کتاب ”رموز شعر“ پر تبصرہ


رموز شہر
مصنف: احمد حسین مجاہد
صفحات: 245
قیمت: 300 روپے
ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان، پطرس بخاری روڈ، اسلام آباد

”رموز شعر“ کے مصنف اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر، نثر نگار اور ماہر عروض جناب احمد حسین مجاہد ہیں۔ یہ کتاب نو آموز شعراء کی رہنمائی کی غرض سے تحریر کی گئی ہے اس میں احمد حسین صاحب نے آسان اور علم فہم انداز اختیار کیا ہے۔

اکادبی ادبیات نے نواردان شوق کی رہنمائی کے لیے کتابوں کی اشاعت کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ ”رموز شعر“ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ باب اول جس کا عنوان ”سحر حلال“ ہے میں مصنف کا کہنا ہے کہ شعر میں یہ الہامی کیفیت کچھ یونہی نہیں پیدا ہوجاتی بلکہ اس کے پیچھے شاعر کی برسوں کی ریاضت ہوتی ہے۔

خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت

اس باب میں مصنف نے شاعری کے مختلف ادوار کی تاریخ بیان کی ہے اور آخر میں شاعری کو علم بھی قرار دیا ہے اور فن بھی۔ باب دوم میں لغوی، اور اصطلاحی حوالے سے شعر کی تعریف کی گئی ہے اور مختلف ناقدین کی شعر کی بابت رائے نقل کی گئی ہیں۔ اسی باب میں فن شاعری کی اصطلاحات مصرع، مطلع، مقطع، تخلص، قافیہ، حروف قافیہ، ردیف کی مختصر تعریف اور مثالیں پیش کی گئی ہیں پھر اصناف، حمد، نعت، غزل، قصیدہ، رباعی، گیت، مثنوی، قطعہ، نظم، پابند نظم، آزاد نظم کی تعریف، مثالیں اور کچھ اصناف کی تقطیع بھی دی گئی ہے۔

باب سوم ”شاعر اور منصب شاعری“ میں احترام اساتذہ، تخیل، محاکات، جذبہ، خوبی خیال و بیاں کے عنوان سے مختصر مضامین ہیں جس میں مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ شاعر کا منصب اک ایسا منصب ہے کہ اس پر فائز ہونے کے بعد کچھ چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جیسا کہ اساتذہ کرام کا ادب اور احترام کرنا، اک شاعر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ پہلے گزرے ہوئے شعرا کا مذاق اڑائے یا ان کی تخفیف کرے۔ شاعر کا کام ہے کہ وہ اپنے تخیل سے بہتر کام لے، اس کے علاوہ محاکات کی تعریف اور مثالیں دی ہیں۔

نیز شعری امثال کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی چیز، تصور، کیفیت یا حالت کا ایسا شاعرانہ بیان کہ اس کی جیتی جاگتی تصویر قاری یا سامع کی نظروں میں متحرک ہو جائے محاکات کہلاتا ہے۔ نیز تخلیقی عمل میں تخیل اور محاکات کے بعد جذبہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ شاعری میں ”خوبی خیال و بیان“ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ مصنف نے خوبی خیال بیان میں، سادگی، اصلیت، جوش، عظمت خیال، طنز، ایجاز اور تجسیم کو ضروری قرار دیا ہے۔

باب چہارم ”فصاحت و بلاغت“ میں ضعف تالیف، تعقید، تنافر توالی اضافات، تکرار، غرابت کی تعریف پیش کی گئی ہے۔ نیز آسان لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ فصاحت و بلاغت میں ان اصطلاحات کی کیا ضرورت اور اہمیت ہے۔ اسی باب میں علم بیان کیا ہے؟ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور علم بیان کے اجزائے ترکیبی، تشبیہ، استعارہ، مجاز مرسل، کنایہ کی تعریف و امثال پیش کی گئی ہیں۔ نیز علامت کی تفصیلی وضاحت کی گئی ہے۔ بدیع کی تفصیلی تعریف کے تحت، صنائع لفظی، تجنیس، قلب، صنعت اشتقاق، تنسیق الصفات، صنعت ذوالقوافی، صنعت سیاقتۃ الاعداد، صنعت منقوطہ، صنعت غیر منقوطہ، صفت تلمیح، صفت تضمین کی تعریف اور مثالیں پیش کی گئی ہیں تاکہ نوآموز شعراء ان تمام اصطلاحات کو اچھی طرح سمجھ کر ان سے استفادہ کرسکیں۔

صنائع معنوی کے تحت، صنعت تضاد، صنعت متحمل الضدین، صنعت ایہام، صنعت حسن تعلیل، صنعت، مراعاۃ النظیر، صنعت لف و نشر، صنعت جمع، صنعت تفریق، صنعت مبالغہ، صنعت تلمیح، تجاہل عارفانہ، صنعت عکس، صنعت تکرار، صنعت تعجب، صنعت تصلیف، صنعت سوال و جواب، صنعت سہل ممتنع، صنعت احتجاج بدلیل، صنعت متتابع، کی آسان مفہوم میں تعریف اور مثالیں پیش کی گئی ہیں۔

اسی باب میں روزمرہ اور محاورہ کے تحت روزمرہ اور محاورہ کی مختلف تعریفیں نقل کی گئی ہیں اور کئی مستند کتابوں کے حوالے بھی موجود ہیں۔ ”ضرورت شعری“ میں ان اشعار کی امثال موجود ہیں جن میں شاعر نے وزن یا قافیہ نبھانے کے لیے لفظ کے تلفظ یا املا میں تبدیلی کردی ہے۔ ”امالہ“ کے عنوان کے تحت مختلف شعراء کے مشہور شعروں سے امالہ قبول کرنے والے لفظوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

باب پنجم ”عروض“ ہے۔ فن شعر کی بنیاد علم عروض پر مبنی ہے۔ اس باب میں مصنف نے ان عروضی حروف تہجی کی مکمل وضاحت کی ہے۔ متحرک و ساکن کا فرق، اصول سہ گانہ، سبب، وتد، ثقیل کی تفصیل بیان کی ہے نیز، عروضی اصطلاحات، ارکان افاعیل کا بیان اور مختلف بحروں کے ارکان افاعیل دیے گئے ہیں تاکہ نو آموز شعراء ان بحور اور اوزان سے واقفیت حاصل کرسکیں۔ اجزائے بیت کے تحت زحاف اور اس کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔

عروض کی اصطلاحات کے بعد مصنف نے تقطیع کی تعریف کی ہے اور مختلف اشعار کی تقطیع کی مثالیں پیش کی ہیں۔ بحر ہزج اور اس کی مختلف اقسام، بحر رمل اور اس کی مختلف اقسام، بحر کامل اور اس کی اقسام، بحر متقارب اور اس کی مختلف اقسام، بحر متدارک اور اس کی اقسام کو مصنف نے شعری امثال اور ارکان افاعیل کے تحت بیان کیا ہے۔ ”بحور مرکبہ“ کے تحت مختلف بحور اور ان کے افعال کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔

باب ششم ”عیوب سخن“ کے تحت مصنف نے شعر میں جن چیزوں کی پابندی کی ہے ان کی وضاحت کی ہے۔ مثال کے طور پر ”عیوب قافیہ“ میں تحریف روی، ایطائے جلی، ایطائے خفی کی وضاحت کی ہے۔ عیوب ردیف میں، شکست ناروا، شتر گربہ، سقوط حروف علت، حروف ندا، حرف عطف و تردید، تنافر، حشو، ذم کا پہلو، اصافت، اخفائے نون یا اعلان نون، واؤ معروف اور واؤ مجہول کے عنوان کے تحت مصنف نے یہ وضاحت کی ہے کہ شعر میں کیا چیزیں نہیں ہونی چاہئیں۔ ”زبان کا اختلاف“ میں مصنف نے لکھنؤ اور دہلی میں جو لفظ مذکر اور مؤنث اور مختلف معنوں میں استعمال کیے ہیں ان کی مثالیں دی ہیں۔ آخر میں مصنف نے نو آموز شعراء کو مسلسل مشق کا مشورہ دیا ہے۔

درحقیقت مصنف نے عروض اور علم بیان کی مختلف کتابوں اور مقالوں سے استفادہ کیا ہے۔ ہر باب کے آخر میں حواشی بھی درج ہیں۔ اپنے موضوع ”رموز شعر“ کے اعتبار سے یہ نو آموز شعراء کی ایک حد تک رہنمائی ضرور کر سکتی ہے۔ مصنف نے اس موضوع سے انصاف کرنے کی کوشش کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments