اگر ہم گرے لسٹ سے نکل بھی جائیں تو


ہم دو ہزار آٹھ سے لے کر اب تک فیٹف ( فنانس ایکشن ٹاسک فورس ) کے گرے لسٹ سے نکلتے اور اندر ہوتے ہوئے آرہے ہیں۔ دو ہزار آٹھ میں پہلی بار ہم کو پرویز مشرف کے دور حکومت میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے فنانسنگ کے الزام میں سرمئی فہرست یا گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا، پھر ہم نے ہاتھ پاؤں مارے اور دو ہزار گیارہ میں اس فہرست سے اپنا سر باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے لیکن پیر پھنسے رہے کیونکہ فوراً دو ہزار بارہ میں پھر ہم نکلے ہوئے سر کے ساتھ اس فہرست میں دوبارہ داخل کر دیے گئے پھر دو ہزار پندرہ میں ہمارا اس فہرست سے نام مٹا دیا گیا لیکن پھر دو ہزار اٹھارہ میں ہمیں چوتھی بار اس فہرست میں شامل کیا گیا۔

مطلب کہنے کا یہ ہے کہ الزام بندے پھر ایک جرم کا ایک بار لگتا ہے اگر اس الزام سے ملزم ایک بار بری یا نکل جائے تو ان کو اسی الزام یا چارج میں دوبارہ ٹرائل نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس اصول کو کریمینل ایڈمنسٹریشن آف جسٹس میں ڈبل جیوپرڈی کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی بھی شخص یا ملزم کو ایک ہی الزام یا ایک ہی چارج میں دو بار ٹرائل نہیں کیا جا سکتا۔

اب ہم آتے ہیں دو ہزار آٹھ سے لے کر اب تک اپنے فیٹف کے الزام کے ٹرائل کی طرف، دو ہزار آٹھ میں ہم پر الزام لگا جو ہم نے دو ہزار گیارہ میں کلیئر کیا تو ہم نے اپنی بے گناہی یا متعلقہ الزام سے لاتعلقی کا ثبوت فراہم کیا ہوا ہو گا جس کہ بنا پر ہمارا نام گرے یا سرمئی فہرست سے نکال دیا گیا۔ پھر ہم ایک سال بعد اسی الزام میں پھر دھر لئے گئے تو ہم نے اپنے دفاع میں سابقہ جھوٹے الزامات اور بے گناہی کا تذکرہ ثبوت کے طور پر پیش کیا ہوا ہو گا اور اس وقت کے حالیہ چالیس پوائنٹس کی طرح پوائنٹس رکھ دیے ہوئے ہوں گے جس کا ہم نے جواب دیا ہو گا جو ہمیں تین سال کے مسلسل ٹرائل کے بعد دو ہزار پندرہ کو اس سرمئی لسٹ سے خارج کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہو گا۔

ہم پھر تین سال تک کسی لسٹ کے بغیر اپنی زیست و کار ریاست چلاتے رہے لیکن بدقسمتی سے ہمیں دو ہزار اٹھارہ میں اسی ہی الزام میں اسی ہی لسٹ میں پھر سے شامل کیا گیا۔ اور آج دو ہزار بائیس تک ہم اس لسٹ سے نکلنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ اور آج کل بڑی خوشی منائی جا رہی ہے کہ ہم گرے لسٹ سے نکلنے والے ہیں لیکن یہ ٹائم فریم نہیں دے رہے ہیں کہ ہم کو پھر کب اس لسٹ میں شامل کیا جائے گا یا ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس لسٹ سے نکال۔ دیا جائے گا۔

ہم بطور عوام یا ریاست عالمی طاقتوں میں لگتا ہے کہ وہی حیثیت رکھتے ہیں جو عام لوگ ہمارے وطن عزیز میں رکھتے ہیں جن کو پولیس یا ریاستی مشینری جب چاہے کسی کیس میں اندر کرے اور جب چاہے باہر کرے لیکن بڑے لوگوں کو وہ قوانین موثر نہیں جو عوام کو میسر ہے۔ منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ میں تو بڑے بڑے ممالک کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں لیکن وہ نہ گرے لسٹ میں ہیں اور نہ بلیک لسٹ میں لیکن ایک ہم ہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے کبھی اندر اور کبھی اس لسٹ سے بار ہونے کی مشق میں برسر پیکار ہیں۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب ہم دو ہزار آٹھ تک گرے لسٹ میں نہیں تھے تو ہم نے کون سی غیر معمولی ترقی کی منازل طے کی تھیں اور جب دو ہزار آٹھ میں گرے لسٹ میں شامل ہو گئے تو کون سی ایجادات ہم نے کرنی تھی جو رہ گئے تھے اور جب ہم کو دو ہزار گیارہ میں گرے لسٹ سے نکالا تو ہم نے وہ مکمل کر لئے تھے۔ بالکل اسی طرح جب ہم دو ہزار بارہ سے پندرہ تک گرے لسٹ میں نہیں تھے تو ہم نے کون سے اہداف حاصل کیے جو عالمی منظرنامے میں ہم ان کو ایک مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں یا جب ہم دو ہزار اٹھارہ میں گرے لسٹ میں شامل کر لئے گئے تو اب تک وہ کون سے کارنامے ہیں کہ جب کل کلاں اس گرے لسٹ سے نکل جائیں گے تو وہ کارناموں کا ہمالیہ ہم سر کر جائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم ہی دہشت گردی کے شکار رہے ہیں اور ساتھ ساتھ دہشت گردی کے سپیشل کورٹس بنا کر دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے سیکڑوں کیسز بھی نمٹائے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے کیسسز بھی بنے ہیں اور تاحال اس کے ملزمان اپوزیشن اور حکومت میں موجود ہیں یہ وہ تمام تقاضے ہیں جو ایک ریاست میں قانونی طور پر پورے کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اب پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ گرے لسٹ سے نکل کر عوام کو کیا ملے گا۔ اگر خدانخواستہ بلیک لسٹ ہوتے اور فنانشل ایڈ بند ہوتی یا گرے لسٹ سے نکل کر فنانشل ایڈ آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں تو عوام کو براہ راست کیا ملنے والا ہے؟

وہ تو پہلے بھی یوٹیلٹی سٹورز کے سامنے آٹا، چینی گھی اور دالوں کے لئے سارا سارا دن قطار میں کھڑے رہتے تھے اور کھڑے رہیں گے، سی۔ این۔ جی اور پیرول پمپس پر ان کی قطاریں پہلے بھی تھی اور اب بھی ہوں گی، لوڈشیڈنگ کا عذاب پہلے بھی تھا اور اب بھی ہو گا۔ مہنگائی پہلے بھی تھی اور اب بھی ہوگی بلکہ مزید اور بڑھے گی۔ سیلانی، چھیپا اور دیگر خیراتی دسترخوانوں پر پہلے بھی عوام ہاتھ صاف کرتے تھے اور اب بھی کریں گے، ہمیں کسی لسٹ کی پٹھو گول گرم، آنکھ مچولی، چھپن چھپائی یا ایم پریس، بنڈا کے اس محلاتی کھیل کے گنتی اور اس کے بعد بھاگم دوڑی اور مارا ماری کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔

ہمیں شطرنج کے گیم کی طرح اپنے بساط پر اپنی اپنی مہرے بڑے خیال، سوچ اور تدبر سے چلانے چاہیے اور اپنے طرزعمل، اپنے رویوں اور سیاسی لیڈر شپ کے ساتھ سول ملٹری بیوروکریسی کو بڑی ذمہ داری سے عوامی امنگوں اور ضروریات کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا تب ہم کسی لسٹ یا کسی کالے یا سرمئی فہرست کے داخل خارج کے حاضری رجسٹرڈ سے نکلنے کے قابل ہوں گے ورنہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments