حکومت جلدی نہیں جائے گی، یہ کمپنی چلے گی


بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص کو ہر مشہور برانڈ کی شراب کے ذائقہ کا علم تھا۔ وہ آنکھیں بند کر کے شراب کا ایک گھونٹ پی کر کمپنی کے بارے میں بتا دیا کرتا تھا لیکن جب اسے ایک بار مختلف کمپنیوں کی شراب مکس کر کے پلائی گئی تو وہ شراب کی کمپنی تو نہ بتا سکا لیکن اس نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ میں تو نہیں بتا سکتا یہ شراب کس کمپنی ہے لیکن ایک بات بتا دیتا ہوں یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا 11، 12 سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل مخلوط حکومت کو درپیش ہے۔

سیاسی شعور اور سوجھ بوجھ رکھنے افراد کی شہباز شریف حکومت کے مستقبل بارے پیش گوئیوں میں وزن ہو سکتا ہے لیکن اب معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے سیاسی کارکن بھی دو ارکان کی اکثریت پر قائم ہونے والی مخلوط حکومت کے مستقبل کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں جوں جوں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ موجودہ حکومت سے نالاں لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ 6 بلین ڈالر کے حصول کے لئے آئی ایم ایف کے پاس کشکول اٹھائے حکومت کی پریشانی بھی دیدنی ہے۔

وفاقی بجٹ میں نئے ٹیکس عائد کرنے کے باوجود آئی ایم ایف ناخوش دکھائی دے رہا ہے۔ پچھلی حکومت سے کیے گئے وعدے پورے کرنے پر ہی آئی ایم ایف موجودہ حکومت معاہدہ کرے گا۔ عمران حکومت کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں نے موجودہ حکومت کو لہو لہان کر دیا ہے۔ دو ماہ گزرنے کے باوجود موجودہ حکومت سنبھل نہیں پائی اب تو عمران خان بھی کہنے لگے ہیں کہ موجودہ حکومت ڈیڑھ دو ماہ کی مہمان ہے لیکن وزیر اعظم شہباز شریف ہر قسم کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔

موجودہ حکومت کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی موجودہ حکومت کی اکثرو بیشتر جاری کی گئی ایڈوائسز کو روکے بیٹھے ہیں۔ اب تک موجودہ حکومت کی ایڈوائس پر گورنرپنجاب سمیت کچھ تقرریاں کی ہیں۔ گورنرپنجاب کی تقرری پر صدر مملکت نے جس طرح وفاقی حکومت کو تگنی کا ناچ نچایا ہے۔ وہ بھی ہماری پارلیمانی تاریخ کا افسوس ناک باب ہے۔ ابھی تک 3 صوبوں میں گورنروں کی تقرری عمل میں نہیں آئی۔

مخلوط حکومت کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ دو ارکان کی اکثریت پر قائم حکومت کو اتحادیوں کے ناز نخرے اٹھانے میں اصول و ضوابط کو بھی نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ شنید ہے قومی وطن پارٹی موجودہ حکومت سے نالاں ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے آفتاب شیر پاؤ کو حکومت کا حصہ بننے کی دعوت دی لیکن انہوں نے ناراضی کے باعث حکومت کا حصہ بننے سے معذرت کر لی۔ علی وزیر نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اس وقت ان کو خاص طور پر کراچی سے لایا گیا تھا لیکن تاحال انہیں بجٹ اجلاس میں نہیں لا یا گیا ان کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے لئے میاں رضا ربانی کو بیان جاری کرنا پڑا۔ علی وزیر گزشتہ 15 ماہ سے زیر حراست ہیں۔ میاں رضا ربانی سپیکر قومی اسمبلی کو پروڈکشن آرڈر جاری کرنے بارے میں ان کے اختیارات یاد دلانا پڑے۔

پنجاب اسمبلی کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ پنجاب اسمبلی میں حکومت اور سپیکر کے درمیان لڑائی نے شدت اختیار کر لی ہے۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی صوبائی اسمبلی کے الگ الگ اجلاس منعقد ہوئے ہیں۔ اقتدار کی جنگ نے اس حد تک شدت اختیار کر لی ہے جس کے جی میں جو آ رہا کر رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں پی ٹی آئی نے وفاق میں اپنے آپ کو پارلیمانی سسٹم سے باہر رکھنے کے لئے قومی اسمبلی کی 131 نشستوں سے استعفے دے دیے تھے لیکن مستعفی ارکان اپنے استعفوں کرانے کے لئے تیار نہیں ایک رکن جان محمد جمالی ایوان میں واپس آ گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے مستعفی ہونے والے ارکان کا معاملہ التوا میں رہنے کا امکان ہے۔ 2014 ء میں بھی پی ٹی آئی کے ارکان نے استعفوں کی تصدیق نہ کروائی اور تمام مراعات بھی وصول کرتے رہے اب بھی کچھ ایسی ہی صورت حال نظر آ رہی ہے۔ تاحال پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی نے سرکاری رہائش گاہیں خالی نہیں کیں پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کی پالیسی بالکل مختلف ہے۔ اس نے جہاں پنجاب اسمبلی میں سبطین خان کو اپوزیشن لیڈر مقرر کر کے عملی طور حمزہ شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ تسلیم کر لیا ہے۔ وہاں وہ ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہی ہے۔ عمران خان خود 20 انتخابی حلقوں کا دورہ کرنے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے نواز شریف کی سیاسی جانشین مریم نواز بھی خم ٹھو نک کر میدان میں اتر آئی ہیں۔

ضمنی انتخابات سے قبل ہی کپتان نے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کا واویلہ شروع کر دیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر ضمنی انتخابات میں دھاندلی کرنے کے لئے ہر ہفتے حمزہ شہباز اور مریم نواز سے ہدایات حاصل کر رہے ہیں۔ اس طرح عمران خان اپنی ممکنہ شکست کے خطرہ کے پیش نظر ضمنی انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی کے الزامات عائد کر کے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی شکست کا باعث چیف الیکشن کمشنر ہیں۔

شیخ رشید احمد موجودہ حکومت کے لئے بارودی سرنگیں بچھانے کا پہلے ہی اعترا ف کر چکے ہیں۔ اب سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے رہی سہی کسرنکال دی ہے۔ انہوں کہا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک (چار سالوں ) پی ٹی آئی کی حکومت نے قرض کا 80 نہیں 76 فیصد لیا ہے۔ یہ سب سے بڑی بارودی سرنگ ہی تو ہے۔ موجودہ حکومت کو 20 ہزار ارب کے قرض کی ادائیگی کرنی ہے۔ یہ بارودی سرنگ موجودہ حکومت کو کسی وقت اڑا سکتی ہے۔

مفتاح اسماعیل نے 9502 ارب روپے کا بجٹ تو پیش کر دیا ہے۔ بظاہر نئے ٹیکس کم لگائے ہیں۔ یہی وجہ ہے۔ بجٹ پر اپوزیشن نے کوئی زیادہ شور شرابا نہیں ہوا البتہ عمران خان نے بجٹ کو عوام و کاروبار دشمن قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ وفاقی حکومت کو بجٹ منظور کرانے میں کوئی مشکل تو درپیش نہیں آئے گی لیکن آئی ایم ایف جس سے 6 بلین ڈالر کے مزید قرضے کی بات چیت چل رہی ہے۔ وفاقی بجٹ پر ناخوش دکھائی دیتا ہے اور مزید ٹیکس عائد کرنے کی فرمائش کر دی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے جون کے وسط میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کر کے پاکستان کے عوام کو ناراض اور آئی ایم ایف کوخوش کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئند ہ پندرہ دنوں میں مزید سخت فیصلوں کا عندیہ دیا ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے پیش گوئی کی ہے کہ بجٹ کے بعد موجودہ حکومت رخصت ہو جائے گی۔ عمران خان کا خیال ہے کہ طاقت ور حلقے بھی سیاسی و معاشی بحران سے پریشان ہیں۔ وزیر اعظم نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے گرینڈ ڈائیلاگ کی پیش کش کی ہے جس کا عمران خان کی طرف سے مثبت جواب نہیں ملا۔

جہاں تک آئندہ ڈیڑھ مہینہ میں حکومت کے رخصت ہونے کا معاملہ ہے، یہ عمران خان سمیت موجودہ حکومت کے مخالفین کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اس وقت برسر اقتدار حکومتی اتحاد کمزور ترین اتحاد تصور کیا جاتا ہے جو ممکن ہے کہ ہوا کے زوردار جھونکے کو بھی برداشت نہ کر سکے لیکن میری ذاتی رائے ہے کہ اس اتحاد کی مضبوطی میں عمران خان کا بڑا کردار ہو گا۔ وہ جس قدر اس اتحاد کو دباؤ میں لانے کوشش کریں گے۔ اسی قدر یہ مضبوط ہو گا۔ اگر عمران خان بنی گالہ جاکر سو گئے تو ممکن ہے۔ اتحادی آپس میں لڑ پڑیں اس لئے میں کہتا ہوں یہ کمپنی چلے گی۔ اگست 2023 ء تک چلے گی۔ اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اکٹھے چلنے کا دس سالہ معاہدہ ہو گیا تو پھر یہ کمپنی زیادہ دیر چلے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments