پٹرول اور توانائی پر لگتے ڈالر اور حکومتی بے حسی


پاکستان کا درآمد برآمد کا تناسب خراب ہونے میں ایک اہم عنصر پٹرول اور گیس وغیرہ کے درآمدی بل کا ہے۔ حکومت پاکستان کے بیورو آف سٹیٹسٹکس کے تیار کردہ 2020 / 2021 کے درآمدی ڈیٹا کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کا کل درآمدات میں 20 فیصد حصہ تھا۔ یاد رہے کہ یہ وہ سال تھا جب کرونا کی وجہ سے بہت سی معاشی سرگرمیاں بند تھیں۔ 56 ارب ڈالر کی درآمدات میں 11 ارب ڈالر کا تیل گیس وغیرہ شامل تھا۔ اس سال پٹرول کی قیمت بھی بڑھی ہے اور ڈالر کی بھی، یعنی ہماری معیشت پر تیل گیس کی درآمد کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔ نقل و حمل کے علاوہ بجلی کی پیداوار میں بھی تیل گیس کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اس خرچے کو کم کرنے کے لیے کیا کر رہا ہے؟

سب سے پہلے تو بجلی کو دیکھتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پن بجلی کا پیداوار میں حصہ کم ہوتا جائے گا اور تیل، گیس اور کوئلے سے بجلی کی پیداوار کا حصہ بڑھتا جائے گا۔ پاکستان جس خطے میں واقع ہے، وہاں سورج کی روشنی اور ہوا سے بجلی کی زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ حکومت اس شعبے میں لگانے کے لیے سرمایہ نہیں رکھتی تو یہ تو کر سکتی ہے کہ شہریوں کو سولر اور ہوائی بجلی پیدا کرنے والے یونٹ آسانی سے خود خریدنے کی سہولت فراہم کرے۔ انہیں سستے قرضے دے۔ شمسی پینل اور ہوئی چکیوں کی پہلے مرحلے میں درآمد اور دوسرے میں ملکی پیداوار کے منصوبے بنائے جائیں۔ یوں بجلی کی گھریلو اور کسی حد تک نجی صنعتی پیداوار بھی اچھے پیمانے پر شروع ہو سکتی ہے۔ یعنی دریائی پانی ہو یا نہ ہو، شہریوں کو ان کی اپنی پیدا کردہ مفت بجلی ملے گی۔ سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت نے آنے والے بجٹ میں شمسی پینل پر 17 فیصد سیلز ٹیکس ختم کر دیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت قسطوں پر ان کی فراہمی ممکن بنائے؟

ترقی یافتہ ممالک میں ایک لیٹر میں پچیس تیس کلومیٹر کرنے والی ہائبرڈ گاڑیاں عام ہیں۔ ہمارے ہاں گاڑی بارہ پندرہ کلومیٹر کر لے تو ہم خوشی سے بے حال ہو جاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت نے گاڑیوں کی صنعت کو جدید کرنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب نہیں دیا۔ اگر گاڑیاں جدید ٹیکنالوجی کے مطابق بنائی جائیں تو ان میں آدھا تیل خرچ ہو گا۔ اب ترقی یافتہ ممالک ایک قدم آگے بڑھ کر بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنا رہے ہیں۔ یعنی تیل کی آدھی بچت ممکن ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد اور پیداوار ترجیحی بنیادوں پر کی جائے تو ہم اس سیکٹر میں بھی تیل کی اچھی بھلی بچت کر سکتے ہیں۔ اور اگر شہری شمسی توانائی خود پیدا کر رہے ہیں تو اپنے سسٹم سے چارج کر کے یہ گاڑیاں چلانا بھی انہیں مفت میں پڑ سکتا ہے۔ الیکٹرک بائکس اور سکوٹر کی درآمد اور پیداوار کو ترجیحی بنیاد پر شروع کیا جائے تو غریب طبقات کو دو دو ہزار کی ریلیف دینے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔ انہیں ایک اچھا شمسی پینل دن کے سو دو سو کلومیٹر مفت میں طے کروا دے گا۔

اس کے بعد آتے ہیں گیس سے چلنے والے آلات پر۔ ترقی یافتہ ممالک میں چولہے اور ہیٹر وغیرہ بجلی سے چلتے ہیں۔ شمسی اور ہوائی توانائی سے بجلی پیدا ہو رہی ہو تو وہاں بھی گیس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ دوسری طرف جو گیسی مصنوعات پاکستان میں تیار اور استعمال کی جاتی ہیں، ان میں گیس کے استعمال اور ضائع ہونے کی کیا شرح ہے؟ آپ ایک دس ہزار والا پاکستانی گیس ہیٹر لیں، اور دوسرا تیس پینتیس ہزار کا درآمدی گیس ہیٹر۔ دونوں میں گیس کے استعمال کی شرح میں بہت زیادہ فرق ہے۔ درآمدی ہیٹر میں گیس کا استعمال اتنا کم ہے کہ وہ تقریباً مفت پڑتا ہے۔ کیا یہ اتنی مشکل ٹیکنالوجی ہے کہ پاکستان میں ایسے ہیٹر بنانا ممکن نہیں؟ ہم انسٹنٹ گیزر تو محدود پیمانے پر استعمال کرنے لگے ہیں، لیکن ابھی بھی بڑے پیمانے پر گیس ضائع کرنے والے گیزر استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کی جگہ بھی ہائبرڈ سولر الیکٹرک گیزر لے سکتے ہیں۔

ایسی ہی دیگر بے شمار جگہیں ہوں گی جہاں تیل اور گیس کا استعمال کم یا ختم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی حکومتیں ان سے بے اعتنائی کیوں برت رہی ہیں؟ آسان درآمد، تیاری اور خریداری کے لیے نظام بنایا جائے تو سولر یا ہوائی بجلی کے استعمال کو محض ایک دو سال میں اچھا بھلا فروغ دیا جا سکتا ہے اور حکومت کا اس پر کوئی خاص پیسہ بھی خرچ نہیں ہو گا۔

لیکن پاکستانی حکومتیں بے نیاز ہوتی ہیں۔ انہیں شہریوں کو راحت پہنچانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ وہ شہری کو پانچ لاکھ کا ایسا سولر یا ہوائی سسٹم نہیں دلوائیں گی جو اپنی قیمت چار پانچ سال میں پوری کر لے اور اس کے بعد محض بیٹریوں کی تبدیلی کے ساتھ نصف صدی سے زیادہ مدت تک چلتا رہے، لیکن انہیں لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں بٹھا کر اور مہنگی ترین بجلی دے کر انہیں ایک عذاب میں مبتلا رکھتی ہیں۔ کیا عام گھرانوں کو پانچ دس لاکھ کا قرضہ دینا بینکوں کے لیے واقعی اتنا مشکل ہے؟ کیا ان ٹیکنالوجیز کا فروغ حکومت کے لیے بہت بڑی آزمائش ہے؟ آئی ایم ایف حکومت پر پٹرول اور بجلی وغیرہ کی سبسڈی ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ حکومت متبادل توانائی کی پیداوار اور خریداری کے ذرائع پر سبسڈی تو دے سکتی ہے۔

یہ ایک عام آدمی کے خیالات ہیں اس موضوع پر توانائی اور معیشت کے ماہرین اور انجینئیرز کو لکھنا چاہیے، وہ حکومت کی راہنمائی بھی کریں اور اس پر دباؤ بھی ڈالیں۔ ورنہ پھر بجلی اور تیل ہم عام شہریوں اور حکومت کے بجٹ کا اتنا حصہ کھا جائیں گے کہ ہمارے پاس کھانا کھانے کو پیسہ نہیں بچے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments