صفدر ھمدانی کا کوئی ثانی نہیں


محترم صفدر ہمدانی ایک زندہ دل ادبی شخصیت ہی نہیں، ایک جیتی جاگتی محفل اور متحرک ادارہ بھی ہیں۔ ادب، ثقافت، صحافت، براڈ کاسٹنگ، صدا کاری، تحقیق، مرثیہ خوانی، ریڈیو اکیڈمی کے استاد اور سفر نامہ نگاری کی دنیا میں انہوں نے جو نام، مقام اور احترام کمایا ہے، وہ ہماری تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ادب، ابلاغیات اور براڈ کاسٹنگ کے جن جن شعبوں میں محترم صفدر ہمدانی صاحب نے قدم رکھا، وہاں ایسے نقوش ثبت کیے ہیں، جو ان شعبوں میں نئے آنے والوں کو نئی راہیں سجھا رہے ہیں۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ محترم صفدر ہمدانی کا نام اور کام ایسا ہے، جس کے ذکر خیر کے بغیر ہماری ابلاغیات، نشریات اور منقبت نگاری کی تاریخ مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔

کہتے ہیں کہ ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہم محترم صفدر ہمدانی کی کامرانی کو دیکھیں تو اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے پیچھے محض ان کی جیون ساتھی کا ہاتھ نہیں بلکہ وہ سر تا پا کار فرما نظر آتی ہیں۔ اور ہمارے محترم صفدر ہمدانی صاحب کسی جھجک کے بغیر بر سر محفل اس حقیقت کے معترف بھی دکھائی دیتے ہیں۔

دنیائے ادب و نشریات میں محترم صفدر ہمدانی اور محترمہ مہ پارہ صفدر کی جوڑی مشہور بھی ہے اور معروف و مقبول بھی۔ جیون بندھن میں بندھنے سے پہلے یہ مہ پارہ زیدی تھیں اور پی ٹی وی پر اسی نام سے انہوں نے نیوز کاسٹر کی حیثیت سے شہرت سمیٹی۔ دونوں نے 1979 میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اور شانے سے شانہ ملا کر اکٹھے سفر شروع کیا تو مہ پارہ زیدی مہ پارہ صفدر بن گئیں اور اب انہیں دنیا اسی نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔

یہ ان دونوں کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں جیون ساتھی بھی انہی کی دنیا کا ملا۔ اس ادبی جوڑے کی خصوصیات اور پس منظر میں بھی بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ دونوں کا برج یعنی عقرب ایک ہی ہے۔ یہ دونوں نومبر کے مہینے میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ دونوں کو ادبی ذوق و شوق ورثے میں ملا۔ صفدر ہمدانی صاحب کا ذکر ہو گا بعد میں۔ پہلے بات ہو جائے محترمہ مہ پارہ صفدر اور ان کے حسب نسب کی۔ ان کے والد محترم سید حسن عباس زیدی شاعر، ادیب اور استاد تھے۔

جبکہ ان کی والدہ ماجدہ سیدہ شمس الزھرہ نے سوز خوانی میں نام اور مقام کمایا۔ میڈم مہ پارہ صفدر نے انگریزی ادبیات میں ایم اے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔ اور اسی دوران ریڈیو پاکستان پر یونیورسٹی پروگرامز میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حوصلہ افزائی پر ریڈیو پاکستان لاہور میں متعدد شعبوں میں پروگرام کیے اور یہیں سے پاکستان ٹی وی لاہور مرکز پر نیوز کاسٹنگ کے لیے منتخب ہو گئیں اور اس شعبے میں ابصار عبدالعلی اور عزیز الرحمٰن نے ان کی رہنمائی کی۔

بعد ازاں لاہور کے بعد وہ پی ٹی وی کی قومی نشریاتی اسکرین پر نیوز کاسٹر کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں کوئی پرائیویٹ ٹی وی چینل متعارف نہیں ہوا تھا، لہذا ملک بھر میں جلد ہی ان کا ایک نام اور مقام بن گیا۔ عالمی سطح پر اپنے پیشہ ورانہ جوہر دکھانے کے لئے یہ جوڑا برطانیہ چلا گیا، جہاں یہ دونوں میاں بیوی بی بی سی اردو سروس سے منسلک ہو گئے۔ صفدر ہمدانی 89 میں چار سال کے لیے ماہر لسان کے طور پر ریڈیو جاپان گئے تو 90 جنوری میں ماہ پارہ بی بی سی لندن کی اردو سروس سے وابستہ ہو گئیں جہاں نشریاتی ادارے سے وابستگی کے ساتھ ساتھ مہ پارہ صفدر نے لندن یونیورسٹی سے ویمن اسٹڈیز میں ماسٹر کی ڈگری بھی لے لی۔ جاپان سے 92 میں صفدر ہمدانی جاپان سے لندن آ کر بی بی سی سے وابستہ ہو گئے اور یہ جوڑا آگاہی کے اجالے پھیلاتا رہا۔ اس نامور جوڑے کا شعبہ ایک ہونے اور ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہوتی چلی گئیں۔

صفدر ہمدانی نے جاپان کی وزارت خارجہ میں افسران کو اردو پڑھانے کا کام کیا اور اسی طرح برطانیہ کے سرکاری حکام کو بھی اردو پڑھاتے رہے

محترم صفدر ہمدانی صاحب ایک قد آور ادبی شخصیت ہیں۔ ان کے قدو قامت کو دیکھنے کے لئے مجھے دونوں ہاتھوں سے اپنی ٹوپی سنبھالنی پڑتی ہے۔ میں ان کے کام اور کلام سے فیض یاب تو ہوتا رہا ہوں لیکن اس کا ناقدانہ جائزہ لینا میرا منصب نہیں۔ انہوں نے جو کام کیا ہے، وہ کوئی شخصیت تن تنہا کر ہی نہیں سکتی۔ حیرت ہوتی ہے کہ کوئی ایک شخص بیک وقت کامیابی کے ساتھ بہت سے راستوں پر سفر کیسے کر سکتا ہے؟ اور انہوں نے یہ ہمیں کر کے دکھایا ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی شعبے میں کسی نے اہم کارنامے انجام دیے ہوں اور دنیا اسے برگد کا پیڑ قرار دینے پر مجبور ہو تو ایسی شخصیت کے زیر سایہ پودے پروان نہیں چڑھتے لیکن یہ بات محترم صفدر ہمدانی نے غلط ثابت کردی ہے۔ وہ ایک ایسے بڑے باپ کے فرزند ارجمند ہیں، جنہوں نے براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں بھی صف اول کی شخصیات کی امامت کا اعزاز اپنے نام کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہوا کے دوش پر جو پہلی آواز دور دور تک لوگوں تک پہنچی، وہ ہمارے صفدر ہمدانی صاحب کے والد بزرگوار محترم مصطفیٰ ہمدانی ہی کی تھی۔ 13 اور 14 اگست 1947 کی درمیانی رات 12 بجے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے پاکستان کے قیام اور غلامی سے آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اسی کی بنیاد پر اپنے والد بزرگوار مصطفیٰ ہمدانی کو محترم صفدر ہمدانی نے بڑے خوبصورت انداز میں سلامی دی ہے۔

ہم مناتے ہیں جو یہ روز سعید
سچ تو یہ آزاد لوگوں کی ہے عید
قبر میں تا حشر صفدر اس کی نور
صبح آزادی کی دی جس نے نوید

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ محترم مصطفی ہمدانی براڈ کاسٹنگ کے دنیا میں برگد کا ایک گھنا اور سایہ دار پیڑ تھے اور ایک ایسا پیڑ تھے، جس کے نیچے بہت سے تناور پیڑ پروان چڑھے اور ان میں ایک نام محترم صفدر ہمدانی کا بھی ہے۔ وہ اپنے والد بزرگوار کے نقش قدم پر چلے اور براڈکاسٹنگ کی دنیا میں متعدد شاگرد پیدا کیے۔ انہوں نے پانچ برس تک ریڈیو پاکستان کی اکیڈمی میں نشریات کے طلبا کی تربیت کی اور اس دور میں ملک بھر میں ریڈیو پاکستان کے مراکز کے سربراہ ان کے شاگرد رہے جن میں سے بڑی تعداد اب ریٹائرڈ ہو چکے ہیں

صفدر ہمدانی نے نشریات و صحافت ہی میں نہیں، گلشن ادب میں بھی رنگ جماتے، خوشبو لٹاتے اور فکر و خیال کی روشنی سے اذہان و قلوب کو جھلملاتے نظر آ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی توانائیوں میں کمی نہیں آئی بلکہ ان کا سفر تیز تر ہو گیا ہے۔ بات ہو رہی ہے محترم صفدر ہمدانی کی لیکن ان کا مرتبہ جاننے کے لئے محترم مصطفیٰ ہمدانی کا مقام جانے بغیر بات ادھوری رہے گی۔ مجھے یاد ہے کہ ادبی تنظیم قافلے کے پڑاؤ میں معروف ٹی وی کمپیئر طارق عزیز کو میرے والد گرامی سید فخرالدین بلے نے ٹی وی کا مصطفیٰ ہمدانی قراردیا تھا اور ان ریمارکس پر طارق عزیز نے کہا تھا کہ آپ کا یہ کہنا میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔

جیسے ریڈیو پاکستان کی نشریات کے آغاز کا سہرا محترم مصطفیٰ ہمدانی کے سر ہے، بعینہ طارق عزیز نے پاکستان کی ٹی وی نشریات شروع کرنے کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ بلاشبہ محترم صفدر ہمدانی برگد کے چھتنار پیڑ کے زیر سایہ پروان ضرور چڑھے ہیں لیکن اب خود ایک برگد کا چھتنار اور تناور پیڑ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے سائے میں ان گنت پودے پلے اور پروان چڑھے ہیں۔ وہ اپنے سائے میں بیٹھنے والوں کے قد بڑھتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔

باصلاحیت نوجوانوں کی ہمت بندھاتے ہیں۔ ان کی فکری رہنمائی کرتے ہیں۔ انہیں ساتھ لے کر چلتے ہیں اور اپنے عالمی اخبار کے صفحات کو انہوں نے ان مقاصد کے لئے بھی وقف کر رکھا ہے۔ یہ پھل دار پیڑ اور اعلیٰ طرف انسان کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ محترم صفدر ہمدانی صاحب کی عاجزی اور انکساری دیکھ کر مجھے اپنے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔

پیڑ نعمت بدست و سر خم ہے
ہے تفاخر بھی انکسار کے ساتھ

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے بہت کچھ ہوتے ہوئے اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا اور ادب کا جہان ہو کر بھی خود کوایک معمولی انسان اور طالب علم سمجھنا بھی ایک ایسا وصف ہے، جس نے محترم صفدر ہمدانی صاحب کی عظمت کو چار چاند لگا رکھے ہیں۔

محترم صفدر ہمدانی ایک منجھے ہوئے ادیب، دلوں کے تار ہلا دینے والے شاعر، مایہ ء ناز اسکالر، حب اہل بیت اطہار سے سرشار مرثیہ نگار، باریک بیں محقق، سحر طراز براڈ کاسٹر، دیدہ ور کالم نویس، آواز کی دنیا کے بے تاج بادشاہ، دل کے دروازوں پر دستک دینے والے صداکار، کئی دہائیوں سے سمندر پار مقیم رہنے کے باوجود پاکستانیت کے علم بردار، سیرو سیاحت کے شوقین، انجمن آرائیوں کے رسیا، اسلامی اقدار و روایات کے پاسدار، نشریات اور ابلاغیات کے ماہر اور برطانیہ میں مملکت خداداد پاکستان کے غیر سرکاری اور غیر علانیہ سفیر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات میں اتنی دنیاؤں کو سمیٹے ہوئے ہیں کہ کسی ایک مختصر سے مضمون میں ان کے شخصی اوصاف، پیشہ ورانہ مہارت، فنکارانہ جہتوں اور گراں مایہ خدمات کا احاطہ آسان نہیں ہے۔

محترم صفدر ہمدانی نے براڈکاسٹنگ، صداکاری، ابلاغیات، ادب، تصنیف و تالیف، مرثیہ نگاری، کالم نویسی اور سفرنامہ نگاری کی دنیا میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں اور انہی کارناموں نے انہیں عالمی سطح پر شہرت و مقبولیت کی نئی رفعتوں سے ہم کنار کیا ہے۔

محترم صفدر ہمدانی کی زندگی کی کہانی داتا کی نگری سے شروع ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کا آفتاب لاہور ہی کے ایک معروف ادبی خانوادے میں 17 نومبر 1950 کو طلوع ہوا۔ شعور نے آنکھ کھولی تو فضاؤں میں درود و سلام کی گونج سنائی دی۔ پنجتن پاک کی محبت و عقیدت ورثے میں ملی تھی۔ گھر کے ماحول کی پاکیزگی نے اسے مزید جلا بخشی۔ یہ ایک ایسا بیج تھا جوان کی زمین دل میں ان کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا رہا اور ان کے ساتھ ساتھ یہ بھی بڑھ کر ان کی طرح توانا ہوتا چلا گیا۔ تعلیم و تربیت کے تمام مراحل لاہور ہی میں طے کیے ۔ ان کے ہاں جو والہانہ پن نظر آتا ہے، یہ لاہور کی فضاؤں کی دین ہے۔ وہ کل بھی لاہوری تھے اور برسوں لاہور سے دور رہنے کے باوجود آج بھی لاہوری ہیں۔

صفدر مری لاہور سے نسبت ہے عجب سی
میرے لیے یہ شہر مدینے کی طرح ہے

ایف سی کالج، لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے والد بزرگوار مصطفیٰ ہمدانی، خالو فارغ بخاری اور ماموں رضا ہمدانی سے ادب و صحافت کا ذوق ورثے میں ملا تھا۔ اسی لئے اسی سلسلے کو روزگار کا وسیلہ بنانے کی ٹھان لی۔ والد بزرگوار نے ریڈیو پاکستان لاہور سے نشریات کا آغاز کیا تھا اور محترم صفدر ہمدانی نے بھی اپنے رجحان اور میلان کے باعث 1974 میں ریڈیو پاکستان، لاہور ہی سے پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستگی اختیار کرلی اور پنڈی، تراڑکھل اسلام آباد اور ریڈیو اکیڈمی میں خدمات سر انجام دیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب ریڈیو ایک نشریاتی ادارہ ہی نہیں تربیتی ادارہ بھی ہوا کرتا تھا۔ بڑی بڑی ادبی شخصیات کی ادبی و علمی سرگرمیوں کا مرکز یہی ریڈیو اسٹیشن لاہور تھا۔ نامور شخصیات سے ملاقاتوں کا ایک بہانہ بھی ان کے ہاتھ آ گیا۔ رفتہ رفتہ یہ پروفیشن ان کا پیشن (PASSION) بن گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments