گاؤں سے عشق


شام تمام ہوئی پرندے گھروں کو لوٹ چکے۔ پارک تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ خاموش سماں تھا زمین پر بکھرے خشک پتوں کی سرسراہٹ کا تسلسل بندھا ہوا تھا۔

ہم دونوں نظریں جھکائے آدھے گھنٹے سے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ بالآخر اس نے سکوت توڑا اور مخمور نگاہ اٹھاتے ہوئے کہا

کیا تم میرے لیے گاؤں نہیں چھوڑ سکتے؟
کھلیانوں میں اگتی فصلوں کی مہک
صبح کے وقت چہکتے پرندے چوں چوں کرتی چڑیا کوکتی کوئل
بارش کے وقت سوندھی مٹی کی بو باس
شام کو لوٹتے ریوڑوں کی گرد اور ان ریوڑوں کو ہانکتے چرواہوں کی آوازیں
مولوی کے رات کے پچھلے پہر میں سنائے جانے والے مولود
آئی کے ہاتھ کا پکا ساگ اور جوار کی روٹی ماسی شہر بانو کی جھاگ بھری لسی کا گلاس
حقے کے گڑ گڑ کی آواز
لو کے موسم میں کھبڑ پہ اگتے پیلوں ساون کی موسلادھار برسات کے بعد اگتی کھمبیاں۔
کیا میں صرف آپ کے لیے ان سب کو چھوڑ دوں؟
یہ سراسر نا انصافی ہوگی۔
میں گاؤں نہیں چھوڑ سکتا۔

آخری ملاقات
فلسفیانہ لب و لہجہ، ادبی افکار، تمدنی شعور سے بھر پور اور صوفیانہ مزاج سے لبریز۔ حقیقت میں وہ اپنے وجود میں کسی صوفیہ سے کم نہ تھی۔ لوک داستان سے اسے بڑی رغبت تھی۔

وہ جب بھی ملتی تھی کبھی ہانی شہ مرید کبھی سسی پنوں، کبھی ہیر رانجھا تو کبھی شیریں فرہاد کی لوک داستانوں کا ذکر کرتی۔

عصر حاضر کی درویش منش لڑکی ماہ نور جسے میں پیار سے ماہی کہتا تھا میری زندگی میں کسی انقلاب سے کم نہ تھی۔

وہ کبھی اپنی شیریں آواز میں شاہ لطیف کے بیت سنانے بیٹھتی تو میں گھنٹوں اس کے بیت سنتا۔
اور دنیا سے قطع تعلق ہو جاتا۔
عصر حاضر کے معاشرے میں پلی بڑھی لیکن اسے مادی دنیا سے کوئی سروکار نہ تھا۔
ایک شام ماہی مجھے شہر کے مضافات میں واقع تفریح مقام میں آنے کا کہتی ہے۔
شام کے وقت اس تفریح مقام میں لوگوں کی بڑی تعداد وقت گزاری کے لئے آتی تھی۔
میں وہاں پہنچتا ہوں ماہی پہلے سے وہاں موجود تھی۔
مجھے دیکھ کار وہ دو زانوں بیٹھ جاتی ہے۔
جیسے کوئی مرید مرشد کے ادب میں بیٹھتا ہو۔
اس کے چہرے پر افسردگی کے آثار نمایاں تھے۔
اسی اثنا میں اذان کی آواز آتی ہے۔
وہ نماز پڑھنے کے لئے اٹھتی ہے اور مجھے بھی نماز پڑھنے کا کہتی ہے۔
اس شام ہم نے اکٹھے لان میں نماز ادا کی۔
ہمیں لوگوں کی موجودگی کا احساس تک نہ رہا۔
نماز سے فارغ ہو کر ہم اسی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔
لمحہ بھر کی خامشی کے بعد ماہی مسکراتے ہوئے کہتی ہے۔
میں اپنی محبت کو تکمیل خواہش کا رنگ نہیں دینا چاہتی۔
میں اسے جاوداں رکھنا چاہتی ہوں۔
کیا تم میرا ساتھ دو گے؟
میں نے ہاں میں سر ہلایا۔
اس کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
وہ کہتی ہے علی یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔
وہ تیز گام بھرتے ہوئے لان سے باہر گئی اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
ستاروں کی روشنی
بہار اپنے جوبن پر تھی کیاریوں میں لگے پھولوں کی بو باس نے صحن کو معطر کر رکھا تھا۔

ستاروں کی روشنی نے تو ماحول کو چار چاند لگا رکھے تھے اس نے ستاروں کی طرف نگاہ اٹھاتے ہوئے کہا آج ستارے کتنے خوش نظر آرہے ہیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

کامنی بھلا چاند کے بغیر ان کی روشنی میں وہ لطف کہاں۔

لیکن علی آج ان ستاروں نے مجھے اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا ہے اور وہ شاید ہماری ملاقات سے محظوظ بھی ہو رہے ہوں۔

لیکن کامنی آج جو ستارے بنا چاند کے بھلے لگ رہے ہیں اس کی وجہ بھی یقیناً آپ ہو۔
وہ آپ کی خوبصورتی سے محظوظ ہو رہے اور خوش نظر آرہے ہیں۔
علی آپ بھی نا ہر چیز کو میری خوبصورتی سے جوڑ دیتے ہو۔

اچانک فضا کا ایک تیز جھونکا آیا کامنی نے جلدی سے اپنی شال سے اپنا منہ چھپایا جب تک ہوا چلتی رہی اس نے منہ چھپائے رکھا

میں نے جب آسمان کی طرف نگاہ ڈالی تو ستاروں کی روشنی اب مدھم ہو چکی تھی۔

احمد علی کورار
Latest posts by احمد علی کورار (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments