روداد سفر حصہ 26


میری بیوی ماریا کی جہاں بہت سی پرانی اور بے تکلف سہیلیاں تھیں وہاں نئی انٹری بھی ہوتی رہتی تھی۔ یاد نہیں کس حوالے سے لیکن چھن ہائی کی رہائشی ایک خاتون رابعہ کا شمار بھی میری بیگم کی قریبی سہیلیاں میں ہو گیا۔ رابعہ کی عمر اس وقت تقریباً پچیس چھبیس سال ہوگی۔ چھن ہائی کا صوبہ میری بیگم کے صوبے گانسو کے قریب ہے اور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد یہاں آباد ہے۔ یہاں کے زیادہ تر مسلمان دین کی صوفیانہ تعبیر کو ہی صحیح مانتے ہیں۔

کسی دور میں یہ لوگ وسطی ایشیا سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔ ان کی بنیادی غذا جہاں چائنیز کی چاول ہے اس کی بجائے نان روٹی ہے اور رسوم و عادات بھی تقریباً ایک جیسی ہی ہیں۔ بقول رابعہ کے، وہ ان ہوئے صوبے میں کسی بیوٹی پارلر میں کام کرتی اور بیوٹی پروڈکٹس بیچنے کا کام بھی کرتی تھی۔ میری بیگم کو اس کی اس بات پر یقین نہیں تھا کہ وہ بیوٹی پارلر میں کام کرتی ہے یا بیوٹی پروڈکٹ بیچتی ہے۔ اسے یقین کیوں نہیں تھا یہ مجھے بھی معلوم نہیں۔

رابعہ ایک عرصے سے کام کی غرض سے گھر سے باہر تھی۔ کام کے دوران مردوں کے ساتھ چونکہ اس کا بہت زیادہ واسطہ پڑتا تھا، اس لیے انداز و اطوار اور بات چیت میں وہ بے جھجک اور بے باک تھی۔ ایک دن میری بیگم اسے اپنے ساتھ گھر لے آئی۔ کھانے کے وقت ہم اکٹھے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کے والدین نے چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہی اس کی شادی کر دی جو دو اڑھائی سال ہی چل سکی اور ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔ طلاق کے بعد وہ کام کے لیے گھر سے نکل آئی کیونکہ اس کے بعد وہ اس کے بقول والدین کی ذمہ داری نہیں رہی، گویا والدین نے اسے اپنے سر سے اتار دیا۔

نئی نسل کے حوالے سے چائنا میں ایک عجیب مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ تمام بچے حکومت کے قائم کردہ سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ وہاں کی تعلیم اور باہر کا ماحول والدین کو اپنے بچوں کے بارے میں بہت پریشان رکھتا ہے۔ اکثر والدین فکر مند رہتے ہیں کہ آئندہ نسل کا مستقبل کیا ہو گا۔ ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہونے سے انسان یا تو مادیت کے شکار ہو رہے ہیں یا پھر آئیڈیل ازم کے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی حال میں مطمئن نظر نہیں آتا۔

مذہب کا معاملہ ہو یا دنیا کی دوڑ کا سب میں ایک بے چینی اور ہیجان کی کیفیت باآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایسے حالات میں شادی کا ادارہ کیسے محفوظ رہ سکتا تھا، جو چلتا ہی ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے سے ہے۔ شادی کے ادارے قائم تو ہو رہے ہیں لیکن انہی لوگوں کے درمیان رہ کر ہی قائم ہو رہے ہیں، جو لوگ ( روایتی مسلمان ) خود نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ فی الواقع مسائل کیا ہیں، انہیں کن سوالوں کا سامنا ہے جن کا ان کے پاس جواب نہیں ہے۔

آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہاں کے لوگ اصل مسائل سے نظریں چرا کر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان غیر مسلموں کے درمیان رہتے ہوئے ہم مسلمانوں کے پاس ہمارے بنیادی مذہبی عقائد کے لیے کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں ہے۔ بے بنیاد اور کھوکھلے عقائد جو مذہب کے نام پر زبردستی لاد رکھے ہیں کے ساتھ ساتھ ہم مسلمان اخلاقی پستی کا بھی شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ہم کسی غیر مسلم کے لیے کیا نمونہ پیش کر سکتے ہیں جو انہیں ہمارے مذہب کی طرف مائل کرسکے۔

ایسی کون سے مثال ہے جو ہم نے غیر مسلموں کے سامنے قائم کی ہے جس سے متاثر و مرعوب ہو کر یا ہمارے طرز عمل کو دیکھ کر غیر مسلم ہماری طرف متوجہ ہوں۔ وہاں جا کر یہ احساس بہت شدت پکڑ لیتا ہے کہ ہمارے تمام عقائد کی بنیادیں دلائل کے بجائے محض عقیدت پر مبنی ہیں اور یہ دنیا جانتی ہے کہ عقیدت محض ایک بت ہی ہے جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔ وہاں ہمارے سامنے اہل کتاب بھی تو نہیں ہیں جن کے پاس آسمانی دین کی روایت موجود ہے، بلکہ یہاں مقابل میں وہ لوگ ہیں جو توہم پرست ہیں یا ارواح کی بوچا کرنے والے یا فلسفے کو ماننے والے ہیں۔

شادی یا خاندان کا نیا ادارہ تشکیل دینے کے حوالے سے صحابہ کرام کے دور میں مدینہ میں یہود اور مسیحی موجود تھے، اگرچہ وہ اپنے مذہب کی مختلف تاویل کرتے تھے لیکن بہرحال آسمانی مذہب کی روایت کے حامل تھے۔ جبکہ یہاں مذہب کا معاملہ دین اسلام کے بالکل ہی برعکس ہے۔ والدین، اسی وجہ سے نئی نسل کے متعلق سخت فکرمند رہتے اور اپنے خدشات کا اظہار گاہے گاہے کرتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر کبھی ایسا موقع پیش آ جائے کہ کسی مسلم مرد یا خاتون کی شادی غیر مسلم سے ہو جائے تو اکثر اوقات یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ اپنے مذہب سے دوری اختیار کرنے اور دوسری تہذیب میں گم ہو جانے والے مسلمان ہی ہوتے ہیں۔

یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آ چکی ہے ہم مذہب کو جدید ذہن کے مطابق دلائل فراہم نہیں کر سکے، اسے نئی نسل کے لیے واضح نہیں کرسکے۔ جس کی وجہ سے آج ہم ان لوگوں کو ان کے کسی سوال کا تشفی جواب نہیں دے سکتے۔ ہم نے مذہب کے ساتھ ایک اور ظلم کیا ہے، وہ یہ کہ ہم اپنی تہذیبی روایات اور عرب کے کلچر کو بھی مذہب کا لازمی حصہ سمجھ بیٹھے، جس کی وجہ سے آج کا مسلمان دیگر معاشرت کے لیے بھی اجنبی ہو کر رہ گیا۔

یہ بات تو بہت واضح ہو گئی کہ غیر مسلم اکثریت میں رہنے والے مسلمانوں کو ہر وقت اپنی تہذیبی اور مذہبی شناخت کے حوالے سے خدشات لاحق رہتے ہیں اور اکثر یہ خدشات درست بھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس سے بچاؤ کے لیے والدین کے پاس سوائے تعصب اور غیر مسلموں سے نفرت کے کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ نفرت اپنے بچاؤ کے لیے ضد تو پیدا کر دیتی ہے لیکن اس کے ساتھ دوسرے کے دل میں دوری بھی پیدا کرتی ہے یا اسے آپ خود اپنا دشمن بنا لیتے ہیں اور اگر کوئی بہترین پہلو آپ کے پاس ہے بھی تو وہ تعصب کی نظر ہو جاتا ہے اور کوئی مشترکہ پہلو آپ کے اور مقابل کے درمیان ایسا قائم نہیں ہوتا جو آپ کو گفت و شنید کے لیے میسر آ سکے۔

جس سے آپ اپنے مذہب کے تہذیب کے اچھے پہلو دوسروں کو بتا سکیں۔ بالفاظ دیگر حقیقی مسائل سے نپٹنے کے لیے مسلمانوں کے اپنی تیاری نہیں ہے تو وہ اگلی نسلوں کو کیا بچائیں گے اور دوسروں کو کیا نمونہ دیں گے جو جدید ترقی کے دور میں اپنے گاؤں سے نکل کر بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں آبادی بہت زیادہ مکس تہذیب مذاہب اور عقائد کے ماننے والوں کی ہے۔

رابعہ نے بتایا کہ چونکہ ایوو شہر میں مسلمان بہت بڑی تعداد میں ہیں اس لیے وہ یہاں قیام کرنا چاہتی ہے۔ وہ جس علاقے میں اس وقت رہائش پذیر تھی وہاں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رابعہ کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی، دو دن بعد وہ واپس اپنے کام پر چلی گئی، تاہم میری بیگم سے رابطے میں رہی۔ مئی کی پانچ چھٹیوں میں میری بیگم نے اسے ایوو میں اپنے ہاں چند روز ٹھہرنے کی دعوت دی جسے اس نے قبول کیا۔ ان دنوں میں میری بیٹی حنا اس سے اس قدر مانوس ہو گئی کہ اسے خالہ کہ کر پکارتی تھی۔

انہی دنوں میں ہم نے اس سے شادی کے حوالے سے رائے جاننے کی کوشش کی تو اس نے بتایا کہ وہ کسی مسلمان سے شادی کر کے گھر بسانا چاہتی ہے، کوئی بھی اچھا انسان ہو جو اس کا ساتھ دے سکے، چائینز ہو یا کسی بھی ملک سے اس کا تعلق ہو، اس سے اسے غرض نہیں ہے۔ اس نے مجھ سے یہ رائے جاننے کی کوشش کی کہ غیر ملکیوں کو کس طرح کی لڑکیاں پسند ہوتی ہیں اور وہ کن عادات کو پسند کرتے ہیں، کیا میرے حالات کے مطابق جیسے میں طلاق یافتہ ہوں کوئی قبول کرے گا۔

میں نے اسے کہہ دیا تم اچھی ہو، خوبصورت ہو، اللہ نے خیر کی تو تمہیں کوئی اچھا ساتھی ضرور مل جائے گا۔ میری بیگم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں شادی کے لیے کس طرح کا لڑکا پسند ہے۔ رابعہ نے مذاق میں کہہ دیا، جیسے تمہارا شوہر۔ اس وقت تو یہ بات آئی گئی ہو گئی، لیکن بعد میں یہی بات میرے لیے طعنہ بن گئی کہ رابعہ مجھے پسند کرتی ہے۔ اب کوئی بات ہو نہ ہو میری بیگم کے پاس یہ طعنہ موجود ہوتا کہ میں بھی رابعہ کے رابطے میں ہوں۔ حالانکہ میری اس میں کیا دلچسپی ہو سکتی تھی، میں اسے بہن ہی کہتا اور سمجھتا تھا۔

ایک مرتبہ رات کے کھانے کے لیے ہم اکٹھے بیٹھے تھے، ہماری بیٹی حنا اپنی ماں کی گود میں تھی۔ ایک پلیٹ کی ضرورت پڑی تو رابعہ کچن سے لانے کے لیے اٹھنے لگی تو میں نے منع کر دیا، اور کچن سے پلیٹ لینے خود چلا گیا، پلیٹ دھوتے وقت ٹوٹ گئی اور اس طرح ٹوٹی کہ میرا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ میں دوڑ کر نیچے کالونی کے ایک کلینک پر گیا، رابعہ بھی میرے پیچھے بھاگتی ہوئی کلینک پہنچ گئی۔ میری بیگم بھی بیٹی کے ساتھ کچھ دیر میں کلینک پہنچ گئی، تب تک میں مرہم پٹی کروا چکا تھا۔

دوسرے دن رابعہ نے ٹرین کا ٹکٹ لیا اور اپنے کام پر واپس چلی گئی۔ رابعہ کے واپس جانے کے باوجود میری بیگم کا موڈ آف رہا۔ وہ بات بات پر طعنے دیتی رہی کہ تمہارے دل میں رابعہ کے لیے چور ہے اسی لیے اللہ نے تمہیں اس کی سزا دی ہے۔ اس نے یہاں تک کہ دیا کہ میں رابعہ سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوں، پھر بھی تم رابعہ کی طرف مائل ہو رہے ہو۔ میں اسے کیا جواب دیتا، یہی کہا کہ تم جیسی خوبصورت بیوی کے ہوتے ہوئے رابعہ سے مجھے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے، تم کہاں اور وہ کہاں۔

یہ عورت بھی خدا کی عجیب مخلوق ہے زبردستی کسی نہ کسی کو اپنی مقابل بنا لیتی ہے اور خیالوں ہی خیالوں میں اس سے الجھ بھی پڑتی ہے۔ کچھ عرصے بعد رابعہ نے ہمارے گھر کے قریب ہی ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ اسے ایک سنکیانگ کا رہائشی ہوئی ( Hui ) مسلمان لڑکا مل گیا اور اس سے اس نے شادی بھی کر لی۔ یہ لڑکا جاشنگ کی فاطمہ کے شوہر کی کمپنی میں عربی زبان کا مترجم تھا۔ رابعہ کی شادی کے بعد میری ان طعنوں سے جان چھوٹ گئی۔

بہت عرصے بعد ایک دن پاکستان میں میرے ماموں زاد بھائی جو تبلیغی جماعت سے منسلک ہیں، مجھ سے کہنے لگے کہ پیٹرول پمپ کی پچھلی طرف مسجد میں ایک جماعت آئی ہے جن میں کچھ چائنیز بھی ہیں، ان سے بات چیت کرنے کے لیے تمہاری ضرورت ہے۔ میں عشاء کی نماز کے وقت وہاں پہنچ گیا اور نماز سے فارغ ہو کر اس جماعت کے ساتھ مسجد میں ہی بیٹھ گیا۔ میں نے جماعت کے افراد کا جائزہ لیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان لوگوں کے ساتھ چائنیز زبان جاننے والا ایک پاکستانی بھی ہے۔

ایک چائنیز آدمی چند رٹی رٹائی باتیں چائنیز زبان دہراتا رہا۔ ان کی باتیں سننے کے بعد میں نے آخر میں تبصرہ کرنا ضروری سمجھا۔ میں نے نہایت نرمی سے انہیں توجہ دلائی اور کہا کہ آپ یہ ساری باتیں اپنے بیٹے یا بیٹی سے کہہ کر دیکھیں جو چائنا میں ہیں، پھر بغور جائزہ لیں کہ یہ باتیں انہیں کس حد تک مطمئن کرتی ہیں۔ ان سے درخواست کی کہ ان قصے کہانیوں کو چھوڑیں، نئی نسل کے سوالوں کے جواب تیار کریں، وہ سوال جو ابھی ان کے ذہنوں میں ہیں، زبانوں تک آنے سے پہلے دلائل جمع کریں۔

یہ نئی نسل جن کا ہر وقت اور ہر جگہ واسطہ غیر مسلموں سے پڑتا ہے۔ بالخصوص چائنا میں جہاں دینی روایت اپنی دھندلی صورت میں بھی موجود نہیں ہے، جہاں دنیا کے ہر معاملے کو علم و عقل کے مسلمات ہی کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔ جہاں کائنات کے وجود کی تشریع اور دنیا کے ہر معاملے کی توجیح کسی خالق کے بغیر ہی کی جاتی ہے۔ یہی سب کچھ سائنسی اور تجرباتی دلائل کے ساتھ انہیں سکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ پڑھنے والے بچے اگر گھر میں احترام کے، ڈر کی وجہ سے والدین سے سوال نہ بھی کر سکیں، لیکن وہ تشکیک کا شکار ضرور ہو رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ان بچوں کے کسی بھی سوال کا جواب ہمارے پاس نہیں ہے، ہم انہیں اطمینان نہیں دلا سکتے ہیں۔ آپ کا یہ دعویٰ ہے کہ آپ ایک عالمی تحریک ہیں، آپ انبیاء علیہم السلام کے مشن کے امین ہیں اور دین اسلام کی تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ میں آپ کے اس دعوے کی تردید نہیں کر رہا، صرف یہ توجہ دلا رہا ہوں کہ اس مشن کے وقت یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ انبیاء کے مخاطبین میں ہر نقطہ نظر کے لوگ موجود ہوتے تھے۔

خود خدائی کا دعوی کرنے والے، کسی خالق کے بغیر کائنات کی خلقت کا دعویٰ رکھنے والے اور خدا کے ساتھ خدائی میں شریک کرنے والے بھی موجود ہوتے تھے۔ ہمارے یہ قصے اور کہانیاں اس دور میں اور ان لوگوں کے کسی کام نہیں آئیں گی بلکہ اس سے زیادہ مزیدار کہانیاں چائنا میں پہلے سے موجود ہیں۔ یہ مختصر سا تبصرہ سننے کے بعد میزبان و مہمان کچھ دل برداشتہ سے نظر آئے، اس لیے معذرت اور شکریہ کے ساتھ ان سے رخصت لے لی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments