پانی کے رنگ۔ جیون کے سنگ


پانی زندگی ہے۔ اور زندگی، زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے۔ زندگی کی ابتدا پانی سے ہوئی، ہر جاندار کی زندگی کی بقا کا دار و مدار پانی پر ہے۔ قدیم تہذیبیں دریاؤں کنارے پروان چڑھیں اور دریاؤں کے سوکھنے یا رخ بدلنے پر اجڑ بھی گئیں۔ نیل، فرات، دجلہ قدیم عہد سے تہذیبی اہمیت کے حامل ہیں انسان ہمیشہ دریاؤں کی گزرگاہوں پر بستا آیا ہے۔ دریا مہربان تو زندگی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ دریا بے رحم تو بپھرے دریا موت بھی بخشتے ہیں۔ تہذیبوں کو ملیامیٹ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں جیسے اپنا شیر دریا۔ مستنصر نے دریا کے سوکھنے کے ساتھ ایک پوری تہذیب کے مٹنے کی داستان عمدگی سے اپنے شاہکار ناول ”بہاؤ“ میں بیان کی ہے۔ سندھ ساگر کے کنارے سفر پر بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ دریا بہت کچھ کہتے ہیں، بہت کچھ۔

اگر فرصت ملے تو پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے

شمال کے سفرنامے پڑھیں تو ناممکن ہے کہ آپ سندھ ساگر کے سحر سے بچ سکیں۔ علی رضا عابدی نے اس کے متعلق کہا تھا کہیں یہ دکھ دیتا ہے کہیں سکھ بانٹتا ہے اور کہیں سکھ چھینتا ہے۔ ماہی گیروں کے کچھ خاندان ساری عمر کشتیوں میں بسر کر دیتے ہیں۔ کشتی ہی ان کا گھر ہوتا ہے اور دریا کل جہان۔ وہ دن رات دریا میں رہتے ہیں تو دریا کے اچھے مزاج آشنا ہوتے ہیں۔ اس کے بدلتے رنگوں کو بخوبی پہچانتے ہیں۔

یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں

پانی اپنے پاس بلاتا ہے، ہنستا پانی، روتا پانی مجھ کو آوازیں دیتا تھا۔ اور وہ دریائے محبت بھی تو کچھ کہتا ہے، آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم، پر دلفریب سراب دکھاتا ہے۔ زمانہ طالبعلمی کی پڑھی ہوئی کسی نظم کے یہ الفاظ آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔

Water water every where nor any drop to drink.

ایسی ہی بات میر انیس بھی کر گئے۔
پیاسی تھی سپاہ خدا جو تین رات کی
ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فرات کی
بے بسی کی انتہا ان الفاظ میں کہ بلا کی پیاس، تاحد نظر پانی پر تشنگی ختم کرنا اختیار میں نہیں۔

خیر بات ہو رہی تھی دریا کے پانی کی۔ ہر پانی کوئی رنگ نہ رکھتے ہوئے بھی رنگ بدلتا ہے، اور بہت بدلتا ہے۔ جب ایک دریا دوسرے میں شامل ہوتا ہے تو اس کی اپنی انفرادیت کہاں رہتی ہے۔ ایک دریا کہاں کہاں سے سفر کرتا کہاں کہاں تک پہنچ جاتا ہے اور بہتا رہتا ہے۔ بہتا پانی زندگی کی علامت ٹھہرا ہوا پانی کائی زدہ، جمود کی علامت۔ ویسے تو ٹھہرے پانی زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ مگر دریا اپنے اندر کیا کیا کچھ سموئے ہوتے ہیں۔

کتنے راز، کتنے قصے، کتنے زمانے، کتنی صدیاں۔ کچھ قصے دنیا نے سنے ہوتے ہیں کچھ ان سنے، ان کہے ہی رہ جاتے ہیں۔ کسی دریا کے کنارے بیٹھ کر دریا کے پانی کو سب کہنا سنانا ایک خوشگوار تجربہ ہے۔ کچھ اپنی کہنا کچھ بہتے پانی کی سننا۔ سسی نے چناب کو امر کر دیا تو بہتا چناب آج بھی اپنے کنارے آنے والوں کو سسی کا روگ سناتا ہے۔ دریا بپھرے ہوئے بھی ہوتے ہیں پر سمندر خاموش، بظاہر خاموش پر تہہ میں طوفان چھپائے۔

کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

پانی کے ذخائر سمندر ہوں یا دریا، اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ پر جو بات جھیلوں میں وہ کسی اور میں کہاں؟ جتنی شہرت ( دشت نوردوں /جہاں گردوں کی نظر میں ) جھیلوں کے حصے میں آتی ہے اس کا عشر عشیر بھی دریاؤں سمندروں کو نصیب نہیں ہوتا۔ کیونکہ دریاؤں اور سمندروں کی طرح جھیلیں سب کی دسترس میں نہیں ہوتیں۔ کچھ جھیلیں تو اپنے تک آنے والے متوالوں کو بہت خواری کے بعد سو پردوں میں چھپ کر ( ایک ایک پردہ الگ کرنے میں بہت کشٹ کاٹنے پڑتے ہیں ) رونمائی کراتی ہیں۔ پر سچ ہے جھیلیں دیوانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

بات پانی کی تھی اور دور نکل گئی کہ بات چل نکلتی ہے تو دور تلک جاتی ہے۔ بہرحال پانی کسی بھی صورت میں ہو، دریا ہو، سمندر ہو، جھیل ہو، کنواں ہو، چشمہ ہو، گلیشیر ہو، وقت کے ساتھ ہر پانی میں تبدیلی آتی ہے کہ اگلے وقت میں وہ ویسا نہیں رہتا۔ قطرہ قطرہ قلزم، دیکھیں تو ایک قطرے کی کیا وقعت؟ سوچیں تو ایک قطرہ ہی سب حقیقتیں آشکار کرتا ہوا۔ قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل۔ مزید عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا، قصہ مختصر قطرے میں کل جہان۔

بارش کے قطرے بھی پانی، برستا پانی کہاں کہاں تبدیلی کا موجب نہیں بنتا۔ پیاسی بنجر زمینوں کو تو سیراب کرتا ہی ہے دلوں کی زمینوں کا موسم بھی بدل ڈالتا ہے۔ کہیں خوشیاں، کہیں اداسیاں، وہ بھی بے پناہ اداسیاں ( پہاڑی علاقوں کی مسلسل بارش اپنا ہی ایک خاص سحر رکھتی ہے ) ۔ کہاں کہاں سے، کس کس خطہ زمین سے پانی کے قطرے بخارات بن کر ہوا کے دوش پر کہاں کہاں پہنچتے اور کس کس کو سیراب کرتے ہیں، کس کس کو اداس، کس کس کو خوش۔

آنسو بھی پانی، الگ کہانی، خوشی کی انتہا بھی آنسو، غم کی شدت بھی آنسو۔ پانی جس حالت میں بھی ہو پانی زندگی۔ پانی کے صد ہا رنگ جیون کے ہزارہا رنگوں سے مماثل ہیں۔ زندگی بھی چلتی رہتی پانی بھی بہتا رہتا۔ پانی بھی حالات، وقت کے مطابق رنگ بدلتا رہتا۔ جیون کا دھارا بھی بہتا رہتا، رنگ بدلتا رہتا ہے۔ کبھی خوشی، کبھی غم، کبھی دھوپ، کبھی چھاؤں، کبھی خزاں، کبھی بہار۔ پانی رواں تو حیات بھی رواں۔

ایک پانی آب حیات بھی سمجھا جاتا ہے جس کا روایات میں بہت چرچا ہے پر شاید سارا پانی ہی آب حیات کیونکہ یہ حیات بخش ہے۔ پانی کے رنگ، سہانے، نرالے انوکھے رنگ زندگی کے رنگوں کی طرح ان گنت سوکھتے دریا اجڑتی مٹتی تہذیبوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ جیسے دریا سوکھنے پر پرندے بھی وہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں اور ان کے کنارے آبادکار بھی۔ اسی طرح زندگی بھی رخ بدلنے لگے تو اکثر اپنے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، کم ہیں جو ساتھ رہ جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments