اشرف المشروبات کی شان میں سرکاری گستاخی


 

ایک وفاقی وزیر نے اشرف المشروبات یعنی چائے کی شان میں گستاخی کر کے گناہ صغیرہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اسے علم نہیں کہ اس نے چائے نوشی میں مداخلت اور سازش کر کے اس قوم کو للکارا ہے جو ایسے بیسیوں نان ایشوز پر سر دھڑ کی بازی لگانے سے دریغ نہیں کرتی۔ اسے بتاؤ کہ چائے کو دنیا کی تمام ڈرنکس پہ ڈھیروں فضیلتیں حاصل ہیں۔ سرکاری اداروں میں تو جیسے SOPs کا حصہ ہے کہ فرائض ادا ہوں، نہ ہوں چائے نوشی کے ناغے کا تصور نہیں۔

اسے بولو کہ چائے کی بابت یاروں کا عقیدہ غالب کے آموں کی مثل ہے کہ چائے ہو، میٹھی ہو اور ڈھیر ساری ہو۔ چائے کے ادوار میں تو ایسے ذیابیطسی دوست بھی روبہ صحت نظر آتے ہیں جو اوقات کار میں شوگر اور امراض جگر و معدہ کا شکار ہوتے ہیں۔ جبکہ حکماء انہیں باور کرا چکے ہوتے ہیں کہ چائے کی پتی سے بندے کا جگر تک کٹ سکتا ہے۔ بعض دوست تو چائے کے ایسے رسیا ہوتے ہیں جیسے چائے کا چمچہ منہ میں لئے پیدا ہوئے ہوں۔ ایسے حضرات عسرت میں بھی چائے کی کثرت کی حسرت سے مالا مال ہوتے ہیں۔

اگر یہ پرانے دور میں اسی شان و شوکت سے پائی جاتی تو شعر و ادب کی دنیا میں ہمیں انگور کی بیٹی کے ساتھ ساتھ لپٹن و سپریم کے قصیدے بھی ملتے۔ ساغر و مینا کے ہمراہ کیتلی و کپ اذکار چلتے اور اکثر بسیار نوش شعراء شوگر اور پیلیا کے باعث مرتے۔ جہاں مے خانوں کا ذکر خیر ہوتا تو ساتھ ہی ٹی ہاؤسز اور چائے کے کھوکھوں کے گن بھی گائے جاتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آج ٹی ہاؤسز، مے خانوں کی جگہ لے چکے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مے نوشی، مدہوشی کا موجب بنتی تھی جبکہ چائے سستی اور خمار کو بھگا کر کم خوابی کا باعث ہے۔

میر کے دور میں چائے ہوتی فرحت طبع کے لئے کہہ اٹھتے، چائے کو چاہیے دو منٹ اثر ہونے تک، ۔ اب معلوم ہوا کہ ساغر صدیقی اپنی تخلیقات چائے کی ایک پیالی کے عوض کیوں قربان کر دیتے تھے؟ چائے اگر کلاسیکل دور میں عام ہوتی تو شعراء کرام اپنے دور کے مفتیان اور زاہدان تنگ نظر کے عتاب کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رہتے کیونکہ چائے انہیں خود مرغوب ہوتی۔

اس وزیر کو باور کراؤ کہ آج زندگی چائے کے بغیر ادھوری اور بے کیف ہے اور اظہار محبت اور چاہت کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ ہیر رانجھا اگر دور حاضر میں ہوتے تو ہیر چوری کے ہمراہ چائے کا تھرمس لئے رانجھے سے ملنے جاتی۔ اگر آپ چائے کے پینے پلانے کے گر سے واقف ہیں تو بلا شبہ کامیاب انسان ہیں کیونکہ یہ حل المشکلات اور قاضی الحاجات بھی ثابت ہوتی ہے۔ پی جانے والی چائے سے ہٹ کر چائے پانی کی مال افزاء اصطلاح تو سونے پہ سہاگہ ہے۔

رشتوں کے دیکھنے دکھانے کے عمل میں بھی چائے کا ہی کلیدی کردار کار فرما ہوتا ہے۔ کسی کی ممی کسی کو چائے پہ بلاتی ہے تو کبھی کسی کے ممی پاپا چائے پہ بلائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں پھنسنے پھنسانے کی رومانوی سرگرمیاں بھی چائے کی مرہون منت ہیں۔ رت جگوں کے لئے تو ڈھیروں مفید ہے۔ پڑھاکو سٹوڈنٹس رات کو نیند کے غلبوں سے بچنے کے لئے چائے کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ اگر چاہ کی چاہ کو جاننا چاہو تو انڈین پائلٹ ابھی نندن سے پوچھو جو اپنے طیارے کے عوض پاک فوج کی ایک پیالی چائے پہ فریفتہ ہو گیا۔

گویا ان حالات میں سٹارم ان دی ٹی کپ کا محاورہ جوڑنا غلط نہ ہو گا۔ کہنے کو تو دور حاضر کا اہم ایشو پانی ہے جس کی بنیاد پر اقوام عالم میں جنگیں متوقع ہیں مگر چائے کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں چائے کے پینے پلانے پہ بھی جھگڑے ہوں۔ اس کی طلب، رسد، دستیابی اور تجارت کی بابت مقابلے ہوں۔ اور ماضی کی کولڈ وار کی مانند چائے کے ایشوز پہ کڑک، وارم وارز، کی اصطلاح رائج ہو جائے۔

دنیا کے سب سے بڑے دو جنون، سمارٹ فون اور چائے ہیں۔ تاہم چائے کے کچھ المیے بھی ہیں جن میں خوش ذائقہ بسکٹوں کا چائے کی پیالی میں مفاجاتی انہدام اور کسی نا شناور مکھی کی ناکام تیراکی وغیرہ شامل ہیں۔ تاریخ آشنا احباب، بوسٹن ٹی پارٹی، کی روداد سے بھی شناسائی رکھتے ہوں گے ۔ ان کا ماننا ہے کہ دنیا کی عظیم نعمتوں میں چائے سرفہرست ہے اور اس کے دانے دانے پہ پینے والے کا نام تک لکھا ہوا ہے۔ بعض تو اس حوالے سے اندھی عقیدت رکھتے ہیں، بقول شاعر

ہم فقیروں کی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے بیٹھ جاتے ہیں جہاں چائے بنی ہوتی ہے

تمنا ہے کہ چائے جنت میں بھی میسر ہو مگر تا حال یہ مژدہ کسی عالم نے سنایا نہیں، پرہم نے بڑوں سے سنا ہے کہ جنت میں جس چیز کی خواہش کی جائے گی اس کا ذائقہ نصیب ہو گا۔ گویا وہانں دودھ اور شہد کے ساتھ ساتھ چائے کی نہروں کی بھی حسب خواہش فراوانی ہوگی اور وہ بھی حوروں کی میز بانی میں۔ تو اب تسلیم کرنا ہی ہو گا کہ انسان اگر اشرف ا لمخلو قات ہے تو اس کے لئے دنیا میں دستیاب نعمتوں اور مشروبوں میں چائے اشرف ا لمشروبات ہے۔ آ خر میں ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیر موصوف قوم کا دل دکھانے پر معافی مانگے اور اپنے چائے مخالف الفاظ بطریق، احسن، واپس لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments