
برسوں میں بنایا گیا مکان چند ہی گھنٹوں میں اینٹوں اور پتھروں کا ڈھیر بن گیا۔
انتظامیہ نے ان کے گھر پر ایک روز پہلے چسپاں نوٹس کے ذریعے الزام لگایا کہ مکان غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔
تاہم ان کے وکلا نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ گھر خود جاوید کا بھی نہیں ہے بلکہ یہ ان کے سسر نے ان کی بیوی کو شادی کے تحفے کے طور پر دیا تھا۔
جاوید کے گھر کو مسمار کرنا انڈیا میں کسی مسلمان کے ساتھ ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات حالیہ مہینوں میں بی جے پی کی حکومت والی اور ریاستیں جیسے آسام، دہلی، گجرات اور مدھیہ پردیش میں بھی ہوئے ہیں۔
ان میں چند ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے مجرموں کے مکانات بھی گرائے گئے ہیں لیکن متاثرین کی اکثریت عام مسلمانوں کی ہے اور ان میں سے زیادہ تر معاملات میں انتظامیہ نے ان تعمیرات کو توڑنے کا جواز ان کا ’غیر قانونی‘ ہونا بتایا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں غیر قانونی تعمیرات عام ہیں، چاہے وہ کسی بھی خطے میں ہوں، یا کسی بھی مذہب و سماجی طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کی ہوں۔
اس صورت میں کسی ایک شخص یا کسی ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مکانات کو منہدم کرنا کئی سوالات پیدا کرتا ہے۔
ماہر سیاسیات عاصم علی کا کہنا ہے کہ ان مسماریوں کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے۔ اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گھر کو گرانے کا عمل خاص طور پر سفاکانہ ہے کیونکہ گھر سلامتی کی علامت ہوتے ہیں۔ ایک گھر بنانے میں پوری زندگی ختم ہو جاتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ریاست کی پوری مسلم سول سوسائٹی کے لیے پیغام ہے کہ آپ اپنے شہری اور سیاسی حقوق کے لیے دباؤ ڈالنا بند کریں۔‘
جس وقت جاوید کا گھر مسمار کیا جا رہا تھا، میڈیا لمحہ بہ لمحہ اس کی خبریں نشر کر رہا تھا۔
ایک ٹی وی چینل نے ان کے گھر سے برآمد ایک پوسٹر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’اس پوسٹر میں ایک کہانی چھپی ہوئی ہے۔‘ پوسٹر میں امریکی صدر تھامس جیفرسن کا انگریزی میں ایک قول لکھا ہوا تھا ’جب ناانصافی قانون بن جائے تو بغاوت فرض بن جاتی ہے۔‘
جاوید کی بیوی اور بیٹیاں، جن کا اب اپنا کوئی گھر نہیں ہے، اسے ٹی وی پر دیکھ رہی تھیں۔ بعد ازاں ان کی بیٹی سمعیہ فاطمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی فیملی برسوں سے گھر کے ٹیکس اور پانی کے بل ادا کر رہی ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مکان مکمل طور پر قانونی ہے۔
وکلاء کے ایک گروپ نے انہدام کے خلاف الہٰ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا لیکن عدالت نے ان کی سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل سنجے ہیگڑے نے ان اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’موجودہ قانون میں ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ کسی مشتبہ شخص کے گھر پر بلڈوزر چلا دیا جائے۔
’حکومت کا کہنا ہے کہ میونسپل کارپوریشن سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کے باعث بلڈوزر چلایا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کے باوجود بھی حکومت کو نوٹس اور نوٹس کے بعد سنوائی کا موقع دینا چاہیے۔‘
گذشتہ ماہ بی بی سی کی ایک ٹیم نے مدھیہ پردیش کے کھرگون ضلع کا دورہ کیا جہاں اپریل میں نوراتری کی تقریبات کے دوران فسادات ہوئے تھے۔ مقامی مسلمانوں نے الزام لگایا کہ ہندو جماعتوں نے ریلیاں نکالیں جو ایک مسجد کے باہر کھڑی ہو گئیں اور لاؤڈ سپیکر پر توہین آمیز گانے چلائے گئے۔
کچھ ہی دیر میں پتھراؤ شروع ہو گیا اور یہ فساد کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ پتھراؤ کس نے شروع کیا لیکن پولیس نے کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔
مقامی افراد نے بتایا کہ 24 گھنٹوں کے اندر حکام نے فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں مسلمانوں کے مکانات اور املاک کو مسمار کرنا شروع کر دیا۔ دی ہندو اخبار کے مطابق انتظامیہ نے محض 24 گھنٹوں کے اندر 45 مکانات کو مسمار کر دیا۔
ان میں امجد خان کی ایک بیکری بھی تھی۔ ان کے مطابق مقامی طور پر وہ وہاں کے نسبتاً اچھے کاروباریوں میں سے ہیں اور ان کی بیکری میں سالانہ 20-25 کروڑ روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔
فسادات کے دو روز بعد ہنگامہ آرائی کے الزام میں پولیس ان کی بیکریوں اور مکان کو مسمار کرنے لیے پہنچی۔ اُنھوں نے اس کی مخالفت کی۔
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان لوگوں کو کوئی کنفیوژن ہوا تھا؟ امجد بیکری والے کے نام سے [اخبار] میں کوئی رپورٹ آئی تھی۔ کھرگون میں 5 امجد بیکریاں ہیں۔ اُنھیں لگا کہ وہ میں ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیے
’مرد کانسٹیبل نے میری ماں کو گالی دی۔۔۔ میرے ابو راتوں رات تشدد کیس کے ماسٹر مائنڈ کیسے بن گئے؟‘
انڈیا: ’پولیس کریک ڈاؤن میں مسلمانوں کے گھر منہدم کرنا غیر قانونی ہے‘
پیغمبر اسلام سے متعلق متنازع بیان: یو پی میں 255 مظاہرین گرفتار، مسلمانوں کے مکانات منہدم
قطب مینار: انڈیا کا سب سے اونچا مینار متنازع کیوں ہے؟
محض ایک روز قبل ایک مقامی اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے کسی کی شکایت پر ایک امجد نامی شخص کے خلاف ہنگامہ آرائی کا مقدمہ درج کیا ہے۔ امجد خان نے افسروں کو سمجھایا کہ جن پر مقدمہ ہوا ہے وہ امجد کوئی اور ہیں۔
امجد خان کہتے ہیں کہ ’تب اُنھوں نے میرا مکان اور میری دو بیکریاں چھوڑ دیں لیکن ایک بیکری توڑ دی۔‘
شام تک دوسرے امجد کی بیکری کو بھی مسمار کر دیا گیا۔
امجد خان کا کہنا ہے کہ ’اُنھوں نے غیر قانونی تعمیر کے نام پر یہ سب کرفیو کے دوران توڑا۔‘
وہ افسردہ ہو کر کہتے ہیں کہ ’دراصل پولیس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں بھیڑ کو کنٹرول کرنے میں ان کی مدد کروں۔‘
جب بی بی سی نے ان کی منہدم شدہ بیکری کا دورہ کیا تو وہ اسے دوبارہ تعمیر کر رہے تھے۔ اُنھوں نے اپنے کارخانے کے ملازموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے تقریباً 400 لوگوں کو ملازمت دی ہے، جن میں سے 300 سے زیادہ لوگ مقامی ہندو ہیں۔ وہ اب بے روزگار ہیں۔ میں نے کووڈ-19 کے دوران مذہب دیکھے بغیر لاکھوں کا راشن تقسیم کیا۔ اور کیا ملا مجھے؟‘
سنجے ہیگڑے کہتے ہیں کہ ’یہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بلدیہ کی قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے نہیں ہو رہا، یہ کسی شخص کے احتجاج یا کسی اور واقعے میں شامل ہونے کے شک میں بدلے کی کارروائی ہے۔ یہ سراسر غیر قانونی ہے۔‘
لیکن بلڈوزر کے نام پر سیاست انڈیا کے ایک بڑے طبقے میں مقبول نظر آتی ہے۔ بی جے پی نے اسے مافیا کے خلاف کارروائی کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس نے چند ہندو عقیدے کے مجرموں کے مکانات اور املاک کو مسمار کیا ہے لیکن غیر متناسب طور پر متاثرین کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔
کم از کم اتر پردیش میں، جہاں اس سال کے شروعات میں ریاستی انتخابات ہوئے تھے، ووٹروں نے بی جے پی کو فتح یاب کر کے اس طرح کی سیاست کا صلہ دیا۔ ان انتخابات میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خود کو بلڈوزر بابا کہا اور چند ریلیوں میں بلڈوزروں کی نمائش بھی کی۔
بی جے پی کے ایک اور وزیر اعلیٰ نے اس سیاست کو کارآمد پایا ہے۔ اب مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان جو پیار سے ماما کے نام سے جانے جاتے تھے، اب خود کو بلڈوزر ماما کہتے ہیں۔
اس حکومت کے ناقدین کا الزام ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں مسلمانوں کے خلاف مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔ گائے کے تحفظ اور ’لو جہاد‘ کے نام پر تشدد کے واقعات بارہا رونما ہوئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو مسلمانوں کے کھانے کے انتخاب، معاش اور رشتوں پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
عاصم کہتے ہیں، ’مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کر کے ریاست اُنھیں بتا رہی ہے کہ وہ تمیز میں رہیں یا اُنھیں سزا دینے کے لیے غیر آئینی طریقے آسانی سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ آئین یا عدلیہ انھیں نہیں بچائیں گے۔‘
بہت سے سیاسی رہنماؤں اور وکلا نے ان اقدامات پر تنقید کی ہے لیکن تاحال اس کا کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں نکلا۔ کئی افراد اور تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا ہے لیکن ان کی درخواستیں سماعت کے منتظر ہیں۔
- صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ - 17/04/2024
- پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟ - 17/04/2024
- اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نتن یاہو کو؟ - 17/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).