اگر بہن سے بھائی جنسی زیادتی کرے تو؟


سوال بہت کڑوا ہے، شاید زہر ہلاہل جیسا۔

لیکن کیا کریں کہ اس سوال سے اٹھنے والی سڑاند سے اب ہمارا دم گھٹا جاتا ہے۔ پہلے تو یہ جان لیجیے کہ یہ سوال ہر گز ہمارے ذہن کی اختراع نہیں۔ یہ مسئلہ معاشرے کی ان بچیوں نے ہمارے سامنے رکھا ہے جو اس کا شکار ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس سوال کے پیچھے جو بھیانک حقیقت کسی آئس برگ کی طرح پوشیدہ ہے، وہ آپ بھی سمجھ لیں۔

ہم پچھلے تین برسوں سے معاشرے میں ریپ ہونے والی عورتوں اور بچیوں کا رونا رو رہے ہیں۔ کسی کے سر پہ آج تک جوں نہیں رینگی اس لیے کہ ہمارے معاشرے کے حکمرانوں اور علما نے اس کا ملبہ عورت، اس کے لباس، اس کی تعلیم، آزادی اور کیرئیر پہ ڈالا ہے۔ ہر بات کا جواب یہ ہے کہ باہر کیوں نکلی؟

سو بیشتر کی نظر میں حل یہ ہے کہ عورت کو سات پردوں میں ملفوف کر کے گھر سے نکالو، پھر ریپسٹ اس پردے کا لحاظ کرتے ہوئے بے پردہ عورت کی طرف لپکے گا۔ کچھ کے خیال میں عورت کو باہر نکالنے کی ضرورت نہیں، گھر کی دیواروں کے پیچھے مقفل رکھا جانا چاہیے، محفوظ رہے گی۔ اگر پہلے سے دیواروں کے پیچھے مقید ہے تو ان کو مزید بڑا کر دینا چاہیے، کھڑکیوں پر جالیاں اور دبیز پردے اور دروازوں پہ قفل ڈال دیے جائیں اور ان کی چابی گھر کے مرد کے پاس ہونی چاہیے۔

یہ کہتے ہوئے وہ دو باتیں بھول جاتے ہیں کہ عورت کو قبر میں لٹا کر کون سا تالا لگائیں گے؟ اور دوسری بات یہ کہ جس کے پاس تالے کی چابی ہے اگر وہی جنسی تعلق قائم کر لے تو؟

اور ہمارا سوال اسی حقیقت سے جڑا ہوا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے اس بارے میں ہم نے لکھا تھا جب پنڈی کے تین بھائیوں نے اپنی بہن سے تعلق بنا کر اسے حاملہ کیا تھا۔ ہم نے لاہور میں کسی باپ کے بارے میں بھی لکھا تھا جس نے اپنی بیٹی پہ ہاتھ صاف کر لیا تھا۔ لیکن معاشرے کے بیشتر افراد نے ہماری بات پڑھ کر یہ کہتے ہوئے سنی ان سنی کر دی۔

جانے ایسا کہاں ہوتا ہو گا؟
شاید نچلے طبقے میں ایسا ہوتا ہو۔
جو آگ لگی ہے وہ ہمارا گھر نہیں ہو سکتا۔
نہیں ہمارے گھر کے مرد ایسے نہیں کر سکتے۔

یہ رد عمل دیتے ہوئے زیادہ تر نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ کیوں؟ ان کا گھر کیوں نہیں؟ صرف نچلے طبقے کا کوئی گھر ہی کیوں؟

جب مرد جانور بنتا ہے تو کسی بھی گھر میں رہنے والا بن سکتا ہے۔ کسی بھی گھر کا کوئی بھی مرد یا لڑکا گھر کی بچی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، سوچ کر یا بے سوچے سمجھے۔ جہالت اور گمراہی سے یا شعور کی تاریک راہوں پہ چل کر۔

چلیے اب ہم سوال والدین کے سامنے رکھے دیتے ہیں۔

اگر آپ کو علم ہو جائے کہ آپ کا بیٹا آپ کی بیٹی یعنی بہن کے ساتھ جنسی زیادتی کر رہا ہے تو آپ کیا کریں گے؟

یہ سوال اپنی ذات میں ہی ایک زہر بجھا ہوا نشتر ہے جو کلیجے کے آر پار ہو جاتا ہے۔
بیٹا اور اپنی بہن کے ساتھ۔

ماؤف ہو جائے گا نا ذہن کہ ایک طرف بیٹا ہے جو حدود کی خلاف ورزی میں مشغول ہے اور دوسری طرف بیٹی جس پہ اپنے ہی گھر میں جنسی تشدد ہو رہا ہے۔

بیٹی کو اس کی معصومیت، کم عمری، خوف، ڈر، احساس گناہ، شرمندگی، ذلت، دباؤ، دھمکیاں، خونی رشتے کے بھرم ٹوٹنے کی تکلیف، اپنی ہی چھت تلے دھوکہ، ماں باپ سے تکلف اور دوری، اپنی بات نہ سمجھے جانے کا احساس آواز بلند کرنے ہی نہیں دیتا۔

ہمارے یہاں بیٹیوں کو گھروں میں عدم اعتماد اور خوف و ہراس کی فضا میں پالا جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات میں یوں مقید کر دی جاتی ہیں کہ اپنے آپ سے ہی شرمندہ ہوتی رہیں۔ بوجھ اور ان چاہی مخلوق کا تصور انہیں جیتے جی دفن کر دیتا ہے۔

بلوغت پہ پہنچتے لڑکے، جنسی لذتوں کے رسیا مرد، طاقت کے نشے میں ڈوبنے کی خواہش، بہن کو انسان نہ سمجھنے کا شعور، عورت کو کمتر چیز سمجھ کر روند دینے کا جنون، کسی وحشیانہ جذبے کی شدت انہیں اس دروازے تک لے جاتی ہے جس کے پیچھے بہن نامی بے زبان مخلوق موجود ہوتی ہے۔

یہاں ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ اس کا سبب دین سے دوری ہر گز نہیں۔ اس کا تعلق آگہی، اخلاقیات اور عورت کو برابر کا انسان نہ سمجھے جانے سے ہے۔ پنڈی میں رتہ امرال کی علاقے میں جو کیس رپورٹ ہوا، ان میں سے ایک بھائی حافظ قرآن تھا۔ بے شمار مولوی حضرات چھوٹی بچیوں اور بچوں پہ جنسی تشدد کرنے کے واقعات میں ملوث ہیں۔

اس لیے ہماری بات کو اس سوال کا جواب ڈھونڈنے تک رکھیے گا کہ اگر آپ کا بیٹا، آپ کی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کر رہا ہو اور بچی اس تکلیف سے تنگ آ کر دو بار خود کشی کی کوشش کرے تو آپ کیا کریں گے؟

کیا بچی کو کہیں گے کہ کسی کو بتائے نہیں اور اسے بھیانک خواب سمجھ کر بھول جائے؟

کیا بیٹے کو ڈانٹیں ڈپٹیں گے، شرم دلائیں گے، دین کی تعلیمات نئے سرے سے ازبر کروائیں گے اور بیٹے کی نگرانی کریں گے؟

بس؟ اتنا کچھ ہی؟

کیا بیٹی پہ ہونے والی ایسی زیادتی جو اس کے جسم کو مضروب تو کرتی ہی ہے، روح کو بھی مسخ کرنے کے بعد زندگی سے بیزار ہو کر موت کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے کے لیے مجبور کر چکی ہے، اس کے لیے صرف اتنا ہی؟

سوچیے اور ہمیں بتائیے۔
روح کو جھلسانے والے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کیجیے شاید کسی بیٹی کی جان بچ جائے۔
( یہ بلاگ ایک حقیقی واقعے سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments