اللہ، امریکہ، اسٹیبلیشمنٹ اور عمران


ابن رشد کے مطابق ”اگر جاہلوں پر حکمرانی چاہتے ہو تو مذہب کا غلاف اوڑھ لو“ ۔

تاریخ عالم گواہ ہے کہ مذہبی پیشواؤں اور حکمرانوں نے ہمیشہ مذہب کو عوام کے خلاف بطور استحصالی قوت کے استعمال کیا ہے۔ ہامان اسی مذہبی پیشوائیت کا نمائندہ ہے جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ایسے تمام معاشروں میں طاقتور حیثیت رکھتا ہے جہاں مذہب پر چند مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری قائم ہے اور جہاں تعلیمی نظام شعور اور آزادانہ سوچ سخت مخالف ہے۔ اس اجارہ داری کے نتیجے میں مذہبی طبقہ عوام کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے سیاسی قوت حاصل کرتے ہیں اور اس کے بل بوتے پر حکمرانی میں حصہ دار بنتے ہیں۔

اگرچہ تاریخ انسانی میں مذہب، سیاست اور سرمایہ داری میں ہمیشہ سے شراکت داری رہی ہے تاہم بعض ایسے حکمران گزرے ہیں جو طاقت کی اس مثلث کر اپنی ذات میں مرتکز کرنا چاہتے ہیں تاکہ اقتدار کو دوام حاصل ہو سکے۔ خاص طور پر مذہب کو ۔ کیوں کہ مذہب کے بارے میں عموماً عوام کو سوال کی جرات نہیں ہوتی۔ شاید ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے۔

پاکستانی سیاست میں امریکہ، اسلام اور اسٹیبلیشمنٹ کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ کردار کی نوعیت اور ترتیب اگرچہ بدلتی رہتی ہے تاہم بنیادی اجزائے ترکیبی یہی رہتے ہیں۔ جیسا کہ حالیہ تحریک عدم اعتماد سے شروع ہونے والے سیاسی بحران میں جہاں ابتدائی طور پر پاکستانی اداروں یا اسٹیبلیشمنٹ کے کردار کو زیر بحث لایا جا رہا تھا وہی اچانک سے امریکی سازش بے نقاب ہوتی ہے اس طرح امریکی سازش اور اسٹیبلیشمنٹ کے بیانیہ کو بنیاد بنانے کے بعد ایک نئی سیاسی احتجاجی تحریک کا آغاز ہوتا ہے جس کی سربراہی پاکستان کے سابقہ وزیراعظم جناب عمران خان صاحب کر رہے ہیں۔ اس احتجاجی تحریک کا مقصد پاکستان کو حقیقی معنوں میں آزادی دلوانا اور عوام کو خود مختار بنانا ہے۔ لیکن عوام چونکہ یہ چورن کافی دفعہ خرید چکی ہے لہذا اس دفعہ کچھ مزید اضافہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے امریکہ اور اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ساتھ مذہب کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر سے پاکستانی سیاست میں امریکہ کو تختہ مشق بناتے ہوئے تمام تر مسائل کی جڑ قرار دیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ ہمیشہ سے اپوزیشن جماعتوں کی سیاست میں امریکی مخالفت ایک اہم ایجنڈے کی طور پر شامل رہی ہے۔ تاہم اسی اپوزیشن جماعت کی حکومت میں آنے کے بعد خواہش ہوتی ہے کہ امریکہ کے ساتھ بہتر مراسم قائم کیے جا سکیں اور کچھ سیاستدان تو اپنی وزارتوں کو ذاتی مراسم قائم کرنے کے لئے ابھی استعمال کرتے رہے ہیں۔

امریکہ پاکستان کا قریبی دوست رہا ہے۔ خطے میں امریکہ پاکستان کو ایک سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے اور قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان امریکہ کے تعلقات قائم رہے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے پاک امریکہ تعلقات بھی مذہب کی طرح ہمیشہ ہی سیاسی و مذہبی لیڈروں کے نشانے پر رہے ہیں۔ تاریخی طور پر پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کو امریکہ نے سب سے زیادہ مالی امداد دی ہے۔ لیکن بین الاقوامی تعلقات میں چونکہ سب سے اہم فیکٹر ملکی مفادات ہوتے ہیں لہذا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔

جیسے افغانستان روس جنگ کے دوران یہ تعلقات انتہائی قریبی ہو گئے تھے لیکن جیسے جیسے خطے سے امریکی دلچسپی ختم ہوئی ویسے ہی یہ تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ جس میں ہماری خارجہ پالیسی بھی کسی حد تک ذمہ دار ہے۔ تاہم سیاسی طور پر ہمیشہ سے ہی امریکہ کسی نہ کسی شکل میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کا حصہ رہا ہے۔

مذہب، امریکہ اور غداری، پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کے پسندیدہ ترین اور آزمودہ ترین نسخہ جات ہیں جو وقتاً فوقتاً عوام کو بیچے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اس دفعہ اسٹیبلیشمنٹ نے ایک بالکل نئی طرز کا تجربہ کیا ہے۔ اس تجربے میں ماضی میں استعمال کیے جانے والے تمام مقبول نسخہ جات کو یکجا کیا کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف آپ کے سامنے ایک ایسے لبرل اور آزاد خیال لیڈر کی تصویر ہے جو کتے پالتا ہے جو یورپ کو یورپ سے زیادہ جانتا ہے اور جس نے ایک عمر یورپ اور برطانیہ کی چکا چوند میں گزارے ہیں۔

اور دوسری طرف وہی لیڈر ایک صوفی کے روپ میں تسبیح کے دانے پھیرتا نظر آتا ہے۔ وہ درباروں پر حاضری دیتا ہے۔ اور ملک میں تصوف کے فروغ کے لئے عملی اقدامات بھی کر رہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ وہ امریکہ کے خلاف بولنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے اور صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی اس قوم کا مسیحا بھی ہے۔ بہادری، بے باکی، بے خوفی اور جذبہ ایمانی سے سرشار ایک ایسا لیڈر جو عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتا ہے۔ جو شلوار قمیض پہنتا ہے اور پاکستانی ہونے پر فخر کرتا ہے۔

یہ فارمولہ نیا نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام میں آنے سے لے کر آج تک ہر لیڈر نے مذہب کو حتی المقدور بطور ایک سیاسی ہتھیار استعمال کیا ہے۔ خواہ وہ سیاسی لیڈر ہو یا فوجی ڈکٹیٹر۔ مذہب کا استعمال عوام کے ووٹ اور ہمدردی حاصل کرنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے بھٹو، ضیا الحق، نواز شریف اور عمران خان سب کرتے رہے ہیں۔ 25 مئی کو دھرنے یا آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے خان صاحب یہ بھول گئے کہ عوام کا لہو گرمانے کے لئے مذہب کا تڑکا نہیں لگایا تو قاسم سوری صاحب نے موقع ہاتھ سے جاتے دیکھ کر خان صاحب کو یاد دہانی کروائی کہ خان صاحب آپ سیاسی تقریر ہی کئیے جا رہے ہیں اس کو مذہبی ٹچ دیں۔

یہی مذہبی ٹچ پچھلے الیکشن میں بہت اہم کردار ادا کر چکا ہے اور ایک مذہبی جماعت کو بطور سیاسی جماعت استعمال کرنے کا تجربہ بھی اسٹیبلیشمنٹ مکمل کامیابی کے ساتھ کر چکی ہے۔ لہذا یہ تو ایک حقیقت ہے کہ ایک بڑا ووٹ بینک ایسا ہے جو مذہب کے نام پر ووٹ دیتا ہے۔ اس طبقے کے لئے سیاست کو اسلامی ٹچ دینا ہی سیاسی جماعت کے لئے کامیابی کی کنجی ہے۔

اگرچہ یہ پاکستانی سیاسی تاریخ اور فیصلہ سازی میں بنیادی عناصر ہمیشہ سے ہی یہ رہے ہیں لیکن اس دفعہ ان تمام عناصر کو یکجا کیا جا رہا ہے تاکہ کہ اثرات کو سہ آتشہ کیا جا سکے۔ اب یہ نسخہ کتنا بابرکت اور اثر انگیز ہو گا یہ وقت طے کرے گا۔ لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ اہل اقتدار اور اسٹیبلیشمنٹ کے نزدیک عوام احمقوں کا ایک ریوڑ نما ہجوم ہیں جس کو وہ اپنی مرضی کے ٹچ سے ہانک رہے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments