تینالی دلی سے ہزاروں میل دور :کھدر اسماعیل اور ہاجرہ اسماعیل کا شہر


تینالی دلی سے ہزاروں میل دور :کھدر اسماعیل اور ہاجرہ اسماعیل کا شہر، جہاں کبھی مسلم لیگ کا دفتر بھی تھا۔

یہ شہر کبھی بھی مجوزہ پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتا تھا، لیکن پھر یہاں مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیاں کیسی تھیں؟ 1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

رات کافی بیت چکی تھی، سب لوگ سو رہے تھے اور میری جاگنے کی ہمت بھی ختم ہو چکی تھی۔ مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ میں تینالی شہر نہیں دیکھ سکوں گا جہاں کھدر اسماعیل نامی شخص نے اپنی بیوی ہاجرہ کے ساتھ مل کر آزادی ہند میں اہم کردار ادا کیا۔

تینالی علاقہ میں دوسری صدی سے لوگ آباد چلے آرہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز پر اسے باقاعدہ ایک شہر کا درجہ دے دیا گیا۔ اس شہر کی خوبصورتی اور شہری سہولیات کی بناء پر اسے آندھرا پردیش کا پیرس بھی کہا جاتا ہے۔ جب بھی ہم پاکستان میں کسی شہر کی خوبصورتی کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اسے پیرس بنا دیں گے۔ میرے مطابق پیرس سے بھی زیادہ خوبصورت شہر دنیا میں موجود ہیں لیکن اب پیرس خوبصورتی کا ایک سمبل بن گیا۔

اس شہر میں پچاسی فیصد کے قریب ہندو اور چودہ فیصد کے قریب مسلمان آباد ہیں۔ میں نے اب تک جو دیکھا، اس کے مطابق جہاں بھی مسلمان ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر کی زبان اردو ہوتی ہے۔ اس شہر میں مسلمانوں کا وجود اس علاقے میں قائم مختلف مسلمان ریاستوں کی وجہ سے ہے جن کا ذکر میں نے پچھلے صفحات میں کیا ہے جیسے بہیمانی، قطب شاہی اور مغل سلطنت کے ساتھ ساتھ حیدر آباد ریاست۔

تینالی کی مختلف تصاویر دیکھنے سے مجھے لگتا ہے کہ اسے واقعی پیرس کہنا چاہیے۔ خوبصورت محل وقوع اور آرٹ کی دنیا میں اس کا اپنا ہی ایک مقام ہے۔ شہر کی تاریخ پڑھنے سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں مسلمانوں کا سیاسی معاملات میں عمل دخل بھی قابل ذکر ہے۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں مسلم لیگ کا دفتر بھی قائم تھا اور مسلمان سیاسی میدان میں بھی بہت متحرک تھے۔

کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت تھی۔ صرف مسلمان ہی اس کے ممبر تھے جبکہ اس کے مقابلہ میں کانگرس میں شریک ہونے کے لیے کوئی مذہبی پابندی نہیں تھی۔ جس کے دفاتر ہندوستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں قائم تھے اور ان کے کارکنان اپنے سیاسی قائدین کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان کی آزادی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ ایسے شہروں کے رہنے والے لوگوں کو، جو موجودہ پاکستان سے ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع تھے مکمل طور پر اس بات کا اندازہ تھا کہ ان کے علاقے کبھی بھی پاکستان کا حصہ نہیں بنیں گے اور صرف مسلمان اکثریت والے علاقے علیحدہ ہو جائیں گے جبکہ وہ ایک ایسے ملک کا حصہ ہوں گے جہاں پر وہ اقلیت میں شمار کیے جائیں گے۔ اس کے باوجود انھوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ پاکستان کو معرض وجود میں لانے کے لیے ان کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ میں مدت سے اس کا جواب ڈھونڈ رہا ہوں۔ آپ بھی میری مدد کریں۔

اس شہر میں محمد اسماعیل صاحب رہتے تھے۔ انھوں نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اسماعیل کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کی بجائے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور وہ دونوں مہاتما گاندھی کے بہت پکے اور سچے پیروکار بن گئے۔ اس بات کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ اس علاقے میں سب سے پہلے کھڈی پر بنائے گئے کھدر کی دکان اسماعیل صاحب نے شروع کی۔ یاد رہے کھڈی اور کھدر کی تحریک مہاتما گاندھی نے شروع کی تھی۔ کھدر کی دکان کی وجہ سے اسماعیل صاحب کا نام کھدر اسماعیل ہو گیا۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد اسماعیل صاحب کا انتقال ہو گیا لیکن ان کی اہلیہ نے ان کے کاروبار کو جاری رکھا جو بعد میں ان کے بچوں نے سنبھالا۔ ہاجرہ بی بی کی ایک خوبصورت گفتگو نے میری نظروں میں ہاجرہ بی بی اور ان کے خاوند کے احترام میں بے حد اضافہ کر دیا، یقیناً یہ بات آپ کو بھی بہت بھلی لگے لگی۔

تقسیم ہند کے بعد بھارتی حکومت نے ان لوگوں کو زمینیں دینا شروع کیں جنھوں نے آزادی ہند کی تحریک میں بہت کام کیا اور اس تحریک کے دوران وہ بار ہا جیلوں میں بھی گئے، جس سے ان کا بہت زیادہ مالی نقصان بھی ہوا۔ جب بھارتی حکام ہاجرہ بی بی کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ہم آپ اور آپ کے خاوند کی خدمات کے بدلے آپ کو کچھ زمین دینا چاہتے ہیں۔ اس پر ہاجرہ بی بی نے کہا کہ میں نے اور میرے خاوند نے جو بھی خدمت کی اس کا معاوضہ زمین نہیں ہو سکتی۔ اس لیے میں یہ زمین نہیں لوں گی۔ میرے پاس جو کچھ ہے میں اسی میں اپنی زندگی گزاروں گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں نے اور میرے خاوند نے جو کام کیا اس کا صحیح معاوضہ ہمیں ہندوستان کی آزادی کی شکل میں مل چکا ہے، اس سے بڑھ کر کوئی اور معاوضہ نہیں ہو سکتا ہے اور نہ میں لینے کو تیار ہوں۔

ہاجرہ بی بی کے اس مکالمے نے میری نظروں میں ان کی عزت و عظمت کو بہت بڑھا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب انھوں نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی تو بہت سارے مقامی مسلمانوں نے اس بات کا برا منایا اور ان کے لیے کئی مشکلات بھی کھڑی کیں۔ انھوں نے جسے مناسب سمجھا اسے زندگی بھر سینے سے لگا کر اس کے لیے اخلاص کے ساتھ کام کیا اور اس کے لیے اس دنیا میں کسی بھی طرح کا معاوضہ قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ آزادی کے ہیرو ایسے بھی ہوتے ہیں۔

میں نے یہ تمام معلومات سید نصیر احمد کی کتاب
THE ROLE OF MUSLIMS IN THE STRUGGLE FOR THE FREEDOM OF INDIA

سے لی ہیں۔ سید نصیر احمد صاحب سے میں نے رابطہ بھی کیا اور ان کی کتابوں کے بارے میں بات چیت ہوئی۔ ان کی اکثر کتابیں ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کے بارے میں ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر یہ کتابیں تیلگو زبان میں لکھی ہیں۔ انھوں نے یہ کتابیں مجھے سافٹ کاپی کی صورت میں بھی بھجوائیں۔ ایک ویب سائٹ جس کا لنک درج ذیل ہے۔ اس ویب پر بے شمار ایسی کتابیں موجود ہیں جن میں ان مسلمان رہنماؤں کا ذکر ہے جنہوں نے جنگ آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

https://heritagetimes.in/author/snahamed


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments