اب ہمیں کھوکھلا پن کیوں محسوس ہوتا ہے


سارے کام جلدی جلدی نمٹانے جا رہے ہیں، کچھ کاموں کو کل پر چھوڑا جار ہا ہے، کچھ کام ہمیشہ سے تاخیر کا شکار ہیں مگر فیس بک پر سکرول لازمی ہیں بھئی۔ چاہے دنیا اب ادھر کی ادھر ہو جائے۔

سکرولنگ کرتے کرتے اچانک ایک خبر پر نظر پڑی کہ کوئٹہ میں دھماکہ۔ چھے لوگ جاں بحق اور 13 لوگ زخمی۔ ایک لمحے کے لیے انگلی رکی، ہو سکتا ہے کہ ایک لمحے کے لیے دماغ بھی رکا ہو، ایک لمحے کے لئے غم زدہ ہوئے۔ پھر سے سکرول کرنا شروع۔ پھر اگلے ہی لمحے ایک مزاحیہ ویڈیو آ گئی وہ دیکھی تو اسی وقت مسکرانا شروع کر دیا۔ ایک بار دیکھی تو جی نہیں بھرا تو یہی مزاحیہ ویڈیو دو تین بار دیکھ ڈالی۔ پھر سکرول کرنا شروع۔ کچھ دوستوں کی تصویروں پر لائک ٹھوکے۔ کسی ایک پر لو ریکٹ بھی بھیج دیا۔

پھر اگلے ہی لمحے کسی کا بلاگ پڑھ ڈالا۔ پھر کسی فلم کا رومانوی سین دیکھ لیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور پتا بھی نہیں چلا کہ دو گھنٹے صاف۔ پھر اچانک سے کسی نے کام کے لیے آواز دی تو موبائل کو چارجنگ پر لگا کر آنکھوں کو مسلتے ہوئے خالی دماغ اٹھ کھڑے ہو گئے۔ جو خبر پڑھی تھی وہ بھی گئی، جو مزاحیہ ویڈیو دیکھی تھی وہ بھی گئی اور جو بلاگ پڑھا تھا وہ بھی گیا۔ ایک ساتھ اتنا کچھ دیکھ اور پڑھ لیا کہ اب کچھ یاد ہی نہیں۔

خود کو بھی سمجھ نہیں آ رہا ہوتا کہ کون سا ایکسپریشن دیا جائے۔ دماغ کو ایک ساتھ ہی اتنی ساری انفارمیشن کے ساتھ بھر دیا جاتا ہے کہ ککھ پلے نہیں پڑتا۔ بندہ جب سکرول کر کے اٹھتا ہے تو ایک دم خالی ذہن۔ جیسے نہ کچھ سنا ہو، نہ کچھ دیکھا ہو اور نہ ہی کچھ پڑھا ہو۔ بندہ ویسے کا ویسے ہی ہوتا ہے جیسے پہلے تھا۔ رتی برابر بھی فرق نہیں ہوتا۔

پہلے گھر پر اخبار آتا تھا تو اہم خبروں کو سب سے پہلے ٹٹولا جاتا۔ جب خبر کوئی زیادہ بڑی ہوتی تو اس کی مزید تفصیل پڑھی جاتی۔ کچھ گھنٹوں کے لیے اس کا اثر رہتا۔ بندہ سوچتا رہتا کہ ایسا کیسے ہوا؟ ایسا بھی تو ہو سکتا تھا۔ یا پھر ایسا ملک میں کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے حل کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟ بندہ اگر کوئی کتاب پڑھ لیتا تو اس کا اثر رہتا۔ پھر کہیں شام کو جا کر کوئی انٹرٹینمنٹ کا بندوبست ہوتا۔ کوئی ایک ہی فلم یا پسندیدہ شو دیکھ لیا جاتا۔ چیزیں محدود تھیں تو ان کا سحر زیادہ تھا۔ ایک وقت پر صرف ایک ہی چیز کو دیکھا اور پرکھا جاتا۔

اب جب ہر چیز ہماری ایک کلک کی دوری پر ہے تو بھئی وہ سحر جاتا رہا۔ ہم ایک ہی وقت میں کہیں ساری چیزیں ساتھ چلا رہے ہوتے ہیں۔ ایک دو گھنٹے میں ڈھیر سارا مواد دیکھ اور سن لیتے ہیں اور آخر کار کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ وہی ایک کھوکھلا پن سا محسوس ہوتا رہتا ہے جو پہلے ہو رہا تھا۔

دیکھو بھئی دماغ کی بھی ایک کپیسٹی ہے۔ ایک طرح کی چیزوں کو ایک ہی وقت کے دورانیے میں دیکھا جائے تو تبھی وہ چیزوں کو سمجھ اور پرکھ سکے گا۔ اگر ایک ہی وقت میں سنجیدہ و غیر سنجیدہ سارا مواد اس میں فیڈ کرتے جاؤ گے تو وہ کیا خاک آخر پر کوئی نتیجہ اخذ کر پائے گا؟

اس سکرول نے ہماری سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت کو کہیں وہاں جا کر پھینک دیا ہے جہاں سے اس کا واپس آنا ناممکنات میں سے ایک ہے۔ اب اس کا حل یہی ہے جو بندہ ناچیز کی سمجھ میں آتا ہے کہ خبروں کے لیے ایک وقت مختص کیا جائے اور اس وقت پر صرف اور صرف خبریں ہی پڑھی جائے۔ یا پھر کوئی بلاگ وغیرہ پڑھنے کا ارادہ ہے تو وہ پڑھ کر موبائل کو سائیڈ پر رکھ دیا جائے۔ تاکہ جو انفارمیشن آپ نے دماغ میں فیڈ کی ہے اسے وقت تو ملے کہ وہ اسے جذب کر سکے۔ پھر جب انٹرٹینمنٹ کا ارادہ ہو تو تمام مزاحیہ ویڈیوز کو ایک ساتھ دیکھ لیا جائے۔ اس سارے پراسیس میں آپ کا ٹائم وہی لگے گا، جو پہلے لگتا تھا مگر اب کچھ پروڈکٹیو ہو گا۔ ایک دفعہ آزما کر دیکھ لیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments