گھٹیا پن پریزینٹڈ بائی اے آر وائی ڈجیٹل


لاحول ولاقوۃ الاباللہ مجھ پہ اس وقت شدید غم و غصے کی کیفیت ہے پوچھیے کیوں۔ چند دن قبل میرے بھائی نے مجھے کہا ایک ڈرامہ دیکھو اور اس پہ رائے لکھو۔ میں نے پوچھا ایسا کیا ہے اس ڈرامے میں کہنے لگے تم دیکھو اندازہ ہو جائے گا۔ ڈرامے کا نام ہے ”کیسی تیری خود غرضی“

چلیے میں آپ کو ڈرامے کا اوپننگ سیکوینس بتاتی ہوں۔ بیٹیاں مہک اور ندا گھر کی چھت پہ چپکے چپکے سرپرائز پارٹی کی تیاریاں کر رہی ہیں اور والدہ کو کہتی ہیں کہ وہ ان کے والد کو کہیں جانے نہ دیں۔ والدہ کمرے میں چائے لے کر جاتی ہیں ہیں اور بڑے لگاوٹ والے انداز میں میاں کو باہر جانے سے روکتی ہیں۔ والد کو سالگرہ کا سرپرائز دیا جاتا ہے وہاں چچا کا گھرانا بھی موجود ہے جن کا بیٹا بڑی بیٹی مہک کو بہت حسرت آمیز نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔

سونے سے پہلے ہیروئن یعنی مہک کے والد والدہ کی بات چیت سے پتا چلتا ہے کہ مہک کا رشتہ چچا کے اسے بیٹے سے طے ہے جو حسرت آمیز نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔ اگلے سین میں صبح ہوجاتی ہے والدہ چھوٹی بیٹی ندا کو جگانے کی کوشش کر رہی ہیں بیٹی واضح طور پہ مصنوعی نیند میں ہے۔ ( جو سوتے میں بھی اتنی تیار ہے جتنی میں شادیوں میں بھی تیار ہوکے نہیں جاتی بالوں میں کرل تک ہوا ہے اور سیٹ ہے، گھونگریالے بال صبح کیا منظر پیش کرتے ہیں اگر دیکھنے کا دل چاہے تو میں اگلے آرٹیکل کے ساتھ اپنی ایسی تصویر لگوا سکتی ہوں ) ماں جلتا پراٹھا دیکھنے کچن میں چلی جاتی ہے اور مہک اب جگانے کی ذمہ داری نبھاتی ہے اور ندا کے منہ پہ پانی مار کے جگاتی ہے ندا بتاتی ہے کہ وہ بڑا اچھا خواب دیکھ رہی تھی جس میں ایک امیر زادہ اپنے گارڈز سمیت دو گاڑیوں میں آ کر گیٹ پہ رکتا ہے اور اس کے ساتھ زبردستی کرتا ہے۔

جس پہ مہک ناصحانہ انداز میں کہتی ہے کہ اصل زندگی میں ایسے امیر ”ہیرو“ نہیں ہوتا۔ بلکہ اصل زندگی میں صرف ولن ہوتا ہے۔ اور وہ ہے فزکس (نوٹ کیجیے کہ یہاں یہ حرکتیں ہیرو کے چیدہ چیدہ خصائل کے طور پہ بیان ہو رہی ہیں ) ساتھ ہی بتاتی ہے کہ اس نے بہن کا فزکس کا اسائنمنٹ کر دیا ہے کیوں کہ وہ ٹک ٹاک کی وڈیوز دیکھتی رہتی ہے۔

پھر ندا کو جلدی تیار ہونے کا کہتی ہے کیوں کہ والد کو سرکاری کالج جانا ہے جہاں وہ پروفیسر ہیں۔ ( ہاں گھر ان کا ایسا ہے جیسے وہ بیوروکریٹ نما جاب کرتے ہیں یا بزنس مین ہیں ) اب ڈائننگ روم میں گھر والے بیٹھے ہنسی مذاق کرتے دکھائے جاتے ہیں جہاں دونوں بہنیں ایک دوسرے کو لے پالک قرار دیتی ہیں اور مہک، ندا کو کہتی ہے تم کچرے کے ڈبے سے ملی تھیں۔ ( جیسے معصوم قوم کو پتا ہی نہیں کچرے کے ڈبے میں کون سے بچے ملتے ہیں یہ مذاق پرائمری کے بچے سے نہیں کالج میں پڑھنے والی لڑکی سے کیا جا رہا ہے اور وہ اس مذاق کے جھانسے میں آ بھی گئی) اس پہ سب گھر والے ہنستے ہیں اور والدہ کہتی ہیں کہ تمہیں تو نہیں البتہ تمہارے دماغ کو کچرے سے اٹھایا اس لیے تم پڑھائی میں اتنی کمزور ہو۔ یہ سارا سیکوینس ایک ہنستے کھیلتے خوش حال گھرانے کو دکھانے کی کوشش ہے۔ (جب کہ یہ رویے بچپن سے بچوں میں اسٹریس اور ڈپریشن کی اہم وجوہات میں سے ایک ہیں۔ اور نیگلیکٹ میں شامل ہوتے ہیں جہاں مذاق کے نام پہ بچوں کی بار بار تذلیل کی جائے اور انہیں غیر ہونے کا احساس دلایا جائے )

دوسری طرف چچا کے گھر میں چچی نالاں ہیں کہ چچا سرکاری ڈاکٹر ہیں لیکن ”بھائی صاحب“ کی طرح ٹیوشن پڑھا کے ایکسٹرا نہیں کماتے یعنی پرائیویٹ کلینک نہیں کھولتے جس کی وجہ سے حالات اتنے خراب ہیں کہ چائے میں دودھ بھی پورا نہیں ڈالا جاسکتا۔ (واضح رہے کہ یہ فقط تین لوگوں کی فیملی ہے۔ شاید رائٹر صاحب کو پتا تھا کہ شہباز شریف کتنی مہنگائی کرنے والا ہے ) خیر بیٹا باہر جاکر اپنی بائیک اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے اور بائیک کے پرانے ہونے پہ مصنوعی غصے سے بڑبڑانے لگتا ہے کہ مہک ناشتے کی ٹرے لیے پہنچ جاتی ہے ( جسے ابھی ابھی دیر ہو رہی تھی اور باپ کے ساتھ کالج جانا تھا۔ ) لڑکا دوبارہ حسرت آمیز تاثرات چہرے پہ سجا لیتا ہے۔ پھر والد اور والدہ کی نوک جھونک کا بتاتا ہے جس پہ مہک اسے چار سال کے بچے کی طرح ٹوکتی ہے کہ گھر کی باتیں باہر نہیں بتاتے۔ اتنے میں چچا نکل کے آ جاتے ہیں جنہیں شاید اسپتال لانا لے جانا بڑے بھائی کی ذمہ داری ہے وہ جلدی میں باہر چلے جاتے ہیں اور مہک اندر چلی جاتی ہے ( جسے باپ کے ساتھ کالج جانا تھا)

اب جناب اعلیٰ ہونے والی ہے ”ہیرو“ کی دھماکے دار انٹری ایک تیز رفتار گاڑی دکھائی جا رہی ہے جو ایریل ویو میں سڑک پہ فاسٹ اینڈ فیوریس کے انداز میں خالی سڑک پہ ایک ہی گاڑی کے ساتھ آگے پیچھے ریس لگانے کی کوشش کرتی دکھائی جا رہی ہے جب کہ کیمرہ کلوز ہونے پہ کچھ ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ سب بھری سڑک پہ ہو رہا ہے۔ اسی دوران وہ گاڑی مہک اینڈ کو کی گاڑی کو سائیڈ مارتی نکلتی ہے جس میں مہک براجمان ہیں جو چچی کو ناشتہ دیتی رہ گئی تھیں۔ لیکن آگے جاکر سگنل سرخ ہو گیا اب اس پاکستانی وین ڈیزل کی گاڑی کے آگے ایک بچارا مظلوم بائیک والا کھڑا ہے اور پیچھے سے ایک ہاتھ ہارن بجاتا دکھایا جاتا ہے جو ہارن بجائے جا رہا ہے اور بائیک والا ناراض ہوتا ہے۔

پھر وہ شاہکار آتا ہے جس کا انتظار ہے۔ سلو موشن شروع ہوجاتا ہے میوزک چلنے لگتا ہے اور گاڑی کا دروازہ کھلتا ہے اور دانش تیمور یعنی نوابزادہ شمشیر نکلتے ہیں۔ شمشیر کا حلیہ بھتہ جمع کرنے والے غنڈوں جیسا ہے اور جب کوئی آدھا شخص بھی سوئیٹر نہیں پہنے ہوئے تو ہیرو صاحب جیکٹ پہنے ہوئے ہیں۔ اب وہ آ کر بائیک والے کو مارنے لگتا ہے کہ میں ہارن بجا رہا تھا ہٹے کیوں نہیں۔ پیچھے سے پروفیسر صاحب آ جاتے ہیں جو شمشیر کو روکتے ہیں اور شمشیر پستول نکال کے تان لیتا ہے۔ جس پہ مہک اینڈ کو کی گاڑی سے مہک سمیت سب نکل کے آ جاتے ہیں۔ شمشیر مہک کو دیکھتا رہ جاتا ہے اور اسی وقت عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے۔

یہاں سے رائٹر صاحب کے حساب سے شاید آئیڈیل رومان کی ابتداء ہوتی ہے۔ پہلی قسط سے لے کر حالیہ چھٹی قسط تک نوابزادہ شمشیر کبھی گھر کبھی کالج کبھی سڑک پہ مہک اور اس کے گھر والوں کو ہراساں کر رہا ہے۔ رات میں مہک کو ملنے گلی میں بلا لیتا ہے اور وہ فرمانبردار دوشیزہ پہنچ بھی جاتی ہے۔

اب ذرا ملاحظہ ہو مہک گیٹ سے نکلتی ہے شمشیر گاڑی سے نکلتا ہے اب شمشمیر کے چہرے پہ وہی چچازاد والی حسرت سجی ہے پیچھے رومانوی موسیقی چلنے لگتی ہے اور گانا چلتا ہے سارا سین سلو موشن میں چل رہا ہے۔

اے سودا گر میرے دل کے یہ کیا سودا کیا تونے
محبت کو بھرے بازار میں رسوا کیا تونے

مطلب واقعی؟ او بھائی خدا کو مانو یہ بندہ جسے گلوکار دل کا سوداگر قرار دے رہا ہے یہ جنسی مجرم ہے۔ گھٹیا پن کی انتہا ہے کہ ہمارے یہاں کے ڈراموں میں جنسی مجرم کو جنسی مجرم کے طور پہ دکھانا بھی نہیں آیا اب تک۔ اور بات یہاں پہ موقوف نہیں جب جب شمشمیر کی اپنے گھر والوں سے بات چیت دکھائی جا رہی ہے وہاں وہاں اسے ایک مظلوم حق گو عاشق کی طرح بات کرتا دکھایا جا رہا ہے جو عشق میں ادھ موا ہو کر ہوش و حواس گنوا بیٹھا ہے اور ہر وقت مہک کی تصویر اپنے بڑے سے ایل سی ڈی ٹی وی پہ لگائے دیکھتا رہتا ہے۔ جب جب ماں یا باپ لڑکی کو قصور وار ٹھہراتے ہیں وہ ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتا ہے۔ اور لہجے سے مصنوعی شرمندگی اور حسرت ٹپکنے لگتی ہے۔

(نوٹ: جہاں جہاں مصنوعی لکھا گیا ہے وہاں اداکاری کے غیر معیاری ہونے کی طرف اشارہ ہے یہاں مرے پہ سو درے دانش تیمور کی سطحی اداکاری اور مصنوعی بھاری آواز ہے )

اتنے عرصے میں پڑھے لکھے باشعور پروفیسر صاحب نے گھر بدل لیا چھپتے پھر رہے ہیں لیکن نہ پولیس کے پاس گئے نہ میڈیا کے پاس۔ اچھا ہر بار شمشیر صاحب کی حرکتوں کی وڈیو بھی بنتی ہے لیکن کسی سوشل میڈیا تک نہیں پہنچی۔ اگر یہ وڈیوز سوشل میڈیا پہ مجرم کو بے نقاب کرنے کے لیے نہیں بنائی گئیں تو بیمار ذہنیت والوں نے اپنی رات کے تلذذ کے سامان کے لیے بنائی تھیں کیا؟

ان چھ قسطوں میں اب تک جو کچرا اور غلاظت دکھائی جا رہی ہے اس کا رائٹر، چینل اور اسپانسر کرنے والوں اور اسے سینسر سے پاس کرنے والوں کے پاس کیا جواز ہے؟ ہو سکتا ہے کچھ عقل کے اندھے کہیں کہ آپ نے پورا ڈرامہ دیکھے بغیر ہی رائے قائم کرلی ہو سکتا ہے آگے ان تمام رویوں کا جواز مناسب انداز میں پیش کیا جائے اور جنسی مجرم نواب زادہ شمشیر کو قرار واقعی سزا ملتی دکھائی جائے۔ تو محترم عقل کے اندھوں یہ جو شمشیر کے آتے ہی سر بجنے لگتے ہیں سین سلو موشن ہوجاتا ہے۔ اس کے لہجے میں شرمندگی ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ سب کیا ہے۔ وہ جو پہلے ہی سین میں ندا کو ایسے کردار کو رومینٹیسائز کرتے دکھایا جاتا ہے اس کا جواز کیا ہے؟ وہ جو مہک حسرت سے جواب دیتی ہے کہ ایسے ہیرو اصلی زندگی میں نہیں ہوتے اس کا کیا جواز ہے؟

میری دست بستہ گزارش ہے رائٹر سے چینل سے اور ایسے ڈرامہ پسند کرنے والے عوام سے کہ اپنی بیمار ذہنیت اور پیسہ کمانے یا چند لمحوں کے پرتشدد جنسی تلذذ کے لیے ہم عورتوں کے لیے ملک کو جہنم مت بنائیں۔ ہراسانی کو جسٹیفائی مت کریں۔ ہراسانی رومان نہیں ہوتی، ایسی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے کبھی عورت کی عزت نہیں کرتے یہ ظاہر جعفر جیسے سفاک قاتل ہوسکتے ہیں لیکن نازک رومانوی جذبات سے مغلوب ہو کر پیار سے اپنے محبوب کو نہیں چھوتے بالفرض شادی ہو بھی جائے تو رات کو روز عورت کو جنسی، جسمانی اور جذباتی تشدد سہنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ بھی شاید ہمارے یہاں رومان کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے کیونکہ عورت انسان کہاں ہے وہ تو صرف سیکس آبجیکٹ ہے۔

 

 

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments