قصہ اک اجڑے شہر کا


جنوبی پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے بیچ پھنسے شہر جام پور پہنچتے ہی دوست کی طرف خان پور جانے کا قصد کیا۔ جامپور سے سات کلومیٹر دور شہر خان پور تک پہنچنے میں تقریباً پینتالیس سے پچاس منٹ لگے، یاد رہے کہ لاہور میں اتنی ہی مسافت سات سے دس منٹ میں طے ہوجاتی ہے۔ اس سفر کی کہانی تو میں آگے چل کر بتاؤں گا، جون کی تپتی سہ پہر کو پنجر ہلا دینے والے سفر کی تکان اتری ہی نہیں تھی کہ عزیز دوست غلام مرتضی مدنی نے انڈس ہائی وے پر موجود ایک ہوٹل پر چلنے کا اصرار شروع کر دیا۔ ہوٹل کے کھلے ماحول اور کھانے کے ذائقے کی تعریفوں کے قلابے ملاتے ہوئے انہوں نے انکار کی صورت میں ناراض ہونے کی دھمکی دے ڈالی۔ مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق ان کے ساتھ نکل پڑے۔

بہرحال انڈس ہائی وے پر موجود اس ہوٹل پہنچ کر بیٹھے ہی تھے کہ بریکوں کی آواز سنائی دی۔ ویٹر کو بلا کر پوچھا تو پتہ چلا ایک موٹرسائیکل سوار جا رہا تھا تو سڑک پر موجود گڑھے کی زد میں آ کر گر گیا، شکریہ ہوا کہ اس وقت اس موٹرسائیکل سوار کے آگے سے یا پیچھے سے کوئی ٹرک، ٹرالر یا بس نہیں گزر رہی تھی۔ ورنہ خدانخواستہ معاملہ چند خراشوں یا ہڈیاں ٹوٹنے تک محدود نہ رہتا۔ ویٹر کے مطابق چونکہ رات کے وقت اندھیرا ہوتا ہے تو عموماً موٹرسائیکل سوار روشنی کی وجہ سے اس گڑھے کو نہیں دیکھ پاتے اور اب یہاں حادثے معمول بن چکے ہیں۔

اب یہاں جو ہم کھانے کے لئے آئے تھے کو کھانا چھوڑ کر آگے کنواں اور پیچھے کھائی جیسی صورتحال میں یہ فکر پڑ گئی کہ اگر واپس خان پور جاکر چوٹی روڈ (فرعون کے زمانے کی آخری تعمیر) سے جامپور جائیں گے تو وقت بھی زیادہ لگے گا، نہ صرف ہڈیاں دکھنے لگ جائیں گی بلکہ راستے میں ڈکیتوں کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ یا پھر دوسرے راستے یعنی کہ انڈس ہائی وے کے ذریعے جام پور کا سفر کریں گے تو کسی نامعلوم گڑھے کا نشانہ نہ بن جائیں اگر وہ بھی نہ ہوتو کسی اوور ٹیک کرتی ہوئی گاڑی کی زد میں نہ آجائیں

قارئین کرام اپنی آپ بیتی سے تحریر کا آغاز کرنے کا مقصد آپ کو چالیس سے پچاس لاکھ آبادی کی اس اذیت سے روشناس کرانا تھا جن سے انہیں روزانہ کی بنیاد پر گزرنا پڑتا ہے۔ سابق صدر پاکستان فاروق احمد لغاری کے آبائی شہر چوٹی زیریں اور جام پور کو ملانے والی چوٹی روڈ جو کہ سیاحتی مقام فورٹ منرو اور آگے بلوچستان تک کا مختصر ترین راستہ ہے اور ڈیرہ غازی خان سے لے کر روجھان مزاری تک آبادی کے بیچ سے گزرنے والی انڈس ہائی وے، یہ دونوں شاہرائیں اس آبادی کے لئے درد سر بن چکی ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی انڈس ہائی وے جو بمشکل تیس سے چالیس فٹ چوڑی ہے پر روزانہ کی بنیاد پر حادثات تو معمول ہیں، اس سڑک پر سفر کرنے والوں کے لئے ڈرائیونگ سے بڑا امتحان خود کو بچانا ہوتا ہے۔

اسی طرح فروری مارچ میں چوٹی روڈ جو کہ جام پور سے لے کر چوٹی زیریں تک موجود دیہی آبادی کو ملانے والی روڈ ہے کی خدا خدا کر کے تعمیر نو کا کام شروع ہوا۔ یاد رہے کہ اس سڑک کی آخری دفعہ تعمیر فرعون سوئم کے زمانے میں ہوئی تھی۔ تعمیر نو کا یہ کام اتنا جاں غسل ثابت ہوا کہ اب یہاں کی آبادی پاکستانی قوم کی طرح یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ اس سے بہتر تو وہی ٹوٹی پھوٹی روڈ ہی تھی جس پر سفر تو ہوجاتا تھا۔ فروری کے آغاز میں کام شروع ہوا تو کنٹریکٹر نے سڑک پر بڑے پتھر ڈالے اور اس کے بعد ایسا غائب ہوا کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوئے۔ اب یہ روڈ نہ صرف گاڑیوں کے ٹائروں کے لئے قاتل بن چکی ہے بلکہ سفر کرنے والے کا ایک ایک جوڑ ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے اردگرد لگائی گئی مٹی کی ڈھیریاں دھول کی صورت میں اس سڑک کے کنارے موجود گھروں کے لئے مستقل اذیت کا سامان بھی بن رہی ہیں۔

محترم قارئین جام پور وہ اجڑا شہر ہے کہ جہاں بیوروکریسی کے بابووں کی پوسٹنگ تو بطور سزا ہوتی ہے مگر ان کو جو عیاشی یہاں میسر آتی ہے وہ پاکستان کے کسی بھی شہر میں نہیں ہوگی۔ اپنی مرضی سے اٹھنا اور اپنی مرضی سے دفتر آنا، دل کیا تو شہر کا ٹھاٹھ سے دورہ کرلینا۔ وگرنہ بادشاہ سلامت اے سی والے کمروں میں ہی متمکن رہتے ہیں۔ ایسے میں یہاں قوانین بھی سرکار کے نہیں چلتے ہیں۔ یہ دیکھئے کہ اس شہر کے بیچ میں سے گزرنے والی انڈس ہائی وے پر شہر میں ہونے والے حادثات کے باعث ٹریفک کو باہر سے گزارنے کے لئے اربوں کی مالیت سے بائی پاس روڈ کی تعمیر کی گئی۔ مگر مجال ہے کہ اس بائی پاس کا استعمال کیا گیا ہو۔ ٹھیکیداروں نے انتظامیہ کی ملی بھگت سے بھاری ٹریفک کو شہر سے داخلے کی اجازت دی ہوئی ہے بس شرط یہ ہے کہ ہر گزرنے والی گاڑی کو اس کے موجود کارندوں کو نامعلوم ٹول ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔

اس چھوٹے سے شہر میں ٹریفک جام تو کراچی جیسا ہوتا ہے اس کی وجہ غیر قانونی تجاوزات ہیں اور اس جام سے نمٹنے کا کام بھی شہری اپنی مدد آپ کے تحت کرتے ہیں۔ کیونکہ ٹریفک وارڈن تو یہاں موجود ہیں مگر وہ نظر اس وقت آتے ہیں جب ڈی پی او صاحب نے اس شہر سے گزرنا ہو وگرنہ تو شہر سے باہر یا کسی کونے میں چالان کی آڑ میں رشوت بٹورنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس اجڑے شہر پر تیمور حسن کے چند اشعار پیش کرتے ہوئے تحریر کا اختتام کر رہا ہوں کہ

کوئی نہیں بچانے کو آگے بڑھا حضور
ہر اک نے دوسرے سے کہا شہر کو بچا
لگتا ہے لوگ اب نہ بچا پائیں گے اسے
اللہ مدد کو تو مری آ شہر کو بچا
تاریخ دان لکھے گا تیمور یہ ضرور
اک شخص تھا جو کہتا رہا شہر کو بچا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments